0
Saturday 29 Jul 2023 15:27

کرم کی تازہ صورتحال کے حوالے سے سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو

کرم کی تازہ صورتحال کے حوالے سے سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عابد الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک جعفریہ کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے جولائی میں کرم میں ہونیوالی ہولناک لڑائیوں کے مختلف پہلووں پر انکے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: 7 جولائی اور اسکے بعد یکے بعد دیگرے کرم میں وسیع پیمانے پر لڑائیوں کے بھڑکنے اور بھڑکانے کیلئے کسے ذمہ دار اور قصور وار سمجھتے ہیں.؟
علامہ سید عابد الحسینی:
رواں ماہ کی 7 تاریخ کو بوشہرہ سے بھڑکنے والی لڑائی کے حوالے سے ہمارے ذمہ دار افراد اور اداروں نے بار بار وضاحت کی ہے کہ شیعہ سنی اکابرین و عمائدین میں سے کوئی بھی جنگ کے حق میں نہیں۔ دونوں جانتے ہیں کہ کرم میں موجود مسائل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جنگ بھڑکانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی مقامی انتظامیہ ہی نے کی ہے۔ اپنے مقصد کی برآوری کیلئے انہوں نے اپنے کچھ بندے گھسائے ہیں۔ حساس مقامات پر جہاں لوگ پہلے سے مورچوں میں موجود تھے۔ اپنے کارندوں کے ذریعے فائرنگ شروع کروائی اور یوں جنگ شروع ہوگئی۔ لہذا اصل ذمہ دار حکومت ہے۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آتا ہے کہ بوشہرہ سمیت پانچ دیگر مقامات پر ہر جگہ پہل طوری قبیلے نے کی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ خود حکومت ہی کرتی ہے۔ اللہ اور قیامت پر ان کا کوئی ایمان ہی نہیں، ان کا خیال ہے کہ قیامت کو کوئی حساب کتاب نہیں، سزا و جزا کے یہ لوگ قائل نہیں، چنانچہ جھوٹ بول کر ظالم اور جارح کو مظوم جبکہ مظلوم کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ کسی ایک بھی مقام اور محاذ پر طوریوں نے جنگ کی ابتداء نہیں کی ہے، بلکہ بوشہرہ میں تو یوں ہوا کہ وہاں بنگش کے دو ذیلی قبیلوں کے مابین اپنی نہیں بلکہ مبینہ طور پر حمزہ خیل و مستو خیل کی شاملاتی اراضی پر آپس میں تنازعہ ہے۔ دونوں فریقین حمزہ خیل کی اس اراضی میں، جس میں یہ کسی حد تک حصہ دار ہیں، ایک عرصہ سے کام کر رہے ہیں، جبکہ مقابل فریق اسے غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

سنی بنگش متازعہ اراضی میں کام کرتا ہے تو شیعہ بنگش کے اسرار حسین وغیرہ اسے اپنی یا کم از کم متنازعہ قرار دیکر حکومت اور قومی اداروں سے شکایت کرتے ہیں، جبکہ جولائی کے اوائل میں جب اسرار حسین نے اسی متنازعہ زمین کے ایک ٹکڑے میں کام شروع کیا تو اس کے مخالف فریق حاجی بخت جمال وغیرہ نے حکومت سے شکایت کرنے کی بجائے جا کر ڈائریکٹ اسرار حسین پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ اسرار حسین کا قبیلہ ایک کمزور اور تعداد میں کم قبیلہ ہے، جبکہ اہل سنت بنگش کا قبیلہ 10 دیہات اور پانچ سو گھرانوں پر مشتمل ہے، یہی نہیں بلکہ مبینہ طور پر انہوں نے غوزگڑھی اور صدہ سے طالبان کو بھی وقوعہ سے پہلے اپنے ہاں بلایا تھا۔ یوں انہوں نے حملہ کرکے جنگ کی ابتداء کی۔

اسلام ٹائمز: بتایا جاتا ہے کہ شیعوں کیطرف سے شام، لبنان اور ایرانی ملیشیا زینبیون و فاطمیون لڑے۔ اسکی کیا حقیقت ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ الزام تراشی سالوں سے جاری ہے، بلکہ اسے بھی حکومتی سرپرستی حاصل ہے۔ زینبیوں کا وجود حقیقت ہے۔ پاراچنار کے وہ جوان جو مزدوری کی خاطر عراق، ایران اور شام میں پہلے سے موجود تھے، کچھ نے مالی مشکلات کی خاطر جبکہ بعض نے صرف اہلبیت اطہار علیھم السلام کی قبور مطہرات کے دفاع میں وہاں جنگ میں شرکت کی۔ مگر زینبیون نے تو اہلبیت کی محبت میں وہاں جنگ لڑی، جبکہ یہیں کرم اور دیگر قبائلی اضلاع کے ہزاروں قبائل نے امریکہ اور سعودیہ کے کہنے پر وہاں صرف اہل بیتؑ کی قبور کو مسمار کرنے کی خاطر وہاں جہاد کے نام پر جنگ لڑی، تو زینبیون اور داعش صرف اتنا فرق ہے کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے اہلبیت کی محبت میں گئے جبکہ وہ بغض اہلبیت میں امریکہ اسرائیل کے کہنے اور سعودی عرب کے خرچے پر وہاں گئے۔

زینبیوں کوئی باہر کے لوگ نہیں، بلکہ پاراچنار ہی کے محبان اہلبیت ہیں۔ جس طرح کے طالبان، القاعدہ اور داعش کے لوگ انہی قبائلی علاقوں کے پختون ییں۔ ان میں سے کچھ کی حکومت پاکستان کے ساتھ ڈیل ہوئی اور وہ یہاں تشریف لائے۔ جو آج کل انہی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ہے بھی، تو اس میں بھی حکومت ہی ملوث ہوگی۔ ویسے ان میں سے تقریباً کئی سو افراد پاکستان لوٹ چکے ہیں۔ پاکستان میں داخلے کے ساتھ ہی انہیں گرفتار کیا گیا اور اس کے کچھ دن یا کچھ ماہ بعد باقاعدہ ایک ڈیل کے تحت رہا کر دیا گیا۔ ان کے متعلق تو خود اہلیان کرم کے اپنے تحفظات ہیں کہ ان لوگوں کو حکومت اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ اہلسنت کیجانب سے افغانی فورسز اور طالبان نے حصہ لیا، کیا یہ حقیقت ہے. اگر ہے تو آپکے پاس اسکا کوئی ثبوت بھی ہے.؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ان کے صوتی پیغامات ہمارے بعض افراد کے پاس موجود ہیں۔ ان کی پاکستان آمد، ان کے قتل ہونے، افغانستان کے شہر نو ہسپتال میں ایسے افراد کے ایڈمیٹ ہونے کے ثبوت ہمارے ان افراد کے پاس موجود ہیں۔ نیز باڑ کراس کرنے کی تصاویر اور ویڈیوز بھی دستیاب ہیں۔ تری اور بوشہرہ والوں کے وائس میسجز موجود ہیں، جن میں وہ اپنے لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے فکر رہیں۔ طالبان کا اتنا لشکر اورر اتنے بندے ان کی کمک کے لئے پہنچ چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: افغان بارڈر پر تو باڑ ہے اور اسکی زبردست سکیورٹی کی جاتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ افغان طالبان بھاری اسلحہ سمیت بارڈر عبور کریں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
افغان بارڈ پر موجود باڑ کو ایک مخصوص مقام پر کاٹ کر مسلح طالبان کو داخل کروایا گیا، جبکہ دیگر غیر مسلح افغانوں اور طالبان کو باقاعدہ چیکنگ پوائنٹ اور کسٹم ہاوس کے تھرو لایا گیا۔ جس کا اقرار خود منگل اور مقبل کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس مسئلے اور تنازعے کی بنیاد دراصل کیا ہے۔ عموماً اسے مذہب کا رنگ دیا جاتا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
کرم میں شیعہ سنیوں کے مابین پائے جانے والے تقریباً تمام تنازعات کا تعلق پہاڑ، زمینوں اور شاملاتی اراضی سے ہے۔ اس کا مذہب اور مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ ہر ایک اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور ہر ایک خود کو حق بجانب قرار دیتا ہے۔ تاہم ہر ایک کاغذات مال کی روشنی میں مسائل حل کرنے کا بھی بھرپور حامی ہے۔ کاغذات مال پر اگر غور کیا جائے تو ان کا تعلق سرکار سے ہے۔ سرکار کے دربار میں ریکارڈ پڑا ہے۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اس مسئلے میں کون حق پر اور کون غلطی پر ہے۔ اس کے باوجود ان مسائل سے حکومت کا صرف نظر معنی خیز ہے۔ چنانچہ مسائل کا اصل سبب مذہب و مسلک تو کیا، زمین بھی نہیں بلکہ میرے خیال میں اصل سبب خود سرکار شریف ہے۔ ہماری حکومت جس دن مخلص ہوگئی، انصاف کی کرسی پر متمکن ہوئی، کرم پاکستان کا پرامن ترین خطہ بن جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1072254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش