0
Thursday 25 May 2023 20:22

بن سلمان کی اصلاحات اور شیعہ کشی

بن سلمان کی اصلاحات اور شیعہ کشی
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

آل سعود خاندان کی حکومت جو دنیا میں ہمیشہ مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر اہل تشیع کے خلاف امتیازی سلوک کے لیے مشہور رہی ہے، اس نے حالیہ دنوں میں متعدد شیعہ شہریوں کو پھانسی دے کر دباؤ کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ اس نئے اقدام نے سعودی عرب کے شیعہ مسلمانون کے دلوں میں گرفتاریوں اور پھانسیوں کے بارے میں خوف اور تشویش پیدا کر دی ہے۔ پیر کے دن سعودی وزارت داخلہ نے اس ملک کے مشرق میں واقع شہر "قطیف" سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کو پھانسی دینے کا اعلان کیا۔ سعودی وزارت داخلہ کے مطابق قطیف سے تعلق رکھنے والے ان تین نوجوانوں پر الزام ہے کہ انہیں اس ملک سے باہر ایک چھاونی میں ہتھیار چلانے اور بم بنانے کی تربیت دی گئی تھی اور ان کا تعلق سعودی عرب مخالف گروپوں میں سے ایک سے ہے۔

اپنے دعوؤں کے تسلسل میں سعودیوں نے ان تینوں شیعہ نوجوانوں پر ہتھیار اور گولہ بارود جمع کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں مطلوب افراد کو اس ملک سے باہر لے جانے کا الزام بھی لگایا۔ اسی طرح منگل کو سعودی وزارت داخلہ نے شرقیہ کے شیعہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان شیعہ کو پھانسی دینے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ شخص ایک دشمن ملک کے لیے جاسوسی کر رہا تھا۔ سعودی عرب جس پر ایک انتہائی آمرانہ نظام مسلط  ہے۔ یہ نظام حزب اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ دہشت گردی سے متعلق الزامات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ آل سعود کے ان اقدامات کی وجہ سے بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے حکام نے اس حکومت کے دعوؤوں پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگائے ہیں۔

سعودی عرب کا مشرقی علاقہ بنیادی طور پر شیعہ نشین علاقہ ہے اور یہاں کے لوگوں کو عام طور پر دینی تعصب اور سیاسی وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر بے بنیاد مقدمے چلائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب کے اس علاقہ میں چونکہ تیل کے ذخائر موجود ہیں، لہذا سعودی حکمرانوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں ہمیشہ شیعہ مسلمانوں کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ سعودی شیعہ رہنماء اپنے شہری و سیاسی حقوق نیز اقتصادی امتیاز کے خاتمے کے لیے آواز ضرور بلند کرتے ہیں، لیکن انہوں نے حکمران سیاسی نظام کے خلاف کبھی مسلح بغاوت کی حمایت نہیں کی۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی اور سماجی اداروں حتیٰ کہ حکومت میں وہابی نظریات کا غلبہ ہے، جس کی وجہ سے تشیع کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ شیعوں کے جائز مطالبات کو جابرانہ انداز سے دبا جاتا ہے۔ وہابی سوچ شیعہ مسلمانوں کو مرتد اور دین سے خارج سمجھتی ہے اور ان کا خون بہانا جائز سمجھتی ہے۔ سلفیت کے ان سخت عقائد کی وجہ سے گذشتہ دہائیوں میں سینکڑوں بے گناہ شیعوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق جیلوں میں منظم تشدد، ظالمانہ گرفتاریوں اور غیر قانونی مقدمات شیعہ شہریوں کے خلاف سعودی حکومت کے رویئے کا روز مرہ کا معمول ہے، جس کا اختتام عام طور پر سڑکوں پر سرعام پھانسی دینے اور ان کی لاشوں کو گمنام اجتماعی قبرستانوں میں دفن کرنے پر ہوتا ہے۔ یہ پھانسیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔ "یورپی سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن" نے منگل کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے آزادی اظہار کے لیے نظر بند لوگوں کو پھانسیاں دینے کے عمل کے اعادہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پھانسیاں سعودی حکام کے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں کہ سزائے موت صرف انتہائی خطرناک جرائم تک محدود ہے۔ آزادی اظہار کے الزام میں پیر کو چار افراد کو پھانسی دینا اس تشویش کو دوگنا کر دیتا ہے۔

سعودی عرب میں اہل تشیع کی پریشان کن صورتحال
2011ء میں عرب بہار کے آغاز کے بعد سے، سعودی عرب کے شیعوں نے اس ملک میں آمرانہ صورتحال سے نجات کے لیے اپنے احتجاج کا آغاز کیا، لیکن سعودیوں نے اپنی حکومت کی متزلزل بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تشدد کے ذریعے ان مظاہروں کو دبا دیا۔ سینکڑوں شیعہ مظاہرین، علماء اور رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ان میں سے کچھ کو پھانسی دی گئی اور کچھ کو طویل قید کی سزا سنائی دی گئی۔ شیعہ مسلمان سعودی عرب کے شہری ہیں، لیکن حکومتی نقطہ نظر سے انہیں تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے، شیعہ مسلمان منظم امتیازی سلوک کی وجہ سے بہت سے بنیادی اور شہری حقوق سے بھی محروم ہیں۔

سعودی عرب میں شیعہ سرکاری ملازمتوں میں شاذ و نادر ہی ملازمت کرتے ہیں۔ شیعوں کے لیے پولیس، فوج، سکیورٹی اداروں، میونسپلٹی، یونیورسٹی کے عہدوں اور حتی تعلیمی اداروں میں جاب کرنے کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیں۔ اہل تشیع میں اگر کوئی شخص ایسے اداروں میں کام کرتا ہے تو اس کے کیریئر میں پروموشن کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ مستند خبروں کے مطابق کم سے کم 50% سعودی یونیورسٹیوں میں شیعوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اہل تشیع کو عدالتوں میں گواہی دینے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے اور قابل غور نکتہ ہے کہ سعودی عرب میں کوئی شیعہ جج نہیں ہے۔ اس طرح کی سیاسی اور سماجی تفریق شیعوں کی پسماندگی کا سبب بنی ہے۔

اگرچہ شیعہ ملک کی آبادی کا 15% سے زیادہ ہیں، لیکن سعودی حکمران اس شیعہ اقلیت کو قومی سلامتی اور اپنی حکومت کے خلاف سب سے بڑے دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی بہت سے قیدی اور پھانسی پانے والے افراد شیعہ ہیں۔ حکومت کے دباؤ اور شفافیت کے فقدان کی وجہ سے شیعہ قیدیوں کی تعداد اور سزائے موت پانے والوں کی تعداد کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے سینکڑوں شیعہ نوجوانوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ نامعلوم وجوہات اور جھوٹے الزامات کی بنا پر شیعہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ سزا پانے والوں میں 10 سال سے کم عمر کے بچے بھی ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آل سعود شیعہ بچوں سے بھی خوفزدہ ہے۔

سعودی عرب کا سزائے موت کا خوفناک ریکارڈ
اہل تشیع کے معاملے میں سعودی حکومت کی کارکردگی اس ملک کو انسانی حقوق کی پامالی کے میدان میں ریکارڈ توڑ ریاست بنانے کا سبب بنی ہے۔ مخالفین کو سزائے موت دینے میں سعودی حکومت ہمیشہ عالمی بلیک لسٹ میں سرفہرست رہی ہے۔ 2021ء میں مخالفین کو سزائے موت دینے کے حوالے سے سعودی حکومت، مصر کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔ سعودی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ تشدد، پھانسی، ماورائے عدالت قتل، لوگوں کی گمشدگی اور ظالمانہ گرفتاریوں میں ریاض کا ٹریک ریکارڈ بہت خراب ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں نے سعودی عرب کو اس حوالے سے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بڑے پیمانے پر تنقیدیں کی جاتی ہیں، لیکن آل سعود کے حکمران بین الاقوامی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر پھانسیوں کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات شیعہ مسلمان حریف حکومتوں کے ساتھ سعودی حکومت کے بین الاقوامی معاہدوں کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔

صرف 2022ء میں سعودی عرب نے مختلف جرائم کے ارتکاب پر 100 افراد کو پھانسی دی، جن میں زیادہ تر اس ملک کے شیعہ مسلمان تھے، جس پر دنیا میں تنقید کی لہر دوڑ گئی۔ یورپی سعودی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ 2022ء کی پہلی ششماہی میں سعودی عرب میں پھانسیوں کی تعداد کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے کے دور تک پہنچ گئی ہے اور 2019ء میں 186 افراد کو پھانسی دی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے جنوری سے جون 2022ء تک 120 افراد کو پھانسی دی ہے، جو کہ 2021ء کے دوران پھانسیوں کی کل تعداد کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے۔

سعودی قانون کے مطابق سزائے موت کا اطلاق قتل، منشیات، ارتداد، جادو ٹونے اور دہشت گردی جیسے جرائم پر ہوتا ہے۔ چونکہ سعودی عرب کے عدالتی ڈھانچے میں کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے، اس لیے کوئی منصفانہ ٹرائل نہیں ہوتا اور جج شرعی قانون کی اپنی مخصوص تشریحات کی بنیاد پر فیصلے جاری کرتے ہیں، جو کہ وہابی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ بن سلمان نے اصلاحی پالیسیوں کے مطابق حکومت کے سیاسی ڈھانچے کو ایک حد تک وہابی افکار سے پاک کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے باوجود شیعوں کے مسئلہ اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی تعریف میں وہابی رویئے کی نظریاتی جہت کو برقرار رکھا ہے۔ عدالتی قوانین پر تکفیری وہابی نظریات کا غلبہ بدستور موجود ہے۔

سعودی عرب میں شیعوں کو پھانسی دینے کے اس حالیہ نئے دور سے سب کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اب جبکہ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے ساتھ خطہ استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے تو آل سعود اس وقت کشیدگی پیدا کرنے والا یہ اقدام کیوں کر رہا ہے۔ آیا بن سلمان کا یہ اقدام حزب اختلاف کو انتباہ دینے اور معاشرے کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور قانونی توقعات کے خلاف نرمی نہ کرنے کا اشارہ دینے کے لیے کیا گیا ہے یا داخلی صورت حال، بالخصوص شیعوں کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی نہ لانے کا اشارہ ہے۔؟ جواب جو بھی ہو، جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ شیعہ مسلمانوں پر مسلسل دبائو یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بن سلمان کی اصلاحات کے دائرے سے باہر ہیں اور انہیں اپنی صورت حال میں کسی اہم تبدیلی کی امید نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1060134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش