9
3
Friday 23 Feb 2024 14:07

یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں
تحریر: نذر حافی

یہ دِن بھی آنے تھے۔ سپریم کورٹ نے ۶ فروری 2022ء کو ایک قادیانی کی رہائی کا فیصلہ سُنایا۔ فیصلے کے روز کسی مذہبی جماعت نے اس پر واویلا نہیں کیا۔ سارے عاشقانِ رسولؐ کہلانے والے خاموش رہے۔ دو تین دِن پہلے تک مکمل خاموشی رہی۔ پھر اچانک جیسے کسی نے کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا ہو۔ یکدم سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کیلئے ایک قادیانی کی رہائی کی خبر سب سے بڑی خبر بن گئی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنے ہاں ڈیموکریسی ہو یا اسلام، ہر چیز کنٹرولڈ ہے۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی طرح مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی کسی کی کوئی دلیل نہیں چلتی۔ مذہبی شِدّت پسندوں نے  اسلام کو اتنا کنٹرول کر رکھا ہے کہ ہمارے ہاں فرقے تو ہر جگہ ملتے ہیں لیکن اسلام کہیں نہیں ملتا۔ حتی کہ آپ کو جابجا مساجد بھی فرقوں کی ہی ملیں گی۔ اب ایسے سماج میں چیف جسٹس صاحب نے کسی فرقے سے لو لگائے بغیر اپنا فیصلہ سُنا دیا۔  ورنہ اگر اپنے فیصلے میں وہ مذہبی اکابرین میں سے کسی اکابر کی یا سلفِ صالحین میں سے کسی  سلفِ صالح کی تعریف کر دیتے اور ان کا حوالہ دے دیتے تو مزاحمت کے بجائے اُن کی واہ واہ ہو جانی تھی۔

انہوں نے اکابرین کے حوالے دینے کے بجائے  اپنے فیصلے میں سورة البقرة کی آیت نمبر ۲۵۶، سورة الرعد کی آیت نمبر ۴۰ اور سورة یونس کی آیت نمبر ۹۹ کے حوالے دے دیئے ہیں۔ اُن کی بات اگرچہ ٹھیک ہے کہ "دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں" لیکن ہمارے ہاں دین کی ملکیّت میں تو کچھ رہا ہی نہیں۔ مساجد، مبلغ، مفتی، نکاح، جنازے، منبر اور علماء، یہ سب دین کے نہیں بلکہ فرقوں کے ہیں۔ ان فرقوں کی جان مختلف مذہبی کلٹس (Cults) کے اندر ہے۔ کلٹس (Cults) یعنی کسی شخصیت کے گرد جمع ہونے والے افراد کا ٹولہ۔ کلٹس (Cults)  کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تجزیہ و تحلیل نہیں کرتے۔ سوچنے اور پرکھنے کے  بجائے صرف اپنے مُرشد کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، جو مُرشد نے کہا بس وہی حق ہے۔ کورٹ نے جو کہا ہے اس سے کلٹس کو تو کوئی غرض نہیں۔ البتہ ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں مکتوب کیا ہے  کہ رسول اللہؐ تک کو خالق نے یہ کہا تھا کہ ان کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔

قارئین کی دلچسبی سے یہ امر خالی نہیں ہوگا کہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن کے اس اصول کو، کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، آئین میں ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۰ کی شق اے طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا۔ دفعہ ۲۰ کی شق بی کہتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا۔ آئین کی دفعہ ۲۲ یہ لازم اور مقرر کرتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقے کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اس گروہ یا فرقے کے طلبہ کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا۔

فاضل جج نے قرآنی تعلیمات اور آئین پاکستان دونوں کی روشنی میں اپنا  فیصلہ سُنایا ہے۔ محترم چیف جسٹس کے اس فیصلے پر جرح و تعدیل کی گنجائش سے ہمیں انکار نہیں۔ تاہم قانونی طور پر اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مشتعل کرنا ایک خاص چال ہے۔ اس چال کے پیچھے ہمارے مذہبی شدت پسند ہیں۔ دراصل یہ بےچارے ان دنوں شدید زخمی حالت میں ہیں۔ ابھی انتخابات میں عوام نے انہیں یکسر مُسترد کردیا ہے۔ اب دوبارہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کئے بغیر یہ اپنی طاقت کو بحال نہیں کر سکتے، چھپکلی مر گئی ہے لیکن ابھی اُس کی دُم زندہ ہے، مزید زندہ رہنے کیلئے انہیں عوامی حمایت کا تازہ خون چاہیئے، موجودہ انتخابات میں انہیں کاری ضرب لگی ہے، پورے ملک میں کوئی ایک بھی   تکفیری یا مذہبی شِدّت پسند انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ چنانچہ یہ سب اپنی اپنی شکست کا مداوا کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

قارئینِ محترم ! مانا کہ قادیانی اسلام کے دائرے سے باہر ہیں لیکن ان مذہبی شدت پسندوں نے تو اسلام کے دائرے کو اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ انہوں نے اے پی ایس پشاور  کے بچوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھا، انہوں نے تو قوالی پڑھنے پر قاری سعید چشتی اور امجد صابری جیسوں کو مار ڈالا، ان کے نزدیک تو پاکستان بنانا ہی غلطی تھا، ان کے ہاں تو پاک فوج ناپاک فوج ہے۔ قابلِ توجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو آئینِ پاکستان سمجھانے والے یہ حضرات تو آئینِ پاکستان کو مانتے ہی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میدانِ سیاست کے بعد مذہبی میدان میں بھی ان شدت پسند ٹولوں کو مسترد کیا جائے۔ آئین پاکستان کی تفسیر کرنے کی عدالتیں ہی مجاز ہیں اور عدالتوں کے فیصلوں پر عدالتوں میں ہی اعتراض روا ہے۔ اگر ان مذہبی کلٹس (Cults) کو آئینِ پاکستان کی تفسیر کی اجازت دے دی گئی تو یہ ریاست کا بھی وہی حال کریں گے جو انہوں نے اسلام کا کیا ہے۔ عوام کو یاد رکھنا چاہیئے کہ بے شک! پاکستان ختمِ نبوّت کا قلعہ ہے لیکن اس کے آئین کی تفسیر کا حق کسی بھی صورت میں مذہبی شدّت پسندوں کو نہیں دیا جا سکتا۔

بقولِ اقبال:
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یاربّ رہنے والے ہیں
خبر کا کوڈ : 1118032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بھائی نذر حافی صاحب اور اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کے لیے آئین پاکستان کا آرٹیکل بیس کا متن فقط دو حصے ہیں، الف اور ب۔ یا للعجب کیا آپ سمجھ بھی رہے ہیں کہ مقدمہ کی نوعیت کیا ہے؟؟ شق بیس پڑھ کر بتائیں کہ کیا اس مقدمے کا فیصلہ درست ہے؟ بحیثیت ایک شیعہ مجھے بہت افسوس ہوا ہے کہ آپ جیسا اسلامی اسکالر ایک چھوٹی سی معمولی سی عام سی بات کو نہیں سمجھا۔ ان پر مسلمانوں کی مسجد جیسی شباہت کی عبادتگاہ بنانے کی اجازت نہیں ہے اور تبلیغ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ختم نبوت کا انکار کرنے کے بعد جو نکتہ پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد مسیح ہے، یعنی مانتے نبی ہی ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ مسیح ختم نبوت خاتم الانبیاء محمد ص سے پہلے کے نبی تھے، اس لیے وہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح وہ ختم نبوت کے منکر ہیں ہی نہیں۔ لیکن جو دعوے مرزا غلام نے کیے، ان کو اگر آپ مانتے ہیں تو وہ بیک وقت مسیح و مھدی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرچکا۔ اب آپ شرعی قوانین کی رو سے بتائیں کہ انہیں تبلیغ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا معاملہ جدا ہے کہ یہ مرتدین کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ صرف سنی یا شیعوں کی حد تک نہیں، یہ مسیحی عیسائیوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں کہ اس آدمی کو عیسیٰ مسیح مان لیں۔ کیا آپ انکو امام مہدی عج کا پیروکار مان سکتے ہیں۔ حکومت میں، ریاست میں، اعلیٰ عہدوں پر ہیں یہ لوگ، پہلے معلوم کرلیں۔

آرٹیکل20
20 Freedom to profess religion _and to manage religious institutions.
Subject to law, public _order _and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practice _and propagate his religion; _and
(b) every religious denomination _and every sect thereof shall have the right to establish, maintain _and manage its religious institutions.
Iran, Islamic Republic of
محترم آپ نے جو نکات اٹھائے ہیں، وہ اس کالم میں اٹھائے ہی نہیں گئے اور نہ ہی وہ اس کالم کا موضوع ہیں۔ امید ہے کہ آپ اداریئے، کالم، مضمون اور آرٹیکل کا فرق تو سمجھتے ہی ہونگے۔ کالم کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے کیلئے نہیں لکھا جاتا اور نہ ہی کالم کا مقصد کسی کو فرشتہ یا گنہگار قرار دینا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ بین السطور کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
شکریہ
Pakistan
عجب ثم العجب، افسوس، یعنی اسلام ٹائمز میں اسلامی اسکالر غلطی کی اصلاح کی بجائے کالم، آرٹیکل، مضمون کے فرق کی مثال لے آئے۔ آپ نے غلط تحریر لکھی ہے اور آپ کو متوجہ کر دیا گیا ہے، تاکہ ریکارڈ پر رہے۔ دو فریقوں کی ٹائمنگ اپنی جگہ قابل اعتراض تھی، تبھی آپ نے ایک فریق کی طرفداری تو کی ہے، ٹائمنگ و نیت پر شکوک و شبھات پر اعتراض تو آپ نے ہی کیا ہے، تو اس سے فیصلے کی درستگی ثابت کرنے کی کوشش تو آپ نے ہی کی ہے، جبکہ فیصلہ آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے اور اسلامی عقائد و شرع مقدس کے بھی خلاف ہے۔
یہ آپ کی تحریر کا ابتدائی حصہ کاپی پیسٹ ذیل میں دیا جا رہا ہے، تاکہ آپ کی عقل شریف آپکو نہ بھی سمجھائے تو کوئی اور پڑھنے والے میری رائے کو سمجھ سکیں۔
یہ آپکی اسی تحریر کا ابتدائی حصہ ہے
یہ دِن بھی آنے تھے۔ سپریم کورٹ نے 6 فروری 2022ء کو ایک قادیانی کی رہائی کا فیصلہ سُنایا۔ فیصلے کے روز کسی مذہبی جماعت نے اس پر واویلا نہیں کیا۔ سارے عاشقانِ رسولؐ کہلانے والے خاموش رہے۔ دو تین دِن پہلے تک مکمل خاموشی رہی۔ پھر اچانک جیسے کسی نے کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا ہو۔ یکدم سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کیلئے ایک قادیانی کی رہائی کی خبر سب سے بڑی خبر بن گئی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنے ہاں ڈیموکریسی ہو یا اسلام، ہر چیز کنٹرولڈ ہے۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی طرح مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی کسی کی کوئی دلیل نہیں چلتی۔ مذہبی شِدّت پسندوں نے اسلام کو اتنا کنٹرول کر رکھا ہے کہ ہمارے ہاں فرقے تو ہر جگہ ملتے ہیں، لیکن اسلام کہیں نہیں ملتا۔ حتی کہ آپ کو جابجا مساجد بھی فرقوں کی ہی ملیں گی۔ اب ایسے سماج میں چیف جسٹس صاحب نے کسی فرقے سے لو لگائے بغیر اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ ورنہ اگر اپنے فیصلے میں وہ مذہبی اکابرین میں سے کسی اکابر کی یا سلفِ صالحین میں سے کسی سلفِ صالح کی تعریف کر دیتے اور ان کا حوالہ دے دیتے تو مزاحمت کے بجائے اُن کی واہ واہ ہو جانی تھی۔

انہوں نے اکابرین کے حوالے دینے کے بجائے اپنے فیصلے میں سورة البقرة کی آیت نمبر ۲۵۶، سورة الرعد کی آیت نمبر ۴۰ اور سورة یونس کی آیت نمبر ۹۹ کے حوالے دے دیئے ہیں۔ اُن کی بات اگرچہ ٹھیک ہے کہ "دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں" لیکن ہمارے ہاں دین کی ملکیّت میں تو کچھ رہا ہی نہیں۔ مساجد، مبلغ، مفتی، نکاح، جنازے، منبر اور علماء، یہ سب دین کے نہیں بلکہ فرقوں کے ہیں۔ ان فرقوں کی جان مختلف مذہبی کلٹس (Cults) کے اندر ہے۔ کلٹس (Cults) یعنی کسی شخصیت کے گرد جمع ہونے والے افراد کا ٹولہ۔ کلٹس (Cults) کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تجزیہ و تحلیل نہیں کرتے۔

اب میں آپکو یہ عرض کر دوں کہ یہ موضوع کلٹس کا نہیں ہے، امت اسلامی کا متفقہ موضوع اور غیر متنازعہ موضوع ہے۔ آپکی رائے عدل اسلامی سے انحراف ہے۔ ارتداد کی حمایت پر مبنی ہے۔ اصلاح کریں اپنی، آرٹیکل بیس پھر پڑھ لیں۔
مجھے ان تنگ نظر متعصب مولویوں سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن یہ موضوع خاتم الانبیاء کے اس حق کا ہے، جو اولی بانفسکم، انفسھم کی آیات کے تحت ہے، افسوس ہوا کہ آپ ایک آسان ترین موضوع کو پیچیدہ کر رہے ہیں۔
آپکی مرضی۔
Iran, Islamic Republic of
بھائی صاحب آپ برا نہ منائیے گا۔ آپ بھی مولویوں کی طرح خواہ مخواہ سینگ پھنسا رہے ہیں۔ ایک کالم کا نہ موضوع عقائد ہے اور نہ عقیدے کے پیش نظر کسی کو کچھ کہا گیا ہے۔ یعنی عقیدے کے دائرے میں بات ہی نہیں کی گئی۔ اگر آپ سمجھنا چاہیں تو آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہر مسئلے کے کئی پہلو اور کئی زاویے ہوتے ہیں، سیاسی، معاشی، مقامی، علاقائی، بین الاقوامی، نظریاتی، اور کلامی وغیرہ۔۔۔
تخصصی طور پر جیسے آنکھ کا ڈاکٹر معدے کا علاج نہیں کرتا، اسی طرح ایک شعبے کا ماہر دوسرے شعبے میں رائے نہیں دیتا۔ کیا جتنے لوگ مرزائیوں کے بارے میں لکھتے ہیں، وہ صرف مرزائیوں کے عقائد کے بارے میں لکھتے ہیں اور آپ سب کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مرزائیوں کے عقائد کے بارے میں ہی لکھیں؟
آپ کو شاید یہ محسوس نہیں ہو رہا کہ آپ دوسروں سے زبردستی اپنی مرضی کا لکھوانا چاہتے ہیں۔ آپ کو اگر لگتا ہے کہ مرزائیوں کے عقائد پر لکھا جانا چاہیئے تو آپ اپنے زاویے سے لکھیں، دوسروں کو کیوں یہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع بہت اہم ہے اور۔۔۔ یوں ہے۔ جو پہلو اور زاویہ آپ کو اہم دکھائی دے رہا ہے، اس پر آپ کو لکھنا چاہیئے نہ کہ آپ دوسرے سے کہیں کہ قادیانی کافر ہیں اور تم اس پر لکھو۔ دوسرا آپ کا ہر کام کرسکتا ہے لیکن آپ کی جگہ بیٹھ کر سوچ نہیں سکتا۔ آپ جو سوچ رہے ہیں، وہ آپ خود لکھیں۔
ہر کالم نگار اپنی سوچ کے زاویے کو لکھتا ہے نہ کہ دوسروں کے زاویے۔
امید ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ کالم کوئی انسائیکلو پیڈیا نہیں ہوتا کہ اس میں ایجوکیشن، دین، سیاست، اقتصاد سب کچھ گھسیڑا جائے۔ ہر کالم کے ظرف میں ایک مخصوص پیراڈائم ہوتی ہے۔ آپ مرزائیوں کے عقائد کی بات کر رہے ہیں جبکہ اس کالم میں عقائد کی پیراڈائم ہے ہی نہیں۔
آپ اس کالم میں اس کے موضوع سے ہٹ کر دوسری چیزیں ڈالنے کی ضد کر رہے ہیں، تاکہ کالم کی کھچڑی بن جائے۔
بھائی آپ عقائد کی پیراڈائم میں اپنا کالم لکھیں اور بڑے شوق سے لکھیں، آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اسی زاویے پر لکھے، جو آپ کو پسند ہے۔ اگر آپ نے نہیں لکھنا تو دوسروں سے یہ امید مت رکھیں کہ وہ تابعدار بچوں کی طرح بیٹھ کر جو آپ حکم دیں گے، وہ وہی لکھیں گے۔ آپ سمجھنا چاہیں تو میں نے آپ کا مسئلہ بیان کر دیا ہے اور نہ سمجھنا چاہیں تو سینگ پھنساتے رہیں۔
Pakistan
میں اپنی رائے ریکارڈ پر لاچکا۔ آپکو متوجہ کرنا مقصود تھا۔ اطیعواللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم۔ یہ حکم میرا نہیں ہے۔ کونو مع الصادقین، یہ حکم میرا نہیں ہے۔ لعنت اللہ علی الکاذبین، یہ میرا قول نہیں ہے۔ ان الدین عنداللہ الاسلام. و من یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ یہ بھی میری نازل کردہ نہیں ہیں اور سینگ پھنسانے کی بھی اگر کوئی کوشش ہوئی ہے تو اسے خود میں محسوس کریں۔ حق کا انکار کبر کی وہ قسم ہے کہ جو کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ پہلے ہی لکھا جاچکا تھا، آپکی مرضی، بات تو وہیں ختم ہوچکی تھی کہ آپکی مرضی!!
United States
ہمارے ہاں بڑی تنگ نظری ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ جو میں چاہتا ہوں وہی سب چاہیں۔ بھائی جان ممکن ہے کہ لکھنے والا آپ سے زیادہ احمدیوں کے عقائد کو جانتا ہو۔ جب وہ کسی خاص حکمت عملی کی وجہ سے اس موضوع پر آیا ہی نہیں تو آپ ایسے ہی دوسرے موضوعات کو اسی کالم میں کھینچ کر لا رہے ہیں۔ مرزائیوں کے عقائد کے خلاف سب نے لکھا ہے اور انٹرنیٹ بھرا ہوا۔ اب ذرا سا کسی نے پرانی اور فرسودہ ڈگر سے بات کی ہے تو لٹھ بردار پہنچ گئے ہیں۔
او بھائیو اپنے دماغ کھولو، ایک مسئلے کے ہزاروں زاویے ہوتے ہیں۔ ہر مسئلے کو مختلف زاویوں سے جاننے اور سمجھنے کی فضا بنائیں۔
آگے بڑھیں نئی جہتوں کی طرف، پرانے بڈھوں کی طرح جو میں کہتا ہوں وہی سب کہیں، یہ کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے۔ مرزائیوں کی کفریات پر اتنا کچھ روزانہ لکھا جا رہا ہے، اب عام بندہ پڑھنے سے بھی تنگ ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ مرزائی کافر ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہر کالم اسی پر لکھا جائے۔ خدا کا واسطہ ہے، سب کو پڑھنے، سوچنے اور لکھنے کا حق دیں، کاش آپ جیسے بھائی یہ سمجھ جائیں کہ سب کو لکھنے اور پڑھنے میں وہ پسند نہیں جو آپ کو پڑھنا پسند ہے۔ آپ گوگل پر مرزائیوں کے عقائد کے بارے میں خوب سرچ کریں اور پڑھیں۔ اب میرے جیسوں کو بھی تو پڑھنے کیلئے کوئی نئی بات، نئی سوچ اور نیا زاویہ روزانہ چاہیئے ہوتا ہے۔
Pakistan
بات مکمل بیان کی جاچکی۔ آپ کے پاس ہزار زاویے ہوں گے، آپ ایک ناقابل دفاع فیصلے کا دفاع کرتے رہیئے، میں یہی موقف بیان کرتا رہوں گا کہ نذر حافی نے غلط لکھا ہے۔ کوئی زور زبردستی نہیں کی ہے۔ میں نے جو لکھنا تھا، وہ لکھ تو دیا ہے اور کیسے لکھوں۔ بہت صاف، آسان، واضح اور آشکارا لکھا کہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں سو لے آیا۔ اسلام ٹائمز اسلامی اسکالر سمجھ کر رائے دی تھی۔ غیر اسلامی اسکالرز پر ضایع کرنے کے لیے وقت نہیں۔
Pakistan
وفاق المدارس الشیعہ کا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر شدید تحفظات، آئین کی نفی قرار دیدیا
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھی طرح آپ نے کلٹس کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ ابھی لاہور میں ہی عربی کیلی گرافی کی ڈیزائننگ پر مبنی لباس پہننے پر ان لوگوں نے کیسا ہنگامہ کیا اور لاہور میں ہی احمد جاوید نام نہاد دانشور نے اہل تشیع کے خلاف جو گفتگو کی ہے، یہ ساری چیزیں آپ کی دور اندیشی کی تازہ دلیلیں ہیں۔
یہ کلٹس زندہ ہی ایسے ایشوز کی وجہ سے ہیں۔ احمد جاوید نے تو غزہ کے مسئلے کو بھی ایک گروہ وارانہ ایشو بنا کر پیش کیا ہے۔
ہماری پیشکش