1
Saturday 24 Feb 2024 19:45

منطق کی طاقت اور طاقت کی منطق

منطق کی طاقت اور طاقت کی منطق
تحریر: محمد کاظم انبارلوئی
 
اکیسویں صدی میں دنیا پانچ براعظموں میں طاقت کی منتقلی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ امریکہ میں طاقت کا زوال، دنیا بھر، خاص طور پر مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کا گوشہ گیر ہو جانا اور امریکی جبر اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی سوچ فروغ پانا، طاقت کی اس منتقلی کے بنیادی اسباب ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک علاقائی اور علاقے سے ماوراء طاقت بن چکا ہے جس نے عالمی سطح پر طاقت کی مساواتوں میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ دنیا اس وقت ایک اہم تاریخی موڑ اور راہداری سے عبور کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو طاقت بھی اس اہم موڑ اور راہداری سے عبور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے وہ اس راستے میں جگہ جگہ پائی جانے والی اسلام، انقلاب اور ایرانی جیسی اہم نشانیوں اور علامات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔
 
عالمی سطح پر طاقت کی مساواتوں میں تبدیلی ایک منطق کے تابع ہوتی ہے۔ اس منطق کا معقول، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی اور عالمی تاریخ میں گہری جڑوں کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح یہ طاقت ایک مضبوط اور ہم آہنگ ڈائیلاگ کی حامل ہونی چاہئے تاکہ آج انسان کو درپیش تمام تر ضروریات، خاص طور پر فطری اور روحانی ضروریات برطرف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسلامی انقلاب نے گذشتہ چالیس برس کے دوران ثابت کیا ہے کہ وہ اس منطق کے بنیادی فریم ورک سے برخوردار ہے اور اس کی بقا، جاودانگی اور ناقابل شکست ہونے کی بھی اصل وجہ یہی ہے۔ طاقت کی منطق نے بیسویں صدی عیسوی میں دو عالمی جنگوں کے ذریعے کروڑوں انسانوں کی جان لے لی اور ہزاروں شہروں کو تباہ کر کے کھنڈر میں تبدیل کر دیا تھا۔
 
ایسی تباہ کن اور تخریبی طاقت کے ظہور کا منشاء تسلط، جبر، جارحیت، فریب وغیرہ تھا۔ اس طاقت کے ڈائیلاگ کے محور تین الحادی مکتب فکر فاشزم، کمیونزم اور لبرل ازم تھے۔ دنیا نے تیسرے ہزارے میں داخل ہو کر مذکورہ بالا دو الحادی مکتب یعنی فاشزم اور کمیونزم کو تاریخ کے کوڑے دان کے سپرد ہوتے دیکھا جبکہ تیسرے ہزارے کے پہلے اور دوسرے عشرے کے دوران اسلامی مزاحمتی بلاک کی تشکیل کی برکت سے وہ لبرل ازم کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں بھی سن رہی ہے۔ وہ جو جبر اور دھونس کو طاقت کی منطق گردانتے ہیں آج اپنے ڈائیلاگ میں ہم آہنگی کھو چکے ہیں۔ امریکی حکام نے "قومی سلامتی کی تزویراتی دستاویز 2022ء" میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اکیسویں صدی، امریکیوں کی صدی نہیں ہے۔ وہ اعتراف کر چکے ہیں کہ نئے ورلڈ آرڈر میں ایران کا کردار بنیادی اور فیصلہ کن ہو گا۔
 
آج امریکی حکمرانوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ کون سا نظریہ اور آئیڈیالوجی آئندہ ورلڈ آرڈر وضع کرے گا اور اس میں "جدید ایشیا ازم" نظریے کا کتنا حصہ ہو گا؟ روسی اور چینی ورلڈ آرڈر کا انجام کیا ہو گا اور ان دو آرڈرز کی اسلامی آرڈر سے نسبت کیا ہو گی؟ جب تک ایک نظریہ مختلف قسم کی مادی اور ٹیکنالوجیکل تعمیر، خاص طور پر فوجی تعمیر میں تبدیل نہیں ہوتا، طاقت پیدا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا کے فوجی تھنک ٹینکس نے اپنی توجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی طاقت پر مرکوز کر رکھی ہے اور کوئی ایسا دن نہیں جب وہ ایران کے میزائلوں، جنگی کشتیوں، ڈرون طیاروں اور فکری اور انسانی صلاحیتوں کا ذکر نہ کرتے ہوں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نہ صرف ایران پر فوجی جارحیت ہر گز انجام نہیں پائے گی بلکہ وہ اب ایران کے خلاف ڈیٹرنس طاقت بھی گنوا چکے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایران کی جانب سے اقدام میں پہل کرنے کی توقع رکھنی چاہئے۔ وہ 2006ء سے اب تک اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ایران کے اتحادیوں سے چند روزہ جنگوں میں اس حقیقت کا تجربہ کر چکے ہیں۔ اسٹیٹ نیشن تعلقات میں گڑ بڑ پیدا کرنے، سیاسی، سماجی اور ثقافتی نظم و ضبط میں عدم استحکام لانے اور اندرونی سطح پر فالس دوگانگی ایجاد کرنے کی کوششوں کا واحد مقصد نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں مصروف ایرانی تھنک ٹینکس کی توجہ ہٹانا ہے۔ اگر ایرانی حکام اور اہم شخصیات نئے ورلڈ آرڈر میں اپنے کردار سے غفلت برتیں گے تو انہیں یہیں سے دھچکا لگنے کا خطرہ ہے۔ حال ہی میں امریکی حکام نے بعض ثالث فریقوں کے ذریعے ایران کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ دشمن کی جانب سے ملنے والے ہر پیغام کا مثبت یا منفی جواب دینے سے پہلے ہمیں ایک اہم اور کلیدی سوال کا جواب دینا پڑے گا۔
 
وہ سوال "مذاکرات کی نوعیت"، "مذاکرات کے اہداف" اور "مذاکرات کے طریقہ کار" پر مشتمل ہے۔ جب تک ہم اس سوال کا جواب نہیں پا لیتے دشمن سے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے۔ جوہری پروگرام سے متعلق ایران کا امریکہ اور یورپی ممالک سے مذاکرات کا تجربہ کافی ہے۔ امریکی حکام مذاکرات کو صرف مذاکرات کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف اپنی جیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور مدمقابل کے مطالبات پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: "حج کا مقصد امت مسلہ کی ترقی ہے۔ حج استعماری طاقتوں کے سامنے طاقت کا اظہار اور سینہ سپر کرنا ہے۔ اس انداز میں کام کریں کہ جوان تہذیب سازی اور عالمی اتحاد کے بارے میں سوچیں۔"
خبر کا کوڈ : 1118329
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش