0
Saturday 20 May 2023 17:38

حالیہ صورتحال پر پی ٹی آئی بلوچستان کے رہنماء محمد آصف ترین سے خصوصی گفتگو

حالیہ صورتحال پر پی ٹی آئی بلوچستان کے رہنماء محمد آصف ترین سے خصوصی گفتگو
محمد آصف ترین بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے رہنماء اور میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ صحافت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور پی ٹی آئی بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان تحریک انصاف اور حالیہ صورتحال بلخصوص صوبہ بلوچستان کے حوالے سے محمد آصف ترین سے خصوصی گفتگو کی۔ جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
 
اسلام ٹائمز: بعض عناصر 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کو ٹھہراتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟ 
محمد آصف ترین:
بنیادی بات یہ ہے کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف جو احتجاج کئے گئے، وہ پرامن احتجاج تھے، اگر آپ پورے بلوچستان کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں تو یہ احتجاج تین، ساڑھے تین بجے شروع ہوجاتا ہے اور اس احتجاج میں بزرگ، بچے اور بلخصوص عورتیں بھی شامل ہیں، اگر پاکستان تحریک انصاف نے انتشار کرنا ہوتا تو اپنے بچوں، بہنوں اور ماؤں کو احتجاج میں کبھی لے کر نہیں جاتے، اس بات کا تذکرہ ہم میڈیا کے سامنے بھی کر چکے ہیں کہ اس وقت ہمارے لوگ نہیں تھے، ایسے لوگ ہمارے مظاہرے میں شامل ہوگئے تھے جو جان بوجھ کر املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے اور لوگوں کو اکسا رہے تھے، میں نے میڈیا کے سامنے بھی یہ بات کی ہے، اس کے ردعمل میں ریاست کی طرف سے جو تشدد کیا گیا، اس میں ہمارے لوگ زخمی بھی ہوئے اور عمر عزیز شہید بھی ہوئے۔
 
اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی بلوچستان کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کیا گیا، صوبائی سطح پر کیا لائحہ عمل اختیار کرینگے؟
محمد آصف ترین:
پاکستان تحریک انصاف کے وہ رہنماء جو وہاں موجود بھی نہیں تھے، انکے خلاف بھی ایف آئی آر کاٹی گئی اور تمام لیڈرشپ کے نام بھی ڈالے گئے، خاص کر قاسم سوری کا نام بھی اس ایف آئی آر میں لکھا گیا، جو حتیٰ کہ کوئٹہ میں موجود نہیں تھے بلکہ وہ اسلام آباد میں موجود ہیں اور ایسے لوگ جنکے نام ایف آئی آر میں موجود بھی نہیں ہے، خاص کر محمد آصف ترین، میرا نام ایف آئی آر میں موجود نہیں ہے اور میں احتجاج میں دیر سے بھی پہنچا، کیونکہ اس وقت میری گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ کیساتھ میٹنگ چل رہی تھی، چونکہ میں میڈیا کوآرڈینیٹر ہوں، تو خبر دینا، معلومات دینا اور اسکے حوالے سے میڈیا کو بریف کرنا میری ذمہ داری تھی۔ میں نے میڈیا کو بریف کیا اس دھرنے کے حوالے سے، صورتحال کے حوالے سے، میری میڈیا بریفنگ کی وجہ سے میرے گھر پر بھی تین مرتبہ چھاپے پڑے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ اس حوالے سے جو مرکز کی ڈائریکشن ہوگی، جو مرکز سے ہدایات ہونگی اس کے مطابق لائحہ عمل ہوگا، بلوچستان کی صوبائی کابینہ، لیڈرشپ اور عہدیداران اس کے مطابق سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: بلوچستان کی حکومت میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے، مگر حکومت کی ترجمان نے پی ٹی آئی کیخلاف پریس کانفرنس کی۔ کیا اتحاد کمزور ہو گیا ہے؟
محمد آصف ترین:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اتحاد صرف بلوچستان کی سطح پر تھا، مرکزی سطح پر نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ وزیراعلیٰ کے کتنے ترجمان ہیں؟ جو ترجمان بنا ہوا ہے وہ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رہے ہیں تو اسکو ہم زیادہ ویلیو نہیں دیتے۔ اس بارے میں جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں ہم بیٹھ کر ڈیسیژن لیں گے اور اس حوالے سے جو مرکز کی ہدایت ہوگی، اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
 
اسلام ٹائمز: بلوچستان کے آئیندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو کس پوزیشن میں دیکھتے ہیں۔ کیا بلوچستان میں اگلی حکومت پی ٹی آئی کی ہو سکتی ہے؟
محمد آصف ترین:
اگر صورتحال دیکھی جائے تو بلوچستان میں ہمیشہ پولیٹیکس کی ڈائنیمکس بہت مختلف ہے، مرکز کی سطح پر تو پاکستان تحریک انصاف دو تہائی کی اکثریت سے تمام صوبوں میں لے گی، بلوچستان میں جو شہری آبادی ہے اس میں تحریک انصاف کی پوزیشن اچھی ہوگی لیکن جو صورتحال دکھ رہی ہے اور اس میں جتنے لوگ شامل ہیں، جتنا عمل دخل ہے لوگوں کا، اس صورتحال کو آج کے دن دیکھتے ہوئے، آج چونکہ 9 مئی آپ کہہ سکتے، مئی کے مہینے میں، فی الحال پوزیشن یہ لگ رہی ہے کہ تحریک انصاف حکومت نہیں بنا سکے گی، لیکن پوزیشن بہت اچھی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1059002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش