2
0
Friday 30 Sep 2022 12:57

30 ستمبر کا سانحہ، کوٹلہ جام کا محاذ، کچھ یادیں۔۔۔۔

30 ستمبر کا سانحہ، کوٹلہ جام کا محاذ، کچھ یادیں۔۔۔۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر

5 اگست کی دم صبح قائد شہید علامہ عارف حسین  الحسینی کو وقت کے شقی نے سینے میں گولی مار کے شہید کر دیا تھا، ملت تشیع کے زخمی دلوں نے شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے اور حکمرانوں کو ملت کی طاقت و قوت کے اظہار کیلئے 16 ستمبر لیاقت باغ راولپنڈی میں قائد شہید کے چہلم کا اعلان کیا تھا، لیاقت باغ میں ہونے والے چہلم کے جلسے میں جہاں دیگر ایشوز پر بات ہوئی، وہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومت اور فرقہ پرستوں کے گٹھ جوڑ کے باعث محرم الحرام کے ماتمی و تعزیوں کے جلوسوں کی برآمدگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بعد رکے ہوئے تعزیوں کے جلوسوں کو نکلوانے کا سب سے اہم اعلان تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے جلوسوں کو نکلوانے کیلئے؛ چلو چلو ڈیرہ چلو؛ کے قیادت کے اعلان پر جوانوں کے پرجوش نعروں کی صورت میں تھا۔ قیادت نے اعلان کیا تھا کہ 30 ستمبر کو جلوس نکلوانے کیلئے سب ڈیرہ کا رخ کریں گے، میرے عون و محمد جلوسوں کی علمبرداری کریں گے، ہم نے بھی شہید کے جانشین کے اس اعلان کو سنا تھا۔

چلو چلو کا شعار شہید کے چہلم میں شریک ہر ایک کی زبان پر تھا، شہید کی شہادت کا اپنا اثر تھا، قوم میں تحرک، بیداری، خون ناحق کا انتقام اور جذبات کا ایک سمندر تھا، لہذا چلو چلو ڈیرہ چلو کا پرجوش شعار بلند کرنے والوں میں حقیر بھی شامل تھا اور اسکاوٹ ہونے کی وجہ سے ہر صورت ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے کا عزم کیے ہوئے تھا۔ 30 ستمبر ڈیرہ چلو کی کمپین چلتے ہی حکومت نے راستے بلاک کر دیئے تھے، گرفتاریوں کا بھی سلسلہ تھا، تاکہ عزاداران پہنچ نہ سکیں۔ بھکر سے دس کلومیٹر ڈیرہ کی جانب کوٹلہ جام پر سب سے بڑا محاذ لگا تھا، جہاں عوام و علماء کرام کی بڑی تعداد جمع تھی اور تقاریر ہوتی تھیں۔ بطور اسکائوٹ ہمیشہ سٹیج پر رہتے تھے، مجھے یاد ہے کہ برادر شبیر ملک مرحوم اس وقت اسکاوٹ سیکٹر انچارج تھے، جن سے ذاتی قربت بھی تھی۔ کیا خوبصورت یادیں ہیں، ان ایام کی جو ریتلی زمین پر دن اور رات ہم مومنین کی بڑی تعداد کیساتھ گزارتے تھے۔

کوٹلہ جام کے مومنین کو آج بھی سلام ہے کہ ان کے گھروں میں غربت تھی، مگر ان کے جذبے بہت ہی بلند تھے، ان کے دل بہت بڑے تھے، مومنین نے اپنے گھروں کے دروازے ایسے ہی کھول دیئے تھے، جیسے اہل عراق مشی میں زائرین کیلئے کھول دیتے ہیں۔ اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مشی میں اہل عراق زائرین کو کس طرح پیش آتے ہیں، جبکہ کوٹلہ جام میں موجود ہر ایک شخص ڈیرہ جانے کیلئے تڑپتا تھا۔ شاید کوئی ایک بھی ادھر رکنا نہیں چاہتا تھا جبکہ ڈیرہ میں کرفیو لگ گیا تھا، تمام راستے بلاک کر دیئے گئے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اپنے کچھ ساتھیوں سمیت پہنچ گئے تھے، علامہ افتخار نقوی بھی ڈیرہ میں موجود تھے، شہادت کیلئے ہماری اس قدر آمادگی تھی کہ وصیت نامے لکھ کر گھروں میں دے کر آئے تھے۔ کوٹلہ جام کے اس محاذ کی وجہ سے اس مقام کو "حسینی چوک" کا نام دیا گیا تھا۔

چوک میں سٹیج سے مختلف لوگ خطاب کرتے تھے، لوگوں کا جذبہ بلند رکھتے تھے، دلوں کو گرماتے تھے جبکہ قیادت کا انتظار بھی رہتا تھا کہ ہم شہید کے جانشین کی راہ تک رہے تھے، جن کے حکم پر اس جگہ کئی دنوں سے موجود تھے، اس دوران ہمیشہ علامہ تقی نقوی قیادت کا پیغام وقفے وقفے سے دیتے تھے۔ مسکین نامی شاعر بہت مشہور ہوا تھا، جو شاید ڈیرہ غازی خان سے تھا، ان کی شاعری میں تازگی تھی، جسے شرکاء بہت لطف اندوز ہوتے، گویا مسکین آتے تو مجمع چارج ہو جاتا تھا۔ علامہ تقی نقوی اور شاعر مسکین کے سٹیج پر آنے کے ساتھ پبلک پنڈال میں جمع ہو جاتی تھی۔۔۔۔ قیادت نے اعلان کیا تھا کہ میرے عون و محمد علم برداری کیلئے ہونگے، مگر۔۔۔۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ قائد یا ان کے فرزندان کسی بھی محاذ پر موجود ہوں۔

ادھر ڈیرہ اسماعیل خان میں طے شدہ اعلان کے مطابق کرفیو اور پابندیوں کے باوجود عاشقان امام حسین (ع) نے ہر صورت جلوس نکالنے کا عمل شروع کیا، راستوں میں پگھلتی کول، شیشے بچھائے گئے تھے، بندوق بردار فورسز کو چوکس رکھا گیا تھا، انتظامیہ ہر قسم کا ظلم کرنے کے موڈ میں واضح طور پر آمادہ تھی۔ مومنین بھی اپنی جانوں کو صدقہ حسین (ع) سمجھ کے قربان کرنے کو تیار تھے۔ امام بارگاہ چاہ سید منور سے کوٹلی امام حسین تک یہ محرم کے رکے جلوس نکلنے تھے۔ 30 ستمبر کو 19 صفر تھی، 20 صفر چہلم کے جلوس اگلے دن نکلنے تھے، پہلا دستہ چودہ کے نام تھا، دوسرا دستہ بہتر کا تھا، پہلا دستہ سامنے آیا تو نہتے عزاداران پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی، دس مومنین شہید ہوئے، کئی زخمی ہوئے۔ شہداء کے جسد اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے آگے بڑھنے والوں پر بھی گولیاں چلائی گئی تھیں، زخمیوں کو اسپتال کے بجائے ہتھکڑیاں لگا کر پولیس لائن لے جایا گیا۔

ڈاکٹر محمد علی مسجد میں کئی زخمیوں کا علاج کرتے رہے، چاروں طرف محاصرہ کے باعث بیرونی مدد تو مل ہی نہیں سکتی تھی، حکومت نے پانی تک بند کیا تھا، صوبہ سرحد کا گورنر فضل حق تھا، جو شہید کا قاتل بھی تھا، ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ آج فضل حق کا کوئی نام لیوا بھی نہیں، جبکہ عزاداری سلامت ہے، عزاداران سلامت ہیں، اس سانحہ کے بعد بھی عزاداران ڈیرہ نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اپنے پاک خون سے اس کی حفاظت کی ہے۔۔ قربانیاں اب بھی دی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہیگا۔۔ یہ سلسلہ جاری رہیگا، ہم ہوں نہ ہوں اس بزم میں قائم عزاداری رہے۔۔۔ ہم اس مقصد کیلئے اپنے جوان، اپنے بوڑھے، اپنی مائیں، بہنیں قربان کرتے رہینگے، مگر اس مقصد پر آنچ نہیں آنے دینگے۔۔۔ سلام بر شہداء عزاداری امام مظلوم (ع)۔۔۔۔۔۔ ڈیرہ کے شہیدوں کو سلام۔
خبر کا کوڈ : 1016908
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عزاداری کے مقدس مشن کو منزل تک پہنچانے والوں، انکی یاد منانے والوں اور ایسے لکھاریوں کی عظمت کو بندہ کی جانب سے مخلوق خدا کے برابر سلام۔ سدا قائم یہ عزاداری رہے۔
شکریہ ناصر الملک
سردار علی
خلائق خدا کے برابر سلام ہو ان شہداء کی پاکیزہ روحوں پر۔
ہماری پیشکش