2
Monday 12 Feb 2024 23:46

تل ابیب کی نجات کیلئے عرب ممالک کا خطرناک اقدام

تل ابیب کی نجات کیلئے عرب ممالک کا خطرناک اقدام
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کے وحشیانہ حملے اور بربریت جاری ہے۔ اس صیہونی جارحیت کے آغاز کے چند دن بعد ہی اسلامی مزاحمتی بلاک نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی روکنے کیلئے اس کے خلاف فوجی اقدامات کا آغاز کر دیا تھا۔ یمن میں اسلامی مزاحمتی تنظیم انصاراللہ نے بھی اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں اسرائیل سمیت تمام ممالک کی ایسی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا الٹی میٹم جاری کر دیا تھا جن کی آمدورفت اسرائیلی بندرگاہوں کی جانب ہو۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین حوثی نے اعلان کیا تھا کہ یہ حملے غزہ میں مکمل جنگ بندی اور غزہ کے ظالمانہ محاصرے کے خاتمے تک جاری رہیں گے۔ دوسری طرف اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ممالک امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔
 
ایسے حالات میں جب یمن کے حوثی مجاہدین بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب کو اسرائیلی کشتیوں پر بند کرنے کے نتیجے میں شدید نقصان برداشت کر رہے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ مسلسل انہیں فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن نے اسرائیل کی لاجسٹک سپورٹ کیلئے متبادل راستے کھول دیے ہیں۔ ان عرب ممالک نے دوبئی سے حیفا کے درمیان ایک نئی راہداری کھول دی ہے جس کا مقصد اسرائیل کو وہ سامان پہنچانا ہے جو اب انصاراللہ یمن کے حملوں کی وجہ سے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب سے پہنچنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یہ عرب ممالک اس راہداری کے ذریعے اسرائیل کو کم قیمت پر اس کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کا یہ اقدام امت مسلمہ کے پشت میں خنجر کی مانند ہے۔
 
ان عرب ممالک نے اس زمینی راہداری کے بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ اسرائیل سے ذلت آمیز دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے اور غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں اس کی سہولت کاری کرنے پر مبنی اس اقدام کی مختلف توجیہات پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ صیہونی رژیم کے ذرائع ابلاغ نے اب تک اس زمینی راہداری کی بہت سی تصاویر بھی شائع کی ہیں جس کے نتیجے میں یہ حقیقت جسے مذکورہ بالا عرب ممالک چھپانے کی بھرپور کوششیں کر رہے تھے برملا ہو چکی ہے۔ کچھ دن پہلے صیہونی رژیم کے ٹی وی چینل 13 نے ایسے سینکڑوں ٹریلر کی تصاویر شائع کیں جو اسی زمینی راہداری سے ضرورت کی اشیاء اسرائیل لائے تھے۔ ان تین عرب ممالک کا یہ اقدام غزہ کے خلاف جاری ہولناک جارحیت اور ان کے وسیع قتل عام میں براہ راست یا بالواسطہ شرکت کے برابر ہے۔
 
اسرائیل کی صیہونی رژیم کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے عجولانہ اقدامات اہل غزہ کے خلاف ظالمانہ جنگ، ان کی نسل کشی اور انہیں بھوک کا شکار کر کے سزا دینے کے عمل میں شرکت کے مترادف ہے۔ اسی طرح یہ عمل مغربی کنارے کے ان مظلوم فلسطینیوں سے بھی واضح دشمنی ہے جن کے خلاف غاصب صیہونی رژیم نے ظالمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مصر بھی رفح بارڈر بند کر کے اور غزہ میں انسانی امداد کا داخلہ روک کر اور انسانی امداد کے حامل ہر ٹریلر سے 5 ہزار ڈالر ٹیکس وصول کر کے فلسطینیوں کے خلاف جاری ظلم اور مجرمانہ اقدامات میں برابر کا شریک ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق اس وقت العریش سے رفح تک 2500 انسانی امداد کے حامل ٹریلر کھڑے ہیں اور ان کی لمبی لائن لگی ہوئی ہے۔
 
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان عرب ممالک میں انسانی اور اسلامی جذبہ بیدار ہو جانے کی امید اور توقع بے جا ہے۔ اب تک 30 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں فلسطینی اب تک تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور 70 ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی حالت میں ہیں۔ مزید برآں، 86 فیصد غزہ تباہ ہو کر مٹی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اگر اس قدر ہولناک مظالم اور مظلوم فلسطینیوں کے شدید مصائب ان عرب ممالک میں انسانی اور اسلامی جذبہ بیدار نہیں کر سکے تو پھر ان میں یہ جذبہ بیدار کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ ہمیں اردن، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر سے ہر گز یہ امید نہیں کہ وہ انصاراللہ یمن کے حوثی مجاہدین کی طرح میدان جنگ میں اتریں اور صیہونی رژیم اور اس کے حامی ممالک امریکہ اور برطانیہ کے خلاف ڈٹ جائیں۔
 
اس ناامیدی کی وجہ یہ ہے کہ ان عرب حکمرانوں کا ضمیر مر چکا ہے۔ ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنی قوموں کی آواز سنیں جو فلسطینیوں کی خاطر مضطرب اور پریشان ہیں اور ان کی حمایت کا کھلم کھلا اظہار کر رہی ہیں۔ اردن کے عوام میں اس وقت شدید ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ خبریں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق میں اسلامی مزاحمت کے مراکز پر فضائی حملوں میں امریکی جنگی طیاروں کے ساتھ ساتھ اردن کے جنگی طیارے بھی شامل تھے۔ یہ حملے عراق کے اسلامی مزاحمتی گروہوں سے اردن کی سرحد پر واقعی امریکی فوجی اڈے "ٹاور 22" پر ڈرون حملے کے انتقام کے طور پر انجام پائے تھے۔ اسی طرح اردن کے عوام غزہ اور مغربی کنارے میں مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جاری صیہونی بربریت کی خبریں سن کر بھی بہت بے چین ہیں۔ ان عرب ممالک کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کی جانب جھکاو کی بجائے اسلامی مزاحمت پر بھروسہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 1115788
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش