0
Wednesday 27 Sep 2023 10:05
عزاداری کو جتنا دبایا جائیگا، اتنا ہی یہ طاقت پکڑے گی

ملکی اور علاقائی صورتحال پر بزرگ عالم دین سابق سینیٹر علامہ عابد حسینی کا خصوصی انٹرویو

کرم میں حکومت کا اقتدار عموماً طوری بنگش قبائل پر مشتمل علاقوں ہی میں قائم ہے
ملکی اور علاقائی صورتحال پر بزرگ عالم دین سابق سینیٹر علامہ عابد حسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عابد الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک جعفریہ کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے موجودہ حالات کے پیش نظر انکے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! ملکی سطح پر شدت پسندی نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے؟ اسباب و وجوہات کیا ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
شدت پسندی اور دہشتگردی کا سر اٹھانا پہلی مرتبہ نہیں ہے، اس سے قبل درجنوں مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ایک مخصوص لابی بلکہ ایک مخصوص قوت ہوتی ہے۔ جو اسے اپنے مفادات کی خاطر کر رہی ہوتی ہے۔ عموماً یہ ایسے وقت ہوا کرتا ہے کہ جب ملک کسی معاشی یا سیاسی بحران کا شکار ہوتا ہے تو اپنے اقتدار کو دوام دینے اور کسی حد تک ملک کو بحران سے نکالنے کی خاطر ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر مجاہدین کے نام پر شرپسندوں کے ٹولوں کو سپورٹ کیا اور جہاد کے نام پر افغانستان سمیت اپنے ملک کے مغربی سرحدی علاقوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد 90 کی دہائی میں پھر 2000ء کی دہائی میں وقت کے ڈکٹیٹروں نے یہی فارمولا استعمال کیا۔ تو اس کی وجوہات پہلے ہی سے معلوم ہیں اور یہاں یہ فارمولا کوئی نیا ہے، بلکہ جانا پہچانا اور معروف ہے۔

اسلام ٹائمز: توہین صحابہ و اہلبیتؑ بل کے ضمن میں ملک بھر میں  ہونیوالے بعض واقعات اور حادثات کیا اشارہ دیتے ہیں؟ اس قانون کے ملک پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ظاہر ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو کسی ایک طبقے کے کہنے یا اس کے مخصوص مفادات کی خاطر وجود میں آئے، دوسرے طبقات کی طرف سے قابل احترام اور قابل عمل نہیں سمجھا جاتا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ تو جس قانون کی خلاف ورزی پڑے پیمانے پر ہونے لگے تو اس کی حیثیت صفر ہو جاتی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت رہتی نہیں، جبکہ ملک میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات کے حوالے سے گزارش یہ ہے کہ اس جیسے قوانین کو شرپسند اور مجرمانہ ذہن کے افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بیچارے اور بے گناہ عوام پر استعمال کرتے رہیں گے، جس سے پورا ملک جنگل میں تبدیل ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز:  ملک بھر میں عزاداروں پر کٹنے والی ایف آئی آر کی کیا حیثیت ہے اور اسکا اثر کیا ہوگا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
عزاداری کو جتنا دبایا جائے گا، اتنا ہی یہ زور اور طاقت پکڑے گی، جبکہ ایف آئی آر کسی ایک اور مخصوص شخص پر اس کے انفرادی کام میں ہو تو موثر ہوسکتی ہے، جبکہ ایسی ایف آئی آروں کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہوتی، بلکہ جس فرد پر امام حسین اور اہلبیت علیھم السلام کی محبت میں ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے، اس سے اس کی شہرت اور عوامی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے، جسے دیکھ کر اگلے سال وہی خلاف ورزی دیگر لوگ اس سے بڑھ کر کریںگے۔ چنانچہ جو جرم قانونی کارروائی کے بعد کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے تو ایسے قوانین کا فائدہ کیا، بلکہ الٹا اس سے ملک کو نقصان ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپکے علاقے پاراچنار کی صورتحال کے بارے میں ذرا بریف فرمائیں، جنگ بندی کے بعد مجموعی طور پر کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
لوئر اضلاع کے عمائدین پر مشتمل ایک ثالثی جرگہ دوران جنگ یہاں آیا اور فریقین سے 12 کروڑ کا مچلکہ (ضمانت) لیکر جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہوا اور مین روڈ کو فوراً کھلوا دیا۔ تاہم چند ہی دنوں میں اس کی خلاف ورزیاں شروع ہوگئیں۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر کارروائی تو نہیں ہوئی ہے، رات کو کوئی فائر ہوتا ہے۔ راستوں میں متقابل فریقین کے مابین تو تو، میں میں ہو جاتا ہے۔ جس ہر ایک فریق دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے اور خلاف ورزی کا تعین کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہر فریق ایک خاص فیکٹر کو سبب قرار دیکر دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ چنانچہ ان خلاف ورزیوں اور جوابی خلاف ورزیوں سے علاقے کا ماحول کافی گرم ہوچکا ہے اور جنگ کا سا ماحول بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: حالات کو کنٹرول کرنے میں مقامی حکومت کا کیا کردار ہے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
حکومت کی کارکردگی بالکل صفر ہے۔ صفر بھی نہیں بلکہ جانبدارانہ ہے۔ ایک فریق کوئی معمولی کارروائی کرتا ہے تو اس کے خلاف مسلح اقدام کیا جاتا ہے، جبکہ اس سے کئی گنا بڑی خلاف ورزی کے باوجود دوسرے فریق کے خلاف کوئی خاص کارروائی عمل میں نہیں آتی۔ حکومت کی ناکامی کی دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض مقامات خصوصاً لوئر اور سنٹرل کرم کے بعض بلکہ اکثر مقامات پر ان کی اجارہ داری ہی ختم ہوچکی ہے۔ وہاں طالبان فعال ہوچکے ہیں۔ سرکاری مراکز اور پولیس کی چوکیاں خالی ہوکر طالبان کے قبضے میں جاچکی ہیں۔ وہاں پر حکومت کی اجارہ داری ہی ختم ہوچکی ہے۔ چنانچہ حکومت کی کارروائیاں صرف ضلعی صدر مقام پاراچنار تک ہی محدود رہ گئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1084244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش