0
Thursday 20 Jan 2022 23:49

خفیہ دستاویز فاش؛ امریکہ عراق سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا!

خفیہ دستاویز فاش؛ امریکہ عراق سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا!
اسلام ٹائمز۔ سال 2020ء کے آغاز میں بغداد ایئرپورٹ کے سامنے ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ایک دہشتگردانہ امریکی کارروائی میں عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر حاج ابومہدی المہندس و رفقاء سمیت بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کے فورا بعد ہی عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے ملک سے امریکی فوجی اتحاد کے مکمل انخلاء کا اکثریت رائے کے ساتھ فیصلہ کیا گیا تاہم امریکہ کے لئے عراق کے انتہائی اہم ہونے کے باعث، اس فیصلے کے بعد سے ہی امریکہ کی جانب سے اسے بے اثر کرنے کی کوششیں بھی شروع کر دی گئیں۔

اس حوالے سے عرب روزنامے الاخبار میں نشر ہونے والے اپنے کالم میں معروف تجزیہ نگار حسین ابراہیم نے انکشاف کیا ہے کہ دونوں فریق امریکی۔اور ان کے عراقی اتحادی، اس معاہدے پر متفق ہیں جو گذشتہ جولائی میں جوبائیڈن کے ساتھ واشنگٹن میں ہونے والی مصطفی الکاظمی کی ملاقات میں دستخط ہوا تھا جبکہ خود عراقی حکومت کے سربراہی عہدے پر مصطفی الکاظمی کی موجودگی بھی امریکی مفاد کی حفاظت کی خاطر ہی تھی تاکہ وہ امریکی مفاد کے مطابق اس معاہدے کو موزوں طریقے سے مرتب کر سکیں۔ حسین ابراہیم نے لکھا کہ تاہم عراق میں اس مبہم پہچان کے ساتھ امریکی فورسز کی موجودگی نے واشنگٹن کے لئے متعدد پریشانیاں کھڑی کر رکھی تھیں جن میں سے ایک اہم ترین پریشانی ان فورسز کی حفاظت تھی جبکہ یہ حفاظت؛ ضرورت کے وقت عراقی ہوائی حدود میں امریکی ڈرون و لڑاکا طیاروں سمیت ہر قسم کی پرواز کی آزادی سے ہی مکمل ہو سکتی تھی درحالیکہ یہ بالکل وہی چیز ہے کہ جس کے حصول کے لئے واشنگٹن "داعش کے خلاف جنگ میں عراقی فورسز کو اطلاعات کی فراہمی اور ہوائی پشت پناہی" کے بہانے سے تگ و دو میں لکھا ہوا تھا!

معروف عرب تجزیہ نگار نے لکھا کہ امریکہ کی نظر میں گو کہ یہ امر اہم تھا لیکن کافی ہرگز نہیں تھا کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکی فورسز کو سیاسی پشت پناہی کی ضرورت بھی تھی تاکہ عراق میں ان کی موجودگی کا "جواز" فراہم کیا جا سکے بنابرایں امریکہ کی جانب سے اکثریت رائے کی حامل ایسی حکومت کی تشکیل کی پشت پردہ کوششیں شروع ہو گئیں کہ جس میں امریکہ و خلیجی عرب ممالک کو ایک بڑا حصہ مل جائے اور عراقی خصوصا حشد الشعبی و مزاحمتی محاذ سے متعلق حلقوں کو ممکن حد تک حذف کر دیا جائے تاہم ایسی حکومت کے تشکیل پانے سے عراقی مزاحمتی محاذ کی جانب سے قابض قوتوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں شدت آ جاتی۔۔ وہی چیز کہ جو نئے سال کے آغاز، حتی نئی حکومت کی پیدائش سے بھی قبل سے شروع ہو چکی تھی اور ایسی حکومت کی تشکیل سے کئی گنا بڑھ جاتی درحالیکہ واشنگٹن کے مطمع نظر تصویر کو وجود میں لانے میں شکست کا مطلب "جواز" کے نہ ہونے کا مسئلہ تھا جس سے مزاحمتی محاذ کی جانب سے امریکی فورسز کو علی الاعلان نشانہ بنانے کا ایسا رستہ مل جاتا کہ جو قابل تحمل بھی نہ ہوتا!

اس کالم میں لکھا گیا ہے کہ (جواز کے) اس موضوع کی تائید کے لئے ایک ایسی خفیہ دستاویز پر دستخط کئے گئے کہ جو عراق سے عدم انخلاء کی امریکی نیت کو ظاہر کرتی ہے، بالکل ویسے ہی کہ جیسے سمتبر 2021ء کی الکاظمی۔بائیڈن ملاقات کے بعد عراق میں امریکی بین الاقوامی فوجی اتحاد کے کمانڈر جنرل رچرڈ بل نے بغداد میں "معتبر" عرب و اتحادی سفراء و سفارتکاروں کے ساتھ ملاقات میں اعلان کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ امریکہ عراق سے نہیں نکلے گا! حسین ابراہیم نے لکھا کہ یہ خفیہ دستاویز، عراق سے امریکی انخلاء کے بارے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مکمل طور پر باریک بینی کے ساتھ لکھے گئے نتائج پر مشتمل ہے جس کی بنیاد پر ایک سال قبل ہی "امریکی فوجی اتحاد کے مشن" کو دوبارہ سے مرتب کیا گیا مگر پھر بھی امریکی فوجی اتحاد کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ عراقی حکومت و آئین کی جانب سے (مستقل طور پر) "جواز" کا حصول ہے کیونکہ یہ لوگ (موجودہ حکام) بغداد کے طاقتور ترین لوگ نہیں۔ عرب لکھاری کے مطابق اسی دستاویز کی بنیاد پر رچرڈ بل نے یہ پیشینگوئی بھی کی تھی کہ عراق سے مکمل طور پر عقب نشینی امریکہ کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہو گی جبکہ وہ ساتھ ہی ساتھ عراق پر داعش کے ویسے مکمل کنٹرول کو بعید سمجھتے ہوئے کہ جیسا امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان نے حاصل کر لیا تھا، مزاحمتی فورسز کہ جنہیں وہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کا نام دیتا ہے، کے مکمل کنٹرول حاصل کر لینے کی "گہری تشویش" بھی ظاہر کرتا ہے!

عرب مصنف کے بقول یہ دستاویز بہت سے حقائق کو برملاء کرتی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ عراق سے امریکی انخلاء فرضی ہے، عملی نہیں البتہ اس سے اہم حقیقت یہ ہے کہ عراق میں ایسے فریق بھی موجود ہیں کہ جو امریکی انخلاء وقوع پذیر ہونے نہیں دیا چاہتے اور انہوں نے حتی "عراق سے امریکی انخلاء" پر مبنی بیان کے دلوانے کے لئے بھی ملی بھگت سے کام لیا ہے تاکہ بظاہر یہ اعلان کر دیا جائے لیکن عملی طور پر وہ کبھی پورا نہ ہو۔ عرب لکھاری نے تاکید کی کہ یہ فریق گذشتہ اکتوبر کے ان انتخابات پر امیدیں لگائے بیٹھے تھے جن میں امریکہ و خلیجی ممالک کے ساتھ وفاداریاں نبھانے والوں کو نسبی کامیابی ملی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان انتخابات میں کسی حد تک کامیاب ہونے والی الصدر موومنٹ کی جانب سے بھی ملک سے امریکی انخلاء کے بارے تاحال شفاف موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ مصنف نے اس حوالے سے مزید لکھا کہ بنابرایں عراقی مزاحمتی محاذ کہ جس نے عدم امریکی انخلاء کی صورت میں (گذشتہ) سال کے اختتام کے بعد امریکیوں کو نشانہ بنانے میں صبر و تحمل سے کام نہ لینے کا وعدہ دیا تھا، نے مزید صبر نہ کیا اور جدید سال کے آغاز سے ہی فوجی اڈوں میں موجود عراقیوں کے علاوہ صرف قابض فورسز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جس کے دوران بغداد ایئرپورٹ، امریکی سفارتخانے، عین الاسد اور بلد کے غیر قانونی امریکی فوجی اڈوں کو متعدد بار ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ الاخبار کے مطابق ان حملوں سے عراق میں ایک سکیورٹی تناؤ بھی وجود میں آیا ہے کہ جو ان فورسز کے لئے مشکل کا سبب ہے جو عراق میں امریکی فورسز کے ساتھ باقی رہنے میں ان کی ہمراہی کرنا چاہتی ہیں (جیسا کہ فنلینڈ و چیکوسلواکیہ وغیرہ کی امریکی اتحادی فورسز) جبکہ دوسری جانب نہ صرف سپیکر پارلیمنٹ محمد الحلبوسی کے پارٹی دفتر بلکہ بغداد و کرکوک میں پیشمرگہ اور دوسری جانب حشد الشعبی و مزاحمتی محاذ کی دوسری فورسز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

حسین ابراہیم نے اپنے کالم کے آخر میں لکھا کہ بائیڈن و الکاظمی کی جانب سے انخلاء کا اعلان کئے جانے سے قبل امریکی دارالحکومت میں انجام پانے والے آخری ٹیکنیکل مذاکرات میں بھی واشنگٹن اور اس کے اتحادی عراقیوں کی نیتیں پوری طرح واضح تھیں جبکہ اس وقت کے عراقی قومی سلامتی کے مشیر قاسم الاعرجی کی سربراہی میں سکیورٹی مذاکرات انجام دینے والی ٹیم سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے الاخبار کو بتایا تھا کہ ان مذاکرات کے مطابق صرف وہی امریکی انسٹرکٹر و مشیر ہی عراقیوں کی لاجسٹک سپورٹ کے لئے باقی رکیں گے جن کے بارے عراقی حکومت درخواست کرے گی۔ عرب لکھاری نے نتیجہ گیری کرتے ہوئے لکھا کہ ذرائع نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکی انخلاء سال 2008ء کے معاہدے پر، بغیر کسی ردوبدل کے انجام پائے گا بالکل ویسے ہی جیسے سال 2014ء میں دوبارہ واپسی سے قبل سال 2011ء میں پہلے امریکی انخلاء میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ اس معاہدے میں عراق میں بغداد ایئرپورٹ پر موجود امریکیوں سمیت تمام امریکی فورسز کا انخلاء اور بغداد کے مغرب و اربیل میں واقع 2 امریکی فوجی اڈوں عین الاسد والحریر کا خاتمہ بھی شامل تھا درحالیکہ اس حوالے سے جاری ہونے والے پینٹاگون کے بیان میں وہ مذاکرات ظاہر کئے گئے ہیں کہ جن میں دونوں فریقوں نے عراقی سکیورٹی فورسز کی پشت پناہی کرنے والی "امریکی فورسز کی حفاظت" پر اتفاق کیا تھا؛ اور یہی بات امریکیوں کی حفاظت کے طریقہ کار کے بارے سوال اٹھاتی ہے خصوصا ایک ایسے وقت میں جب امریکی، اپنے فوجیوں کی حفاظت کو کسی دوسرے فریق کے سپرد نہیں کرتے۔۔!
 
خبر کا کوڈ : 974756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش