0
Tuesday 9 Apr 2024 22:31

غزہ کی مزاحمت زندہ ہے

غزہ کی مزاحمت زندہ ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی تمام تر کوششوں کے باجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔ اسرائیل اور اس کے حواری یہ بھول جاتے ہیں کہ اہل فلسطین کسی کی جنگ نہیں لڑ رہے، ان کے پاس دو آپشن نہیں ہیں۔ ان کے پاس فقط ایک ہی آپشن ہے، ذلت کی زندگی کی قبول کر لیں یا اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ اہل فلسطین نے عزت کی زندگی اور آزادی کی جدوجہد کو اختیار کیا ہے۔ آج چھ ماہ گزر چکے ہیں اور ان کی مزاحمت جاری ہے۔چند دنوں میں کئی عربوں کو پچھاڑنے والی افواج کو آج پتہ چلا ہے کہ جنگ کسے کہتے ہیں۔ اہل غزہ کی مزاحمت ایک تاریخ رقم کر رہی ہے۔ یاد رکھیں کہ اہل فلسطین کی یہ جنگ اپنے ملک کی آزادی، قبلہ اول کی واگذاری اور خطے میں بین الاقوامی کھیل کے خاتمے کی جنگ ہے۔ یہ جنگ جاری ہے اور بھرپور طریقے سے جاری ہے۔

چند دن پہلے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے اعلان کیا کہ انہوں نے غزہ میں 14 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ قسام بریگیڈز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کیے گئے تحریری بیان میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے جنوب میں خان یونس کے علاقے میں قریب سے 14 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا اور متعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوجی ٹرانسپورٹ گاڑی کو توپ خانے سے نشانہ بنایا گیا، یاسین 105 میزائلوں سے 3 ٹینکوں کو نشانہ بنایا گیا، ضلع ایمل میں اسرائیلی ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ پر موجود فوجیوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی بیان  جاری نہیں کیا ہے۔ قسام بریگیڈز نے حال ہی میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اعلان کیا تھا کہ انہی حملوں میں خان یونس کے علاقے میں قریب سے 5 اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا اور کئی اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔

سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ جنرل رومن گوفمین کے غزہ میں زخمی ہونے کی اطلاع۔ وہ غزہ کی جنگ میں زخمی ہونے والا سب سے اعلیٰ ترین فوجی افسر ہے۔ اسے لبنان کی جنگ کے ہیروز میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے اور وہ اسرائیلی فوج میں کئی عہدوں پر فائز رہ چکا ہے۔ وہ وزیراعظم کا ملٹری سیکریٹری، بکتر بند کمانڈر، گولان کی پہاڑیوں میں 210 ویں ڈویژن کا کمانڈر، نیشنل گراؤنڈ ٹریننگ سینٹر (تسلیم) کا کمانڈر اور ساتویں بریگیڈ کا کمانڈر رہا ہے۔ حماس کی مزاحمت نے اسرائیلی پالیسی سازوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور جنگی کابینہ کے رکن جنرل (ر) گاڈی آئزکوٹ کا کہنا ہے کہ حماس ایک سخت، غیر لچکدار، ہوشیار اور اٹوٹ دشمن ہے اور اس کی طاقت اس کے دو پروں میں ہے۔

ایک ٹھوس سیاسی ونگ، جسے اسرائیلی تنازعے کے تجربات نے بہت ماہر بنایا ہے۔ وہ مشکلات سہنے اور واقعات کو اپنے فائدے کے لیے موڑنے میں کافی تجربہ کار ہوگیا ہے اور دوسرا عسکری ونگ ہے، جس کی نمائندگی القسام بریگیڈز کرتی ہے، اس کے پاس اب ایسی فوجی مہارت اور حکمت عملی ہے، جو دنیا کی سب سے طاقتور فوجوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج کے مقابلے میں کمزور فوجی ساز و سامان کے باوجود، اس کے جنگی نظریئے بہت مضبوط ہیں، جس کی ڈکشنری میں شکست کا لفظ نہیں ہے۔ اگر ہم یہ جنگ مصر، سعودی، اردنی اور شامی فوج کے خلاف لڑتے تو پہلے ہی ہفتے میں ہمیں فتح حاصل ہو جاتی اور جنگ کب کی ختم ہو جاتی۔

جنگ اسرائیلی معاشرے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ایک طرف شدید مظاہرے ہو رہے ہیں اور دوسرے بڑی تعداد میں لوگ اسرائیل کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ایک بڑی مشکل اسرائیل میں موجود لوگوں پر تفسیاتی اثرات کا ہونا ہے۔ 7 اکتوبر واقعات کے بعد اسرائیلی شہری دائمی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایک ایسے ہی ذہنی مریض نے کچھ دن قبل وسطی تل ابیب میں خود کو آگ لگادی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھا۔ ممکن ہے وہ ذہنی مریض ہی ہو، مگر ایک بہت بڑی تعداد ایسے ذہنی حالات سے گزر رہی ہے۔اسرائیل کی آرمی اور وزیراعظم بار بار اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ ہمارا مشن و مقصد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور حماس کا خاتمہ ہے۔ خدا کی شان دیکھیں دنیا کی طاقتور ترین فوج اور پوری مغربی دنیا کے پشت پر ہونے کے باوجود آج بھی غزہ سے راکٹ اور میزائل اسرائیلی قابض افواج پر برس رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی افواج کو مزاحمت کا سامنا ہے۔

خود اسرائیلی مان رہے ہیں کہ حماس کی سرنگوں کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ حماس کو ناصرف نظریاتی بنیادوں پر ختم نہیں کیا جا سکا بلکہ غزہ میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل بطور قابض زیادہ عرصہ نہیں رہ سکتا، دنیا کے مختلف ممالک فلسطین کو مکمل طور پر تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔ خان یونس سے اسرائیلی افواج نکل چکی ہیں اور وہاں کے کھنڈرات میں فلسطینی عید سے پہلے لوٹ رہے ہیں۔ آج خان یونس کے بازار کم اور ملبے کے ڈھیر زیادہ پر سجا عید کا بازار دیکھا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے، کیا زمانہ آگیا ہے، اہل غزہ پچاس ہزار شہادتیں دینے کے باوجود اہل اسلام کی عید منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ اسلام دشمنوں کو پیغام ہے، ہم آج بھی اسلام کے شعائر کی تعظیم کے لیے آمادہ ہیں۔ ہمارے دوست ناصر مینگل صاحب نے خوب کہا ہے:
ان مومنوں کو چاند مبارک ہو عید کا
اہل غزہ کیساتھ دھڑکتے ہیں جن کے دل
خبر کا کوڈ : 1127850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش