1
2
Tuesday 27 Feb 2024 11:30

تحریک ختم نبوت میں تشیع پاکستان کا کردار اور حصہ

تحریک ختم نبوت میں تشیع پاکستان کا کردار اور حصہ
تحریر: سید نثار علی ترمذی

انگریزوں سے پاکستان کو جو مسائل ورثہ میں ملے تھے، ان میں سے ایک مسئلہ قادیانیت تھا۔ تشکیل پاکستان سے قبل تحریک ختم نبوت ایک علیحدہ مثالی حثیت رکھتی ہے۔ فی الحال اسے صرف نظر کرتے ہوئے پاکستان کے وجود سے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح امت محمدی اس مسئلے پر متحد و متفق اور متحرک رہی ہے۔ اس ضمن میں جو علمی کاوشیں ہوئی ہیں، ان کی فہرست مرحوم حسین عارف نقوی نے امامیہ مصنفین جو کہ دو جلدوں پر مشتمل کتاب مرتب کی ہے، اس میں شامل کی ہے، جس کی جلد دوم میں مکتب امامیہ کے علماء اور دانشوروں نے قادیانیت کے رد میں جو کتابیں لکھی، ان کی گیارہ صفحات پر مشتمل فہرست شامل ہے۔ اس طرح کی فہرست تحریک ختم نبوت نے بھی مرتب کی ہے، جو ایک علیحدہ موضوع ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس نوزائیدہ مملکت کو کئی مسائل درپیش تھے، جس میں انتظامی امور کے علاوہ مہاجرین کی آمد و آبادکاری، کشمیر کا مسئلہ، آئین سازی اور قائد اعظم محمّد علی جناح کی بے وقت رحلت، لیاقت علی خاں کی شہادت جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا۔ علمائے کرام نے حکومت کے ساتھ ہر مسئلے پر تعاون فرمایا۔ ایسے مسائل اٹھانے سے پرہیز کیا، جس سے انتظامی اختلافی مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔

اس مصلحت آمیز خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانیوں نے اپنی تبلیغات کو زور شور سے جاری کر دیا، نیز اہم انتظامی آسامیوں پر پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ سر ظفر اللہ خان جو کہ مرکزی کابینہ میں اہم عہدے پر فائز تھے اور قادیانی تھے۔ انہوں نے قائداعظم کا نماز جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا، وہ قادیانیوں کی پوری طرح سرپرستی کرنے لگے تھے۔ 20 ستمبر 1948ء کو ربوہ (چناب نگر) چنیوٹ میں دریائے چناب کے کنارے ایک وسیع جگہ حاصل کرکے قائم ہوچکا تھا۔ اسی دوران قرارداد مقاصد اور علماء کرام کے تعاون سے تیار ہو کر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے 12 مارچ 1949ء کو منظور ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ تمام مسالک کے علمائے کرام 1951ء میں 22 نکات پر اتفاق کرکے دستخط کرچکے تھے۔ قادیانی اپنی سرگرمیوں کا پاکستان میں بھرپور آغاز کرچکے تھے۔ حکومت میں اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے وہ مختلف علاقوں میں بھی اپنے جلسے کرکے اپنا مکروہ چہرہ عیاں کرچکے تھے۔

مجلس احرار سمیت دیگر تنظیمیں اور شخصیات اپنی جگہ اس کا توڑ کر رہی تھیں۔اسی دوران 17، 18 مئی 1952ء کو کراچی میں قادیانیوں نے جلسہ کیا، جس سے سر ظفر اللہ خاں نے خطاب کرتے ہوئے اسلام کو مردہ اور احمدیت کو زندہ اسلام تک کہہ ڈالا۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ جلسہ تو درہم برہم ہوگیا، مگر اس صورت حال سے ہر دل رکھنے والے مسلمان کو آئندہ کے خطرات کا اندازہ ہوگیا۔ دو جون 1952ء کو مولانا لال حسین اختر کے رابطے اور کوششوں سے کراچی کے تھیو سوفیکل ہال میں آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر جو دعوت نامہ مسلم پارٹیز کو بھیجا گیا، اس پر درج ذیل علمائے کرام کے دستخط تھے :-
1۔ مولانا لال حسین اختر
2۔ مولانا احتشام الحق تھانوی(دیوبندی)
3۔ مولانا عبدالحامد بدایونی (بریلوی)
4۔ مولانا مفتی جعفر حسین مجتہد(شیعہ)
5۔ مولانا محمد یوسف (اہل حدیث)

اس اجلاس میں پہلی مرتبہ مندرجہ ذیل تین مطالبات بھی بھی متعین کیے گئے۔
1۔ قادیانیوں ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
2۔ چودھری ظفر اللہ خاں کو وزارت خارجہ کے عہدے سے الگ کیا جائے۔
3۔ تمام کلیدی اسامیوں سے قادیانی افسروں کو علیحدہ کیا جائے۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ مطالبات منوانے کے لیے کل مسلم پارٹیز کانفرنس طلب کی جائے۔ کانفرنس کی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے فرمائی۔ ایک بورڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کے ذمہ یہ تھا کہ وہ آل مسلم پارٹیز کنونشن کے جملہ انتظامات کا ذمہ دار ہوگا۔ اس بورڈ کے ممبران مندرجہ ذیل حضرات منتخب ہوئے۔
1۔ مولانا سید سلیمان ندوی، صدر، تعلیمات اسلامی بورڈ
2۔ مفتی محمد شفیع، ممبر، تعلیمات اسلامی بورڈ
3۔ مولانا عبدالحامد بدایونی
4۔ مولانا محمد یوسف کلکتوی
5۔ مولانا مفتی صاحبداد ‏
6۔ مولانا سلطان احمد
7۔ مولانا احمد نورانی
8۔ مولانا لال حسین اختر
9۔ الحاج ہاشم گزور
10۔ مولانا مفتی جعفر حسین مجتہد ممبر، تعلیمات اسلامی بورڈ
11۔ مولانا احتشام الحق تھانوی، کنوینر

مندرجہ بالا مذکورہ بورڈ کا ایک اجلاس 13 جنوری 1952ء کو الحاج ہاشم گزور کے مکان پر ہوا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آل پارٹیز کنونشن میں مندرجہ ذیل جماعتوں کو دعوت نامے جاری کیے جائیں۔
 1۔ جمیعت علماء اسلام پاکستان
2۔ جمیعت علمائے پاکستان
 3۔ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان
4۔ مجلس احرار اسلام پاکستان
5۔ تنظیم اہل سنت والجماعت
6۔ جمعیت اہل حدیث پاکستان
 7۔ جماعت اسلامی پاکستان
8۔ حزب اللہ مشرقی پاکستان
9۔ ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان
5 اگست 1952ء کو کراچی میں ایک مشترکہ میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مستقبل قریب میں کل پاکستان کی سطح پر ایک آل پارٹیز کنونشن بلائی جائے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی کو کنونشن بلانے کا مجاز قرار دیا گیا۔ مولانا نے 11 دسمبر 1952ء کو پاکستان بھر کی دینی جماعتوں کے نمائندوں کا کنونشن اور بلانے کی دعوت نامے جاری کر دیے کہ: ”آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کا اجلاس کراچی میں 16، 17 اور 18 جنوری 1953ء کو منعقد ہوگا۔” (تحریک ختم نبوت 1953، ص۔ 114 115، مولانا اللہ وسایا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان,1991)

اگر تحریک ختم نبوت کا یہی انداز اور پہلو پیش کر دیا جائے تو موضوع مکمل ہوسکتا ہے۔ اسے پاکستانی مسلمانوں کا خوبصورت گلدستہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت سب مسلمانوں کا مشترکہ و متفقہ سرمایہ ہے۔ جب سے اس خطے میں قادیانی فتنہ پھوٹا ہے، مسلمانوں کے تمام مسالک آج کی جدید اصطلاح میں ایک پیج پر رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر کسی نے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتاویٰ کو سد راہ نہیں سمجھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تکفیری فتووں کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ تحریک ختم نبوت اس کا عملی رد ہے۔ اس تحریک کے بانی بالغ نظر اور وسیع نظر تھے۔ ان کے کیے گیے فیصلوں پر آج تک کسی کو انگشت نمائی کرنے کی ہمت نہیں۔ انہوں نے جو اجلاس بلایا، وہ ان کے دل کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے، یعنی آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن۔ کسی کو بھی ایک دوسرے کے مسلمان ہونے پر شک نہیں تھا بلکہ سب نے ایک دوسرے کے مسلمان ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس وقت کے مسلمان کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک دوسرے کے لیے کافر کیسے ہوگئے، کہیں پس پردہ کوئی سازش تو کار فرما نہیں ہے، غور کیجیے گا۔

اس مجوزہ کنونشن کے نتیجے میں مجلس عمل تشکیل پائی۔ اس کی ایک جھلک درج ذیل ہے۔ "حضرت مولانا ابوالحسنات کی قیادت میں مجلس عمل کی عظیم الشان کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں۔ ان کانفرنسوں کی خصوصیت یہ تھی کہ پاکستان میں ہر مکتبہ خیال کے علماء اور رہنماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے اور اس وجہ سے مجلس عمل کانفرنسوں میں جہاں مولانا ابوالحسنات عوام کو خطاب کرتے تھے، وہاں حضرت مولانا محمد داؤد صاحب (اہل حدیث) علامہ مفتی حافظ کفایت حسین صاحب شیعہ اور سید مظفر علی شمسی (ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان)، حضرت مولانا محمد علی صاحب جلندھری (مجلس تحفظ ختم نبوت)، حضرت صاحبزادہ پیر سید فیض الحسن شاہ سجادہ نشین آلومہار شریف، حضرت مولانا نورالحسن شاہ صاحب(تنظیم اہلسنت)، مولانا نصراللہ خان صاحب عزیز (جماعت اسلامی)، حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب (جمیعت علماء اسلام)، مولانا غلام محمد ترنم (جمیعت علمائے پاکستان)، حضرت مولانا عبدالغفور ہزاروی اور مولانا غلام دین صاحب، مولانا محمد بخش مسلم، ضیغم احرار شیخ حسام الدین صاحب، حضرت مولانا اختر علی صاحب (روزنامہ زمیندار)، حضرت غلام غوث ہزاروی (سرحد)۔ غرضیکہ ہر مکتب خیال کے جید علماء اور مسلمانوں کے مسلمہ رہنماء اسلام کے بنیادی مسئلے پر عوام کو ایک پلیٹ فارم سے خطاب کرنے لگے۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہونا چاہیئے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو پاٹ دیا اور پیار و محبت سے آقائے نامدار، احمد مختار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر کٹ مرنے کے لئے دیوانہ وار نکل آئے۔ (ص۔ 138- 139 حوالہ مذکورہ)

یہاں پر ان شیعہ شخصیات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جنہوں نے ختم نبوت کے حوالے سے خدمات انجام دیں ہیں۔
علامہ سید علی الحائری (رح) 1876 -1941
مولانا سید علی الحائری لاہور کے عظیم المرتبت عالم و مجتہد تھے۔ آپ ان ابتدائی افراد میں سے تھےو جنہوں نے قادیانیت کے خلاف جہاد کیا۔ آپ نے سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔
فتویٰ:
"صورت مرقومہ میں جس قدر عقائد بیان کئے گئے ہیں از روئے قرآن و حدیث کے وہ سب باطل اور کفر ہیں بلکہ بعض تو حد شرک تک پہنچتے ہیں، ایسی صورت میں ان عقائد کا مدعی جس طرح دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کے مرید و معتقد بھی چونکہ لازماً اس حکم میں داخل ہیں۔ لہذا ان سے بات طبوبت معاشرت کرنا اور ان کو معابد و مساجد میں آنے دینا، ان پر نماز جنازہ پڑھنا، ان سے رشتہ و ناطہ کرنا شرعاً سب ناجائز اور فعل حرام اور معصیت عظیم ہے۔ خاص طور پر ان کو لڑکی کا رشتہ دینے کی ممانعت کو نہایت ہی موکد اور اہم ہے۔ (لان المریہ تاخذ من دین بعلھا) کیونکہ عورت اپنے خاوند سے دین حاصل کرتی ہے، اس لیے کہ عورت ضعیف العقل ہونے کے سبب شوہر کے دین کو اختیار کر لیتی ہے۔ اعازنا للہ و جمیع المومنین من النفس الامارہ بالسوء والصلاہ بعد الھدی در مو العالم۔ من مبارک حویلی لاہور خادم الشریعہ المطاہرہ علی الحائری بقلمہ” (مولانا محمد اسماعیل شجاع ابادی، تحریک ختم نبوت منزل بمنزل، ج1، ملتان، 242)

مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی اپنی کتاب دستاویز صفحہ 150، 151 میں یوں تحریر کرتے ہیں۔ ”غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا رشید گنگوہی، مولانا نذیر حسین دہلوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا علی الحائری سمیت امت کے تمام طبقات کو اپنے سب و شتم کا نشانہ بنایا، کیونکہ یہی وہ حضرات تھے، جنہوں نے تحریر و تقریر و مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو چاروں شانے چت کیا اور یوں اپنے فرض کی تکمیل کرکے پوری امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرار پاتے ہیں۔” یہی وہ ابتدائی شخصیات ہیں، جنہوں نے فتنہ کو بروقت پہچانا اور سدباب بھی کیا۔ قادیانیوں نے ان کی خدمات کی وجہ سے اپنی کتب میں نام لے کر اپنا غم و غصہ نکالا۔

مولانا اللہ وسایا نے یوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ”اس جلد میں جناب حضرت مولانا علی الحائری، لاہوری، شیعہ رہنماء، عالم دین، جنہیں شیعہ حضرات حجہ الاسلام و المسلمین، صدر المفسرین، سلطان المحدثین، محی الملہ والدین، رئیس الشیعہ، مدار الشریعہ، نباض دہر، حکیم الامت الناجیہ، سرکار شریعت مدار، علامہ، قبلہ، مجتہد العصر و الزمان جیسے القابات سے موسوم کرتے ہیں۔ جس سے یہ بات تو تقریباً طے سمجھی جا سکتی ہے کہ مولانا سید علی الحائری شیعہ حضرات میں ان کا مقام و منصب یقیناً بلند تھا۔ چنانچہ ملعون قادیان مرزا قادیانی نے ”دافع البلاء” نامی کتاب لکھی، جس میں سیدنا مسیح ابن مریم علیہا السلام اور سیدنا حسین (ع) پر اپنی فضیلت ثابت کی، معاذاللہ۔ مرزا قادیانی کی اس ملعونانہ جرآت اور احمقانہ جسارت، رزیل حرکت، خبیث شرارت پر شیعہ حضرات میں سے مولانا علی الحائری نے مرزا قادیانی کے خلاف اس کی زمانہ حیات میں کتابیں تحریر فرمائیں۔ مولانا علی الحائری کی پانچ کتابیں رد قادیانیت پر فقیر کے علم میں آئیں ان میں سے:-
1۔ وسیلہ المبتلاء لدفع البلاء
2۔ تبصرہ العقلاء
3۔ مہدی موعود
4۔ مسیح موعود
5۔ غایۃ المقصود (فارسی)
چنانچہ مولانا علی الحائری کے رسائل میں اس جلد میں جمع ہو جانے پر خوشی محسوس کرتا ہوں۔” (مولانا اللہ وسایا، احتساب قادیانیت، ج 45، ص 4، ملتان)

مولانا فیض محمد مکھیالوی (1880ء- 1951ء)
آپ بمقام، مکھیال، تحصیل پنڈ دادن خان، ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ بہترین خطیب اور مناظر تھے۔ آپ کا ناروال میں مرزائی مبلغ مولوی غلام رسول سے ختم النبوت کے موضوع پر مناظرہ ہوا اور آپ نے اس کو شکست فاش دی۔
مولانا سید برکت علی شاہ، گوشہ نشین
آپ نامور مناظر گزرے ہیں، "کلید مناظرہ” اور” آئینہ مرزائیت” آپ کی فن مناظرہ پر گرفت ظاہر کرتی ہے۔ ”وزیر آباد ضلع گوجرانولہ کے جناب سید برکت علی شاہ صاحب تھے، جن کا لقب ”گوشہ نشین" تھا۔ آپ شیعہ مکتب فکر کے نامور مناظر و خطیب تھے۔ ”آئینہ مرزائیت” نامی کتاب آپ نے قادیانیت کے خلاف مرتب فرمائی۔ یہ آج سے ایک صدی قبل کی کتاب ہے۔ اس جلد میں اس کو شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوگا کہ اہل سنت کی طرح اہل تشیع بھی آنحضرت کے منکر بالفاظ دیگر آنحضرت کے بعد نبوت کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کو واضح کرنے کے لیے مصنف نے اس کتاب کے آخر میں عراق، نجف اشرف و کربلا کے مفتیان و مجتہدین کے فتویٰ کو شامل کتاب کیا ہے اور یہی ہمارا مقصد ہے۔” (مولانا اللہ وسایا، احتساب قادیانیت، ج 38، ص38، ملتان)

علامہ حافظ کفایت حسین (1898ء-1968ء)
آغا شورش کاشمیری یوں بیان کرتے ہیں۔ "اس کے حقیقی محرک سید عطاء اللہ شاہ بخاری تھے۔ آپ نے مولانا سید ابو الحسنات قادری کو ساتھ ملا کر اور مجلس عمل کی قیادت سونپ کر ایک شگفتہ زمین تیار کی۔ سید مظفر علی شمسی شیعہ نوجوانوں کے لیڈر تھے اور سن شعور سے احرار کا ذہن رکھتے تھے۔ شاہ جی نے ان کی وساطت سے مشہور شیعہ عالم حافظ کفایت حسین کو ساتھ ملا کر قادیانیت کے حصار پر وہ ضربیں لگائیں کہ وحدت اسلامی کی یلغار کا نقشہ کھینچ گیا۔” (آغا شورش کاشمیری، تحریک ختم نبوت، ص،164)۔ علامہ حافظ کفایت حسین جیسے بے شمار علمائے کرام، مشائخ عظام نے مرزائیوں کے کفر کو چوکوں چوراہوں میں ننگا کیا۔ (مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی تحریک ختم نبوت منزل بمنزل، ج 1،ص12)۔ "رد قادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اور جانفشانی سے کام لیا، ان میں حافظ کفایت حسین خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔” (مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی، تاریخی دستاویز، ص 150، ملتان)

علامہ مفتی جعفر حسین، قائد ملت جعفریہ
آپ 2 جون 1951ء کراچی میں ہونے والی آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے بانی رکن تھے۔ دعوت نامے پر آپ کے بھی دستخط تھے۔ اس کانفرنس میں تین مطالبات پیش کیے گئے تھے، جن کی تفصیل شروع میں درج کر دی ہے۔ مولانا اللہ وسایہ اپنی کتاب "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست" کے صفحہ 82(6) میں لکھتے ہیں کہ جب اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ کیا 1951ء میں شیعہ مجتہد مفتی جعفر حسین بھی ان میں شامل نہ تھے؟ تو اس نے جواب دیا، جی وہ بھی شامل تھے۔ اٹارنی جنرل نے مزید دریافت کیا کہ یہ آپ نے محضر نامہ میں لکھ دیا ہے، مگر میں عرض کرتا ہوں کہ 51ء شیعہ بھی، دیوبندی بھی، بریلوی، اہل حدیث کے علامہ سلیمان صدارت میں جمع تھے؟ تو مرزا ناصر نے کنفرم کیا کہ ”جمع تھے۔” جسٹس منیر احمد اس موضوع پر اپنی انکوائری رپورٹ میں یوں مفتی جعفر حسین مرحوم کے کردار کا اعتراف کرتے ہیں۔
The conference was presided over by Maulana Syed Salman Nadvi Under whose chairmanship a board was also constituted while was arrangements for next meeting of convention the resolution passed at this conference approved in a public meeting held in Karachi. The member of the board were the following. * Moulana Jaffar Hussain Sahib member Board of Ta’limat Islam ( report of the court of enquiry by Muneer Ahmed at page 77 and 78) دیگر اراکین کے بھی نام ہیں۔

خطیب آل محمد علامہ سید اظہر حسن زیدی
مولانا متین خالد اپنی کتاب "قادیانیت ہماری نظر میں" صفحہ 280 میں جلسہ بادشاہی مسجد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کی صدارت مولانا یوسف بنوری نے کی اور دیگر مقررین نے علاوہ مولانا اظہر حسن زیدی اور مولانا مظفر علی شمسی نے خطاب کیا۔ اس تاریخی جلسہ میں پنجاب بھر سے شمع رسالت کے پروانوں نے شرکت کی۔ اسی طرح مولانا اللہ وسایا نے اپنی کتاب ”تحریک ختم نبوت 1974ء جلد اول صفحہ۔ 837″ پر لکھتے ہیں کہ اکیسویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس 26، 27، 28 دسمبر بروز جمعرات، پبلک پارک، چنیوٹ، ضلع جھنگ سے دیگر مقررین کے علاؤہ مداح آل رسول جناب اظہر حسن زیدی نے خطاب فرمایا۔ اہل سنت عالم دین مولانا محمد عبداللہ معتصم نے اپنی کتاب ”تحریک ختم نبوت 1984ء صفحہ 59″ میں آپ کو "مجاھد ختم نبوت جناب مجتہد سید اظہر حسن زیدی” کے نام سے یاد فرمایا ہے۔

مبلغ اعظم مولانا محمد اسماعیل فاضل دیوبند
اہلسنت کے مناظر مولانا اللہ وسایا اپنی کتاب "احتساب قادیانیت جلد 38 صفحہ7 ” میں لکھتے ہیں کہ شیعہ مکتب فکر کے ممتاز مناظر مولانا محمد اسماعیل گوجروی کا قادیانیوں سے مندراں والا میں مناظرہ ہوا تھا تو قادیانی مناظر کے چھکے چھوٹ گئے۔ مولانا محمد اسماعیل نے 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں فیصل آباد مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دیں تھیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے نیشنل اسمبلی میں 1974ء میں شیعہ نمایندگی کرکے مدلل گفتگو کی۔

مرزا یوسف حسین لکھنوی
آپ مشہور عالم دین، مقرر و مناظر تھے۔ آپ نے نہج البلاغہ کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ مدرسۃ الواعظین لاہور کے پرنسپل رہے ہیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین کے انتخاب کے موقع پر آپ کا نام متبادل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ آپ کا مشہور مناظرہ، ”مناظرہ مہت پور” ضلع ہوشیار پور ہے، جس میں آپ نے مشہور قادیانی مناظر ابوالعطاء جالندھری کو شکست فاش دی۔ اس مناظرہ کی روئیداد ”تحریری مناظرہ مہت پور” کے نام سے شائع ہوئی۔ مولانا متین خالد نے اپنی کتاب ”قادیانیت ہماری نظر میں” صفحہ 183، طبع ملتان، میں آپ کا یہ فتویٰ شائع کیا ہے۔ ”قادیانی مسلمان نہیں ہیں بلکہ مرتد ہیں اور صرف شخصی یہ طور پر چند افراد مرتد نہیں ہوئے بلکہ پوری جماعت ارتداد پر متفق ہو کر ایک سازش کے ساتھ اس لیے مرتد ہوئی ہے کہ اسلام کی بیخ کنی کرے۔ ان کا کام ہی اسلام کے خلاف سازش ہے۔ یہ اسلام کے پاکیزہ عقائد، مستحکم قوانین اور مقدس اعمال کی بیخ کنی کے لئے اسلام کا نام رکھ کر اپنی سازشوں میں اس طرح مصروف رہتے ہیں کہ ناواقف انہیں مشکل سے پہچان سکتے ہیں۔ اسلام کے مقدس بدن کا ناسور ہیں، جس سے نجات حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔” آپ نے 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں قادیانیوں کے خلاف مقدمے موضوع پر مفصل بحث کی تھی۔

مولانا سید مظہر علی اظہر
آپ مجلس احرار اسلام کے بانیوں میں سے تھے۔ 1942ء تک آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے مرکزی سیکرٹری رہے۔ آپ پنجاب ہائی کورٹ کے وکیل تھے۔ پورے برصغیر میں آپ کی خطابت کا طوطی بولتا تھا۔ آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب ”تحریک ختم نبوت” صفحہ۔ 168 میں لکھتے ہیں۔ ”مجلس تحفظ ختم نبوت دراصل برصغیر کی آزادی سے پہلے مجلس احرار اسلام شعبہ تبلیغ تھا۔ اس وقت کے تمام جید علماء قادیانی فتنے کے تعاقب کی مہم میں اس کے ہمنوا تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بقول علامہ انور شاہ کشمیری نے احرار کو مشورہ دیا تھا کہ اپنی جماعت میں ایک غیر سیاسی شعبہ تبلیغ اس غرض سے قائم کریں۔ چنانچہ چوہدری فضل حق، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، مولانا مظہر علی اظہر، ماسٹر تاج الدین انصاری اور محمد حیات اس شعبہ کی مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہوئے۔”

مقدمہ مرزائیہ بہاولپور جلد اول صفحہ۔33، طبع لاہور میں لکھتے ہیں۔ ”اس سلسلے میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات آپ نے بڑی تندہی اور جانفشانی سے کام کیا، ان میں حضرت مظہر علی اظہر خصویت سے قابل ذکر ہیں۔"مولانا ‏اللہ وسایا تحریک ختم نبوت 1953ء صفحہ 472 میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کے فرزند گرامی قدر پیر طریقت ولی ابن ولی مولانا عبیداللہ انور نے مظہر علی اظہر (المعروف خیعغ رہنماء) کا اور شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی قائد اعظم کا جنازہ نے پڑھا کر امت کو بتا دیا کہ اختلاف کرو گے تو پٹ جاؤ گے، مٹ جاؤ گے، اتحاد کرو گے تو دشمن ایک دن تمہارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگا۔”

سید مظفر علی شمسی
آپ مشہور شیعہ رہنماء تھے، اپنی تمام زندگی تحریک ختم نبوت کے لیے قربان کر دی۔ شورش کاشمیری اپنی کتاب تحریک ختم نبوت کے صفحہ 164 پر لکھتے ہیں "مظفر علی سمشی شیعہ نوجوانوں کے لیڈر تھے اور سن شعور سے احرار کا ذہن رکھتے تھے۔”

مجلس عاملہ کی تشکیل
صدر حضرت مولانا ابوالحسنات احمد قادری (جمعیت علمائے پاکستان)، نائب صدر مولانا محمد طفیل صاحب (جماعت اسلامی)، ناظم اعلیٰ، مولانا داؤد غزنوی (اہل حدیث)، ناظم، سید مظفر علی شمسی (ادارہ تحفظ حقوق شیعہ) پاکستان، آپ کی تین تقاریر جو آپ نے ختم نبوت کی تحریک کے دوران کی تھیں، اسے جسٹس منیر انکوائری رپورٹ میں بطور ثبوت شامل کیا گیا ہے۔ آپ نے 5 فروری 1953ء کو بیرون باغ موچی دروازہ لاہور مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری کے زیر صدارت جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم حضور کے نام کی عظمت برقرار رکھنے کے لیے زندہ ہیں اور اس کی عظمت کی خاطر ہم مرنے کو تیار ہیں۔” آپ اس تحریک میں جیل میں بھی رہے اور آخری دم تک اس مشن سے وابستہ رہے۔ مظفر علی شمسی کا انتقال 19 جون 1976ء میں ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے بھائی محبوب علی شمسی اور بیٹے علی رضا شمسی نے اس مشن کو آگئے بڑھایا۔

سید عباس حسین گردیزی، ملتان
آپ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے بارے میں شیعہ موقف آپ نے پیش کیا۔ آپ کی قومی اسمبلی کی تقریر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے شائع کر دی ہے۔ اس کے علاؤہ 1952ء میں آپ قادیانیوں کے خلاف جاری تحریک میں احتجاجاً لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ واحد مثال پیش کی جا سکتی ہے۔

مولانا تاج الدین حیدری
علامہ حامد علی موسوی، قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، مولانا تاج الدین حیدری اور علامہ مرزا یوسف حسین لکھنوی کو نامزد کیا، وہ شریعت کورٹ میں قادیانیوں کے دائر مقدمہ میں دفاع کریں۔ آپ نے نہ صرف شیعہ موقف پیش کیا بلکہ مدلل گفتگو سے عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔

علامہ علی غضنفر کراروی
آپ علامہ ع غ کراروی کے نام سے مشہور تھے۔ آپ تحریک ختم نبوت میں مرکزی نائب صدر تھے اور آخری دم تک اس حوالے سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ نے ہر جلسہ، ہر اجلاس اور ہر کمیٹی میں شیعہ مسلک کی نمائندگی کی، جو کہ آخری بھی ثابت ہوئی۔ مولانا محمد متین خالد نے اپنی کتاب ”قادیانیت ہماری نظر میں” کے صفحہ 183 پر آپ کا یہ بیان تحریر کیا ہے۔ "قادیانیت ایک ناسور ہے۔ جب تک اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جائے گا، ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔”

ان چند مجاہدین ختم نبوت کا تذکرہ کرنے کے بعد بعض شخصیات کے روشن اسماء گرامی کا ذکر کرکے مضمون کی طوالت کو ختم کرتا ہوں۔
علامہ رضی جعفر مجتہد
علامہ نصیر الاجتہادی
علامہ یعقوب علی توسلی
خاقان بابر ایڈووکیٹ
علامہ عقیل ترابی
علامہ سید صادق علی نجفی
جب یہ مضمون لکھ رہا تھا تو مولانا وحید حیدر کاظمی کی کتاب ”تحریک ختم نبوت میں شیعان حیدر کرار کا تاریخ ساز کردار” پڑھنے کو ملی۔ میں نے مصنف سے تفصیلی ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک کلیپ سنا، جس میں ایک مولوی کہہ رہا تھا کہ تحریک ختم نبوت اور رد قادیانیت میں شیعوں کا کوئی کردار نہیں تھا، انہوں نے مجھے متوجہ کیا اور میں نے تحقیق و مطالعہ شروع کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ شیعان حیدر کرار کا کردار تحریک ختم نبوت میں کسی سے بھی کم نہیں تھا، فقط ان کے کردار کو سامنے نہیں لایا گیا۔ ابتدائی مطالعہ پر یہ کتاب مرتب کر دی ہے جبکہ مطالعہ جاری ہے اور مزید کتب سامنے آئیں گیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جو شیعہ علماء نے قادیانیوں کے رد میں اور ختم نبوت کے بارے کتب تحریر کی ہیں، ان کو جمع کیا جائے تو چالیس جلدوں پر مشتمل ذخیرہ سامنے آئے گا، جبکہ وہ مضامین جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں، انہیں جمع کرکے شائع کیا جائے تو پندرہ جلدوں سے زائد کا مواد ہے۔ وہ پرعزم ہیں کہ وہ یہ کارنامہ انجام دے کر رہیں گے۔ یہ کام ایک ادارے کا ہے، مگر ملت کے قائدین کی یہ ترجیح نہیں ہے۔ تحریک پاکستان و تحریک ختم نبوت میں شیعوں کا کردار مرکزی و بنیادی ہے، مگر اسے ہماری تجاہلِ عارفانہ اور دوسروں کے منافقانہ رویئے نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دی جائے اور یہ خلا پر کیا جائے۔ تحریک ختم نبوت میں تاسیس سے نائب صدر کا عہدہ شیعوں کے پاس تھا، جو علامہ علی غضنفر کراروی مرحوم کے بعد کسی کو نہیں ملا۔ اسے پر کرنے کے لیے تحریک ختم نبوت کے ذمہ داروں سے مطالبہ کیا جائے۔

اس مضمون کا اختتام شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے اس فرمان سے کرتے ہیں۔ ”ہم نے تو ہر جگہ اعلان کیا ہے، پریس میں بھی کہا ہے کہ جو بھی ختم نبوت کا منکر ہے، کافر ہے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ہم قادیانیوں کو نہ صرف مسلمان تسلیم نہیں کرتے بلکہ انگریزوں کی پیداوار اور انگریزوں کا جاسوس خانہ اور جاسوس کا آلہ سمجھتے ہیں، جس طرح ایران میں بہائی انگریزوں کی پیداوار تھے اور مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے کے لیے جاسوس کا آلہ تھے، آج امریکہ و اسرائیل کا جاسوسی کا آلہ ہیں۔” میثاق خون، نقیب وحدت۔ نوٹ: جن کے پاس اس موضوع کے حوالے سے جو مواد موجود ہے، وہ مہیا کرکے کار خیر میں شامل ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1118878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ، جزاک اللہ، امت کے مشترکہ عقائد کے موضوع پر شیعہ مومنین و علماء و خطباء کا کردار ناقابل تکذیب ہے۔ الحمدللہ
ہماری پیشکش