0
Thursday 11 Apr 2024 17:11

حقیقی نابغہ روزگار باقر الصدر شہید(3)

حقیقی نابغہ روزگار باقر الصدر شہید(3)
تحریر: سید نثار علی ترمذی

یہ پیغام اگرچہ عراقی عوام سے مخصوص ہے، لیکن ان الفاظ پر غور کریں کہ اس عظیم مفکر نے اسلامی اتحاد کے لیے کیا پیغام دیا ہے۔ اسی کی پاداش میں انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہمیں اس شہید کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیئے۔ اپنے اتحاد سے پوری دنیا میں اسلام کے پرچم تلے، اکٹھے ہو کر اسلامی وقار، اسلامی عظمت، اسلامی اقدار کی حفاظت کرنا چاہیئے اور مذہبی اختلافات کو اپنے انتشار کا سبب نہ بننے دینا چاہیئے۔ آپ نے حکومت اسلامی کے قیام اور مختلف مسالک کے مابین فرق پر وضاحت کرتے ہوئے کہا، جسے آپ نے اپنی کتاب ’’خلافۃ الانسان والشھادۃ الانبیاء‘‘ میں حق حکومت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بے شک امت اس بات کی حق دار ہے کہ وہ حکومت چلائے اور امانت اقتدار کی امین بنے۔۔۔ حکومت کرنے کے اس حق میں امت کے تمام افراد قانون کے سامنے مساوی ہیں اور ہر شخص اپنے مخصوص طرز فکر اور خاص سیاسی طرز غمل کو اپنا سکتا ہے، اسی طرح مخصوص شعائر دینی اور مذہبی رسوم میں مروجہ طریقہ کار اپنا سکتا ہے۔‘‘ (اقتباس از تقریر حجۃ الاسلام شیخ فاضل سہلانی، رپورٹ، بین الاقوامی سیمینار، بانیان وحدت اسلامی، 27 تا 29 نومبر 1985ء زیراہتمام خانہ فرہنگ، جمہوری اسلامی ایران، کراچی، ص 178)

جب امام خمینی نےؒ ایران سے جلا وطن ہو کر ترکی سے عراق(نجف) کی جانب مراجعت فرمائی تو آپ نے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دے کر ان کا شاندار استقبال کیا۔ آپ کا امام خمینیؒ کے حوالہ سے یہ فرمان سنہری لفظوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ یہ فقرہ کئی کتابوں پر حاوی ہے، جو رہبرِ کبیر انقلاب اسلامی کی شان میں لکھی گئیں۔ ’’ذوبوا فی الخمینی کما ھوذاب فی الاسلام‘‘، "امام خمینیؒ میں اس طرح ضم ہو جائو، جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں۔" آپ کی امام خمینیؒ سے حمایت، محبت اور انقلاب اسلامی کی تائید و نصرت، بعثی حکومت کا تشدد بھی کم نہ کرسکا۔ آپ نے ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا۔ آخرکار صدام نے آپ کی ثابت قدمی کا توڑ آپ کی زندگی کا ناطہ توڑ دینے میں ہی سمجھا۔ مگر اس کا یہ حربہ بھی شہید باقرالصدرؒ  کی شخصیت و افکار کو مٹا نہ سکا بلکہ روز بروز ان کی اہمیت دو چند ہوتی جا رہی ہے۔

رہبر معظم سید علی خامنہ نے شہید باقر الصدر کے خانوادہ سے ملاقات میں فرمایا: "میں 1957ء میں عراق گیا اور وہیں میں نے سید محمد باقرالصدر کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جواں تھے۔ تقریباً پچیس سال کے تھے۔ اس وقت میں بھی نوجوان تھا اور میری عمر تقریباً اٹھارہ سال تھی۔ الحمداللہ خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے۔ جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسیٰ۔ اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیت اللہ صدر کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لئے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب آیا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ خدا لعنت کرے صدام پر، الحمداللہ ان لوگوں (صدام اور اس کے گرگوں) کی بیخ کنی ہوگئی۔ شہید صدر حقیقی معنوں میں نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن نابغہ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدر ان افراد میں سے تھے، جو حقیقت میں نابغہ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار دوسروں کی فکری رسائی سے بہت آگے تھے۔ بحمداللہ انہوں نے بہت اچھے تلازمہ کی تربیت بھی کی۔

آیت اللہ شہید باقر الصدر کی کرامت نفس
شہید صدر (رح) کی نظر بندی کے دوران سوائے چند شاگردوں اور قریبی ساتھیوں کے کسی اور کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے قریبی ساتھی اور شاگرد شیخ محمد رضا نعمانی نقل کرتے ہیں کہ آیت اللہ صدر (رح) کی نظر بندی کو ابھی چند ہی ماہ گزرے ہوں گے کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں شہید صدر (رح) کی لائیبریری میں سویا ہوا تھا۔ اچانک انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا ادھر آؤ۔ میں لائیبریری سے باہر آیا تو دیکھا استاد محترم گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس کھڑے باہر دیکھ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ذکر پڑھ رے ہیں ’’لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم، انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا، جناب استاد آپ کیا کہہ رہے ہیں۔؟ ان شاء اللہ خیر تو ہے۔؟ آیت اللہ صدر (رح) نے فرمایا ’’آگے آؤ اور ان سپاہیوں کو دیکھو، جنہوں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کیا ہوا ہے، یہ بے چارے کس طرح گرمی کے عالم میں گرم دھوپ کے نیچے کھڑے ہیں اور لگتا ہے کہ سب پیاسے ہیں، دیکھو ان کی پیشانیوں سے پسینہ بہ رہا ہے۔ یہ بے چارے اس گرمی میں جل رہے ہیں اور ان کا ایک بھی افسر یہاں نہیں، میرا دل ان کے لئے جل رہا ہے، کاش ہم ان بیچاروں کو پینے کے لئے ٹھنڈا پانی ہی دے دیتے۔

شیخ نعمانی نے کہا، جناب استاد یہ لوگ مجرم اور خطاکار ہیں اور آپ کو کئی ماہ سے بے رحمی اور شقاوت کے ساتھ محاصرے میں لئے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاتھ اس ملک و قوم کے مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں، آپ ان پر کس طرح رحم کر رہے ہیں۔؟؟ آیت اللہ صدر (رح) نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ آپ کی بات درست ہے اور میں آپ کی ہمدردی کا احساس کر رہا ہوں، لیکن آپ کو یہ بھی جاننا چاہیئے کہ اس گروہ کی بدبختی اور انحراف کا سبب زمانے اور معاشرے کے نامساعد حالات ہیں یا یہ لوگ کسی سالم اور اچھے گھرانے میں پیدا نہیں ہوئے اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہوئی۔ ان سب علل و اسباب کی وجہ سے یہ گمراہ اور خراب ہوگئے ہیں، ورنہ یہ بھی ایماندار اور دیندار ہوتے۔ بنابریں یہ ترحم اور ہمدردی کے لائق ہیں۔ شیخ نعمانی اپنے استاد کی کرامت نفس اور اخلاق عالیہ سے حیرت زدہ ہوکر انہیں دیکھنے لگے۔ اتنے میں آیت اللہ صدر (رح) نے اپنے خادم حاج عباس کو بلایا اور کہا۔ کچھ ٹھنڈا پانی لے جاؤ اور ہمارے گھر کے ارد گرد کھڑے پولیس والوں کو دو، شاید وہ پیاسے ہوں۔؟

آیت اللہ صدر (رح) کے اسی بلند اخلاق اور کریمانہ طرز عمل کی وجہ سے ان کے گھر کا محاصرہ کرنے والے بہت سے بعثی سپاہی آپ کے مرید اور گرویدہ ہوگئے اور ان کی خاطر وہ اپنے افسروں سے لڑ پڑے تھے اور ان میں سے بعض اسی جرم میں سزائے موت کے مستحق بھی قرار پائے۔ ایک دفعہ شیخ نعمانی نے انہی سپاہیوں میں سے بعض کی موت کی خبر استاد تک پہنچائی تو وہ بہت غمگین ہوئے کہ ان لوگوں کو میری خاطر جان سے ہاتھ دھونے پڑے (دیدار با ابرار جلد ۱۵ صفحہ ۱۲۸) اقتباس از ’’استعمار و استبداد کے خلاف علمائے عراق کی جد و جہد‘‘ صفحہ ۱۳۰۔۔ از سید رمیز الحسن موسوی) شہید باقر الصدر پر بہت زیادہ لکھا جانا چاہیئے، مگر کوشش کے باوجود کم لکھا جا سکا۔ یہ ایسی شخصیت ہے کہ جن کے افکار، کتب اور اوصاف کو عام کرنا چاہیئے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اللہ کرے یہ ملت بیدار ہو اور اپنے ورثے کو اپنائے۔ آمین ثم آمین۔
خبر کا کوڈ : 1127594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش