0
Monday 10 Oct 2011 20:29

امریکی عوام کا وال اسٹریٹ دھرنا

امریکی عوام کا وال اسٹریٹ دھرنا
تحریر:ثاقب اکبر 
17ستمبر کو نیو یارک میں شروع ہونے والا وال اسٹریٹ قبضہ یا دھرنا پھیلتے پھیلتے اب امریکہ کے ایک ہزار شہروں تک پہنچ چکا ہے۔ لاکھوں امریکی عوام ان دھرنوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ قاہرہ کا میدان تحریر جس کا انگریزی ترجمہ فریڈم اسکوائر ہے پھیل کر سات سمندر پار واشنگٹن ڈی سی کے فریڈم اسکوائر سے جا ملا ہے۔ واشنگٹن سے ایک رپورٹر سمیرا اسلم نے اپنی رپورٹ میں کچھ اس سے ملتے جلتے تاثر کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ”اس سال کے آغاز میں جب عرب دنیا میں آمر حکمرانوں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئی تھیں جنھیں ”عرب بہار“ کا نام دیا گیا تھا اس وقت شاید کسی کے بھی گمان میں یہ بات نہ ہو کہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک دن ایسے بینرز دیکھنے کو ملیں گے جن پر لکھا ہو گا ”آﺅ امریکیو، امریکی بہار کے لیے جدوجہد کریں“۔ ان مظاہروں میں حصہ لینے والے امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہ آزاد نہیں ہیں بلکہ امریکہ کے نناوے فیصد عوام اس ایک فیصد امیر طبقے کے غلام ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی ان سے یہ طاقت چھین لے۔“
امریکہ کے بڑے مالی اداروں، بینکوں اور سیاسی مراکز کے سامنے پرامن مظاہرین میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے بعض بنیادی مطالبات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے یہ مظاہرے واشنگٹن اور نیو یارک میں نہیں لاہور اور بغداد میں ہو رہے ہیں۔
واشنگٹن کے فریڈم اسکوائر کے حالات بیان کرتے ہوئے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ جلسہ گاہ میں ایسے پوسٹر بھی نظر آئے جن پر لکھا تھا کہ پاکستان میں ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ یہ مہم وال اسٹریٹ پر چند گروپوں کے دھرنے سے شروع ہوئی، جنھیں انھوں نے ”آکوپیشن“ یعنی قبضے یا دھرنے کا نام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات نہ مانے گئے وہ وال اسٹریٹ میں ہی ڈیرے ڈالے رکھیں گے۔
مظاہروں میں شریک عوام کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی امریکی افواج کو واپس بلایا جائے، امریکی عوام کا کہنا ہے کہ افغانستان اور عراق پر مسلط کی گئی جنگوں پر خرچ ہونے والے ٹریلین ڈالرز کا خرچ امریکی عوام پر زبردستی مسلط کیا گیا ہے۔ ان افواج کو واپس امریکہ لایا جائے اور ان کے ذمے صرف امریکی سرحدوں کا دفاع ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ غیر ممالک اور علاقوں میں براجمان یا مصروف جنگ امریکی افواج کے لیے سالانہ بجٹ تین ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت مالیاتی اداروں کو بچانے کے لیے بےپناہ قرضے لے رہی ہے اور ان قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ عوام کے اوپر لاد رہی ہے۔ بےروزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کو دی گئی سہولیات میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ مظاہرین میں مقبول ترین نعرہ یہ ہے کہ ایک فیصد سے اقتدار چھین کر نناوے فیصد عوام کے سپرد کیا جائے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکوں، ان کے ایجنٹ سیاستدانوں اور ان کے لے پالکوں کی مجموعی طور پر تعداد ایک فیصد سے زیادہ نہیں جو امریکی وسائل پر قابض ہیں۔
میں جب مظاہرین کی یہ باتیں پڑھ رہا تھا تو مجھے کئی مرتبہ احساس ہوا کہ میں چند روز پہلے لکھا گیا اپنا ہی ایک کالم ”سرمایہ داری کا ڈوبتا سفینہ“ پڑھ رہا ہوں۔
امریکی افواج اور سیاستدان تہران سے اٹھنے والے انقلاب کو اس کی سرحدوں میں روکنے کے لیے مصروف تھے کہ بیروت سے انقلاب کا فوارہ پھوٹ نکلا، اسرائیل کی مدد سے اسے روکنے کی کوشش کی تو غزہ سے ایک نیا چشمہ جاری ہو گیا۔ اسے خون کی ندی میں بدلنے کی کوشش جاری تھی کہ استنبول میں طوفانی لہریں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ دوسری طرف بغداد اور کابل کے تیور بھی اچھے نہ تھے۔ جدید ترین اسلحہ سے لیس وحشت آفرین افواج عوام کے دلوں پر حکومت کیا کرتیں، انھیں خوفزدہ کرنے میں بھی ناکام ہوگئیں۔ امریکی تھنک ٹینک اس صورت حال پر انگشت بدنداں تھے کہ تیونس میں ایک نیا لاوا ابلنے لگا۔ امریکی حکمرانوں نے اسے ایک کونے میں واقع ہونے والی ایسی چھوٹی سے تبدیلی سمجھا، جسے آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اچانک اس سے بڑا طوفان قاہرہ کے میدان تحریر میں نمودار ہو گیا۔ پاکستان کے خلاف نیا محاذ کھولنے کی تیاریوں میں امریکی جرنیل مصروف تھے کہ امریکہ میں کئی فریڈم اسکوائرز منصہ شہود پر آگئے۔
عجیب بات ہے کہ خبر اور رائے کی آزادی کا چرچا کرنے والوں نے ایک دم چپ سادھ لی۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھیں سانپ سونگ گیا ہو۔ جو ادارے کسی بندر کے الٹا لٹکائے جانے کی خبر کو بھی بریکنگ نیوز بنا لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں کئی ہفتوں سے جاری نیو یارک، واشنگٹن، کیلیفورنیا، کلوریڈا اور لاس انجلس میں ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات دکھائی نہیں دیتے۔ بعض اداروں نے بچ بچا کر کونوں کھدروں میں چھوٹی سی خبر اور چند تصویریں لگا دی ہیں، تاکہ کل کو کہہ سکیں کہ ہم نے تو خبر دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اب انھیں خبر دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی خبر لینے والے خود ان کی طرف آ رہے ہیں۔
مظاہرین میں سے چند ایک نے ایسے پوسٹر بھی اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ اگر آپ ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اپنا نیوز چینل بند کریں۔ آج ہمارے ہاں کے 10 اکتوبر کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق نیو یارک پولیس نے وہاں کی 9 اکتوبر کی رات دس بج کر پینتیس منٹ پر مظاہرین پر دھاوا بولا اور دھرنے کی لائیو کوریج کرنے والی میڈیا ٹیم کو اٹھا کر لے گئی۔ اس وقت تک سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس ساری صورت حال سے بے خبر رکھ کر دوسری طرف مظاہرین میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے مظاہرین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ وہ میگا فون بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ عوام نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایک آدمی بلند آواز سے ایک جملہ کہتا ہے کچھ فاصلے پر وہی جملہ دوسرا آدمی دہراتا ہے اور اس طرح سے یہ آواز چلتے چلتے آخری آدمی تک پہنچ جاتی ہے۔
بے رحم سرمایہ داری نظام کی اصلیت پوری طرح بے نقاب ہونے والی ہے، آزاد میڈیا کے نام پر قائم دنیا کے طاقتور ادارے اس سرمایہ داری نظام کے ترجمان ہیں۔ آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت اس نظام کے کریہ چہرے کے داغ چھپانے کے لیے ”میک اپ“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ تہذیب ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر۔“ دو پاکستانیوں کے قاتل سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو چھڑوانے کے لیے تمام تر امریکی نظام حرکت میں آ گیا تھا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر نے اسے جھوٹ بولتے ہوئے سفارت کار قرار دے دیا۔ کیا یہ ”امریکی شہری“ کا غم تھا؟ اگر امریکی شہریوں کے غم میں یہ سینہ بے قرار رہتا ہے تو آج سڑکوں اور چوراہوں پر خیمہ زن لاکھوں امریکیوں کے لیے قبرستان کی خاموشی اور جنگل کا سناٹا کیوں ہے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغربی میڈیا تو سرمایہ داری نظام کا ترجمان سہی لیکن ہمارے ”آزاد میڈیا“ کو کیا ہو گیا ہے؟ اس آزاد میڈیا کی حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ میڈیا اُسی مغربی میڈیا کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ یہ اتنا ہی دیکھتا ہے جتنا وہ دکھاتا ہے اور ویسا ہی دیکھتا ہے جیسا وہ دکھاتا ہے۔ جب قومیں فکری طور پر غلام ہو جائیں تو ایسے ہی المیے نمودار ہوا کرتے ہیں لیکن کیا ہم نہ دیکھیں گے تو طوفان نہ آئیں گے اور ہم نہ دیکھیں گے تو دنیا نہ بدلے گی؟ طوفان آئیں گے لیکن اس کے مقابلے کی تدبیر کرنے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں گذشتہ برس اور اس برس سیلاب آیا۔ دنیا بدلے گی لیکن اس تبدیلی میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔
کیا یہ کوئی معمولی سی بات ہے کہ امریکہ کے ایک ہزار شہروں میں اس وقت وہاں پر قائم استبدادی اور ظالمانہ نظام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ غریب، محروم، بے روزگار اور مستضعف ننانوے فیصد امریکی عوام ظالم سرمایہ دار بے رحم ایک فیصد حکمران طبقے کے خلاف بپھرتے چلے جا رہے ہیں۔ چوراہوں اور چوکوں میں جمع ہونے والے امریکی ہیں جنھوں نے اپنے ”مطالبات“ پورے ہونے تک واپس نہ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ دیکھیں امریکی سیاستدان، سرمایہ دار، میڈیا، انٹیلی جنس ایجنسیاں، فوج، تھنک ٹینک، پولیس اور دیگر ادارے مل کر ان کا کیا علاج کرتے ہیں۔ تاہم ایک شعور ہے جو پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ایک آگاہی ہے جو عام ہو رہی ہے۔ ایک تبدیلی ہے جو جڑ پکڑ رہی ہے۔ یہ نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی ہے لاہور اور بغداد نہیں۔
خبر کا کوڈ : 105201
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش