Wednesday 6 Mar 2024 21:35
تحریر: سید اسد عباس
2022ء کی بات ہے کہ عروۃ الوثقی کے ایک اعلیٰ سطحی لیکچر میں معروف نقاد، ادیب، فلسفی و صوفی مبلغ احمد جاوید صاحب نے شرکت کی۔ جامعہ کے مہتمم قبلہ جواد نقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے لوگ اگرچہ احمد جاوید صاحب سے آگاہ نہیں، لیکن علمی حلقوں میں یہ ایک معروف شخصیت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احمد جاوید صاحب اگرچہ مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں، لیکن علامہ ہیں اور یہ اسی معنیٰ میں علامہ ہیں، جس معنیٰ میں علامہ محمد اقبال علامہ تھے۔ علامہ محمد اقبال اور احمد جاوید کے مابین مشترک خصوصیت فلسفہ کو جاننا ہے، احمد جاوید صاحب کے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر لیکچرز آن لائن موجود ہیں۔ پاکستان میں بہت کم ایسے لوگ ہیں، جو فصوص الحکم کو سمجھتے ہوں، لیکن احمد جاوید فصوص الحکم کی شرح پیش کرتے ہیں۔
اگر ابن عربی کی فصوص الحکم کو جاننا اور فلسفی مکاتب کو جاننا علم ہے تو واقعی احمد جاوید صاحب ایک عالم ہیں، جن کے پائے کا دوسرا عالم پاکستان میں ناپید ہے۔ اس بات کو جامعہ العروۃ کے سربراہ نے بھی قبول کیا۔ احمد جاوید فلسفی، شارح فصوص الحکم ہونے کے علاوہ ادبی نقاد اور شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے برصغیر کے بڑے قدیم اور جدید شعراء و ادیبوں پر نقد لکھی ہیں۔ شعری دنیا میں انھوں نے بہت سی نظمیں کہیں، جن میں جہاں منقبت امیر المومنین ؑ پر مشتمل نظمیں شامل ہیں تو وہیں صحابی امیر المومنین ؑ مالک اشتر کی مذمت میں بھی شعر موجود ہیں۔ احمد جاوید صاحب گذشتہ ایک ہفتے سے اپنے یوٹیوب چینل پر شیعہ مخالف ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں کسی نے کہا ہے کہ اگر آپ اختلافی بات کریں گے تو آپ کی بات کو سنا جائے گا، جس سے آپ کی شہرت میں اضافہ ہوگا۔
ان کی گذشتہ ہفتے ریکارڈ ہونے والی ویڈیو جس کا عنوان "غزہ، شاباش ایران، خبردار پاکستان" تھا، میں انھوں نے ولایت فقیہ، شیعہ عقیدہ افضلیت امامت اور غزہ کے مسئلہ پر بات کی۔ ان کو اس ویڈیو کے بعض جوابات دیئے گئے۔ ڈاکٹر حسنین نادر اور قبلہ جواد نقوی کے چند کلمات میں نے سنے ہیں۔ ڈاکٹر حسنین نادر نے ولایت فقیہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حب الوطنی کے کرائسیس پر بات کی، جبکہ قبلہ جواد نقوی نے غزہ کے بارے ایران کی پالیسی کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا۔ میری نظر میں قبلہ احمد جاوید صاحب کو جیسا علمی جواب دیا جانا چاہیئے، نہیں دیا گیا، جس کا شکوہ احمد جاوید نے ان الفاظ میں کیا کہ دشنام دینا، ناصبی کہنا، فرقہ پرست کہنا آسان ہے، لیکن کسی بات کا علمی جواب دینا آسان نہیں ہے۔
احمد جاوید صاحب کی دوسری ویڈیو "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے" کے زیر عنوان ریکارڈ کروائی جبکہ تیسری ویڈیو فقط سید جواد کو مخاطب کرکے بنائی گئی۔ اپنی گذشتہ تحریر میں، راقم نے امامت کی افضلیت کے عقیدے کے حوالے سے دو دلائل پیش کیے، اسی طرح یہ بتایا کہ پاکستان کے شیعہ کسی بھی فرقے یا گروہ کے لیے سیاسی خطرہ نہیں ہیں بلکہ وہ عام پاکستانیوں کی مانند سیاسی بے رحمیوں کا شکار ہیں۔ اکثر شیعہ اور سنی بچوں کا بچپن ایک ہی ماحول میں گزرتا ہے اور جوانی میں یہ رشتہ کی ڈور میں بندھ کر ایک ہی گھر میں زندگی گزارتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب نے اپنی دوسری ویڈیو جس کا عنوان "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے" تھا، میں اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات اور لگنے والے الزامات کے حوالے سے گفتگو کی۔
اس ویڈیو میں انھوں نے اپنے وہ فضائل گنوائے، جو کہ اتحاد و وحدت نیز ان کے سچا مسلمان ہونے کی دلیل تھے۔ احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شیعہ شعراء کے کلام پر نقد لکھی ہے، اگر مکتب تشیع میں ایسا کوئی نقاد موجود تھا تو اس سے کہا جاتا کہ میر انیس پر تنقید لکھتے اور ان کی شاعری کا جائزہ پیش کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تقریباً سو سے زیادہ منقبتیں امیر المومنین علی ؑ کی شان میں لکھیں۔ میں شیعہ کو اپنی اصلاح کی دعوت دے رہا ہوں۔ انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران میں کچھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا، جو ان کے منصب و مقام سے میل نہیں کھاتا۔ ہم انتظامی اقدامات کریں گے، اب نہیں معلوم کہ وہ یہ بات اپنی حیثیت میں کہ رہے تھے یا کسی کی ترجمانی کر رہے تھے۔
احمد جاوید صاحب کا ماضی اور مغالطے
احمد جاوید صاحب کا تعلق امروہا سے ہے، وہ شیعہ علماء اور اساتذہ کی علمی استعداد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے اساتذہ اور دوستوں میں بہت سی شیعہ علمی شخصیات موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بہت سی شیعہ محافل میں شرکت کی ہے، جہاں تبرا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ مجھے اسی موقع پر اس عمل کو روکنا چاہیئے تھا، تاہم اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اس کے خلاف بات کروں۔ وہ اپنی گفتگو میں شیعہ، شیعوں کے عقائد، شیعوں کی محافل، ایران، نظام ولایت فقیہ، ایران حکومت کی سیاسی پالیسیاں، اتحاد و وحدت سبھی باتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک سانس میں کہتے ہیں کہ تمام شیعہ ولایت فقیہ کے قائل نہیں، اسی سانس میں کہتے ہیں کہ شیعہ ایران کا دفاع کرنا اپنے لیے اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں، جتنا شیعت کا دفاع ہے۔ ایک جانب وہ روایتی اور غیر مقلد شیعوں کو ایران اور ایرانی نظام سے جدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا ایران سے تعلق نہیں، دوسری جانب کہتے ہیں کہ نصیریت ایران پر حاوی ہوچکی ہے اور ایران ان نصیریوں اور تبرائیوں کو مدد کر رہا ہے۔ ان کی اکثر باتوں میں تضاد موجود ہے، جو ان کی سطح کے منطقی سے متوقع نہیں، تاہم مغالطے پیدا کرنا اہل فلسفہ کا کام ہے، جو احمد جاوید صاحب نے اپنی گفتگو میں بخوبی انجام دیا۔
عقائد کا اختلاف اور احمد جاوید کا زعم اکثریت
عقائد کا اختلاف ایک کلامی مسئلہ ہے، جو صدیوں سے مسلمانوں میں زیر بحث ہے۔ عقائد کے لحاظ سے اگر ہم اپنی قوم کو تقسیم کریں گے تو سنی وحدت و اکثریت بھی ایک سراب بن جائے گی۔ بریلویوں، دیو بندیوں اور اہل حدیث کے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے، پھر ان فرقوں میں عقیدتی و سیاسی اختلافات اگر سامنے رکھے جائیں تو آپ کسی بھی فرقہ کو اکثریت یا اقلیت قرار نہیں دے سکتے۔ قبلہ مجھے نہیں معلوم آپ دیوبندی مسلمان ہیں یا بریلوی، آپ کا تعلق اہل حدیث سے ہے یا فقط صوفی روایت کو مانتے ہیں۔ اگر آپ اس لباس میں خود کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حقیقی اقلیت کون ہے، حقیقی اکثریت کون۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو اٹھانا ہی فرقہ وارانہ ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں، امت رسول ہیں، پاکستانی ہیں، یہی تعارف ہمارے لیے کافی ہونا چاہیئے۔ مسلک و فقہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے، جسے ہمیں وجہ نزاع نہیں بنانا چاہیئے۔
آپ نے خاندان اجتہاد کے علمی رسالوں کا حوالہ دیا، تاہم آپ نے غور نہیں فرمایا کہ اس خاندان نے جتنے بھی علمی رسالے تحریر کیے ہیں، وہ اہل سنت علماء کے جواب میں تحریر کیے ہیں۔ دلدار نقوی غفران مآب جو خاندان اجتہاد کے موسس جانے جاتے ہیں، انہوں نے درج ذیل کتابیں اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے تحریر کیں ۔(الصوارم الالٰھیات فی قطع شبھات عابدی العزی اللات (تحفہ اثنا عشریہ کے باب پنجم کا جواب جو الٰہیات کے بارے میں ہے،(حسام الاسلام و سھام الملام (تحفہ اثنا عشریہ کے باب ششم کا جواب جو نبوت کے بارے میں ہے، (احیاء السنة بطعن الاسنہ (تحفہ اثنا عشریہ کے باب رجعت و معاد کا جواب، (رسالہ ذوالفقار (تحفہ اثناء عشریہ کے بارہویں باب کا جواب، (رسالہ غیبت) غیبت امام زمانہ کے حوالے سے طعن کا جواب۔
شیعہ علماء کا زیادہ وقت اپنے اوپر لگائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے میں ہی گزرا۔ ہمیں کب اپنی فقہ اور عقائد کو پھیلانے کی آزادی رہی۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ شیعہ اپنے عقائد پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی نہ دیں۔ احمد جاوید صاحب نے تبرا ایجی ٹیشن کا ذکر کیا، تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ یہ ایجیٹیشن مدح صحابہ ایجی ٹیشن کی رد میں منظر عام پر آئی، جب اہل تشیع نے دیکھا کہ ہمارے مذہبی جلوسوں کو میلوں میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے عقائد کو سرعام دشنام کا سامنا ہے تو وہ تبرا ایجی ٹیشن کرنے پر مجبور ہوئے۔ احمد جاوید صاحب، کیا آپ چاہتے ہیں کہ شیعہ خاموشی سے یہ سب سہتے رہتے۔ "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے"
روہیل کھنڈ اور ریاست اودھ کا قصہ
آپ نے روہیل کھنڈ اور سلطنت اودھ کی بات کی اور کہا کہ وہاں اہل سنت پر ظلم و ستم روا رکھا جاتا تھا اور کہا کہ اگر روہیل کھنڈ چاہتے تو سلطنت اودھ کو ختم کر دیتے۔ تاریخ کہتی ہے کہ 1772ء میں روہیلوں کے سردار حافظ رحمت خاں یوسفزئی نے مرہٹوں کے آئے دن کی چھیڑ خانی سے تنگ آکر شجاع الدولہ نواب اودھ کے ساتھ معاہدہ کیا کہ روہیل کھنڈ پر مرہٹوں کے حملے کی صورت میں نواب اودھ روہیلوں کی مدد کرے گا اور روہیلے اس کے عوض نواب کو چالیس لاکھ روپیہ دیں گے۔ 1773ء میں مرہٹوں نے روہیل کھنڈ پر حملہ کیا، نواب اودھ اور انگریزوں کی مشترکہ فوجوں نے روہیلوں کا ساتھ دیا اور مرہٹے پسپا ہوگئے۔
روہیلوں اور اودھ کا مسئلہ روہیلوں کی جانب سے وعدہ کردہ رقم کا مہیا کرنا نہ تھا، جس پر عہدنامہ بنارس کی روشنی میں سلطنت اودھ نے روہیلوں پر حملہ کیا اور ان کو پسپا کر دیا اور روہیل کھنڈ کو سلطنت اودھ میں شامل کر لیا گیا۔ اب نہیں معلوم قبلہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ روہیلوں کے مقابلے میں سلطنت اودھ ایک بلبلہ ثابت ہوتی۔ ہمیں سلطنت اودھ کا دفاع نہیں کرنا، وہ شیعہ تھے، لیکن ان کے سیاسی اقدامات قابل تنقید بھی ہوسکتے ہیں اور قابل مذمت بھی، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ روہیل کھنڈ کے سنی اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرتے رہے اور اگر وہ اقدام کرتے تو سلطنت اودھ کو ختم کر دیتے۔
ریاست اودھ کی علمی خدمات کے بجائے ان کے مظالم کا تذکرہ
اردو ادیب اور نقاد ہونے کی حیثیت سے نہ جانے کیوں احمد جاوید صاحب سلطنت اودھ کی علمی و ادبی خدمات کو بھول گئے اور فقط وہاں شیعہ ظلم و ستم کو ہی پیش کرنے پر اکتفاء کیا، جس کے وہ حوالے دینے سے قاصر رہے۔ نوابان اودھ کی شاعروں، ادیبوں اور علماء کی حوصلہ افزائی تاریخ کا حصہ ہے۔خان آرزو، سودا، مصحفی، جرات، انشاء اور میر تقی میر اسی دور میں لکھنو آئے اور اردو ادب کی آبیاری کی۔ مشہور شاعر حیدر علی آتش اگرچہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کے والد دہلی سے نقل مکانی کرکے اودھ آگئے تھے۔ شاہان اودھ کے زمانے میں مرثیہ نگاری نے خاص طور پر عروج پایا اور اردو زبان کے سب سے بڑے مرثیہ نگار میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر اسی دور سے تعلق رکھتے تھے۔
دینی تعلیم کے سلسلے میں یہ دور اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ ملا نظام الدین نے تعلیم کا وہ مشہور نصاب اسی زمانے میں ترتیب دیا، جو آج بھی درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکھنؤ کا محلہ "فرنگی محل" اس دور میں برصغیر کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بن گیا۔ ملا نظام الدین کا انتقال 1748ء کے بعد ہوا۔ اودھ کا قصبہ بلگرام اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں وہاں کی خاک سے کئی قابل ذکر علماء اٹھے۔ ان میں غلام علی آزاد اور سید مرتضیٰ زبیدی قابل ذکر ہیں۔ کیا احمد جاوید کے پاس ان کے ممدوحین یعنی روہیل کھنڈوں کی بھی ایسی ہی علمی خدمات موجود ہیں۔
اتحاد امت ایرانی پراجیکٹ یا عالم اسلام کی ضرورت
اتحاد امت کا ایرانی نظریہ ان کی تنقید کا خصوصی طور پر نشانہ بنا، وہ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ ایران کا آخری مورچہ ہے، جب ایران کہتا ہے کہ سنی ہمارے بھائی ہیں یا سنی ہماری جان ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جلد ہی ہمارا مکتب اختیار کر لیں گے۔ وہ مظلوموں کی مدد اس لیے کرتا ہے، تاکہ ان کو شیعہ کیا جاسکے۔ ان کی نظر میں پاکستان میں اتحاد امت کا نعرہ بھی اسی تناظر میں لگایا گیا ہے اور یہ بنیادی طور پر ایرانی حکمت عملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودیہ نے یہ نعرہ کبھی بھی نہیں لگایا، کیونکہ وہ منافق نہیں ہے۔احمد جاوید صاحب ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت سے آپ کی اس بات کی سختی سے مذمت کرتا ہوں اور اسے اتحاد امت کے لیے پرخلوص کوششیں کرنے والے علماء، قائدین اور دانشوروں کی بے لوث خدمات پر حملہ تصور کرتا ہوں۔
آپ کو اچھی طرح سے علم ہے کہ سنی و شیعہ مسلکی وحدت تو کبھی بھی نہ رہی اور ممکن بھی نہیں ہے، لیکن سماجی وحدت ایران کی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتا، اگر آپ فقط تحریک پاکستان کا بغور جائزہ لیتے تو کبھی بھی یہ بات نہ کرتے کہ شیعہ سنی اتحاد ایرانی سیاسی حکمت عملی کا شاخصانہ ہے۔ تحریک پاکستان میں پاکستان بھر سے سنی علماء، قائدین، دانشوروں اور عوام نے قائداعظم محمد علی جناح جو کہ خوجہ اثناء عشری تھے، ان کی قیادت پر اتفاق کیا اور مشترکہ ہدف کے لیے مل کر جدوجہد کی۔ 1947ء میں برصغیر کے شیعہ اور سنی مسلمان جن میں لکھنؤ، حیدر آباد کے شیعہ نواب، صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء، پیر، سیاسی قائدین سبھی شامل تھے، جنہوں نے مل کر پاکستان بنایا۔ برصغیر میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ سماجی وحدت موجود تھی اور اس کا سبب ایران ہرگز نہیں تھا۔
1965ء کی جنگ پاکستانی افواج کے شیعہ، سنی، عیسائی جرنیلوں اور فوجیوں نے مل کر لڑی، 1971ء میں پاکستان کا آئین شیعہ اور سنی آبادی نے مل کر بنایا، اس وقت تک تو ایران میں انقلاب کا نام و نشان تک نہ تھا، ایوب دور میں پیش کیے جانے والے اکتیس علماء کے بائیس نکات شیعہ و سنی علماء کی مشترکہ کاوش ہیں، جس کا ایران کی اتحاد و وحدت کی پالیسی سے دور دور کا لینا دینا نہیں ہے۔ لہذا قبلہ اپنی اصلاح فرمائیں کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد و وحدت کا نعرہ کسی ملک کی سیاسی حکمت عملی کو بڑھاوا دینے کے لیے نہیں بلکہ پاکستانی شیعہ و سنی علماء کی ذاتی خواہش اور ضرورت ہے۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا قیام
1995ء میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا قیام ایران نے ممکن نہیں بنایا بلکہ اس کے بنانے والے پاکستان کے ادارے اور پاکستان کے مخلص اور جید علماء و قائدین تھے، انہی علماء نے مل کر 2011ء میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا دوبارہ احیاء کیا۔ لہذا آپ کا کہنا کہ اتحاد و وحدت کی بات ایک ایرانی موقف یا ایرانی ایجنڈا ہے، بالکل بھی درست نہیں۔ آپ کو اپنے اس فہم سے رجوع کرنا چاہیئے اور پاکستان میں اتحاد امت کی مخلصانہ کوششوں کو مورد سوال نہیں ٹھہرانا چاہیئے۔ آپ کو یہ بات کرنے سے پہلے بخوبی اندازہ ہونا چاہیئے کہ آپ اس طرح کے اظہارات کرکے کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
شیعہ سنی اتحاد کے لیے اعلان مکہ، عمان ڈیکلیریشن کا بھی مطالعہ فرمائیں، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ عالم اسلام کی کن کن شخصیات نے اتحاد امت کے لیے کوششیں کی ہیں۔ یہ کہنا کہ سعودی اتحاد امت کی بات نہیں کرتا، کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی حکم "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو" کی خلاف ورزی ہے۔ عالم اسلام کے ہر ملک کو عالم اسلام میں سماجی وحدت کے قیام کے لیے دینی اور اسلامی جذبے کے ساتھ کوشش کرنی چاہیئے، یہ ہماری سماجی ضرورت ہی نہیں بلکہ دینی تقاضا بھی ہے۔ سعودیہ میں اعلان مکہ کا ہونا اس کی اتحاد امت کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
2022ء کی بات ہے کہ عروۃ الوثقی کے ایک اعلیٰ سطحی لیکچر میں معروف نقاد، ادیب، فلسفی و صوفی مبلغ احمد جاوید صاحب نے شرکت کی۔ جامعہ کے مہتمم قبلہ جواد نقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے لوگ اگرچہ احمد جاوید صاحب سے آگاہ نہیں، لیکن علمی حلقوں میں یہ ایک معروف شخصیت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احمد جاوید صاحب اگرچہ مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں، لیکن علامہ ہیں اور یہ اسی معنیٰ میں علامہ ہیں، جس معنیٰ میں علامہ محمد اقبال علامہ تھے۔ علامہ محمد اقبال اور احمد جاوید کے مابین مشترک خصوصیت فلسفہ کو جاننا ہے، احمد جاوید صاحب کے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر لیکچرز آن لائن موجود ہیں۔ پاکستان میں بہت کم ایسے لوگ ہیں، جو فصوص الحکم کو سمجھتے ہوں، لیکن احمد جاوید فصوص الحکم کی شرح پیش کرتے ہیں۔
اگر ابن عربی کی فصوص الحکم کو جاننا اور فلسفی مکاتب کو جاننا علم ہے تو واقعی احمد جاوید صاحب ایک عالم ہیں، جن کے پائے کا دوسرا عالم پاکستان میں ناپید ہے۔ اس بات کو جامعہ العروۃ کے سربراہ نے بھی قبول کیا۔ احمد جاوید فلسفی، شارح فصوص الحکم ہونے کے علاوہ ادبی نقاد اور شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے برصغیر کے بڑے قدیم اور جدید شعراء و ادیبوں پر نقد لکھی ہیں۔ شعری دنیا میں انھوں نے بہت سی نظمیں کہیں، جن میں جہاں منقبت امیر المومنین ؑ پر مشتمل نظمیں شامل ہیں تو وہیں صحابی امیر المومنین ؑ مالک اشتر کی مذمت میں بھی شعر موجود ہیں۔ احمد جاوید صاحب گذشتہ ایک ہفتے سے اپنے یوٹیوب چینل پر شیعہ مخالف ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں کسی نے کہا ہے کہ اگر آپ اختلافی بات کریں گے تو آپ کی بات کو سنا جائے گا، جس سے آپ کی شہرت میں اضافہ ہوگا۔
ان کی گذشتہ ہفتے ریکارڈ ہونے والی ویڈیو جس کا عنوان "غزہ، شاباش ایران، خبردار پاکستان" تھا، میں انھوں نے ولایت فقیہ، شیعہ عقیدہ افضلیت امامت اور غزہ کے مسئلہ پر بات کی۔ ان کو اس ویڈیو کے بعض جوابات دیئے گئے۔ ڈاکٹر حسنین نادر اور قبلہ جواد نقوی کے چند کلمات میں نے سنے ہیں۔ ڈاکٹر حسنین نادر نے ولایت فقیہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حب الوطنی کے کرائسیس پر بات کی، جبکہ قبلہ جواد نقوی نے غزہ کے بارے ایران کی پالیسی کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا۔ میری نظر میں قبلہ احمد جاوید صاحب کو جیسا علمی جواب دیا جانا چاہیئے، نہیں دیا گیا، جس کا شکوہ احمد جاوید نے ان الفاظ میں کیا کہ دشنام دینا، ناصبی کہنا، فرقہ پرست کہنا آسان ہے، لیکن کسی بات کا علمی جواب دینا آسان نہیں ہے۔
احمد جاوید صاحب کی دوسری ویڈیو "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے" کے زیر عنوان ریکارڈ کروائی جبکہ تیسری ویڈیو فقط سید جواد کو مخاطب کرکے بنائی گئی۔ اپنی گذشتہ تحریر میں، راقم نے امامت کی افضلیت کے عقیدے کے حوالے سے دو دلائل پیش کیے، اسی طرح یہ بتایا کہ پاکستان کے شیعہ کسی بھی فرقے یا گروہ کے لیے سیاسی خطرہ نہیں ہیں بلکہ وہ عام پاکستانیوں کی مانند سیاسی بے رحمیوں کا شکار ہیں۔ اکثر شیعہ اور سنی بچوں کا بچپن ایک ہی ماحول میں گزرتا ہے اور جوانی میں یہ رشتہ کی ڈور میں بندھ کر ایک ہی گھر میں زندگی گزارتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب نے اپنی دوسری ویڈیو جس کا عنوان "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے" تھا، میں اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات اور لگنے والے الزامات کے حوالے سے گفتگو کی۔
اس ویڈیو میں انھوں نے اپنے وہ فضائل گنوائے، جو کہ اتحاد و وحدت نیز ان کے سچا مسلمان ہونے کی دلیل تھے۔ احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شیعہ شعراء کے کلام پر نقد لکھی ہے، اگر مکتب تشیع میں ایسا کوئی نقاد موجود تھا تو اس سے کہا جاتا کہ میر انیس پر تنقید لکھتے اور ان کی شاعری کا جائزہ پیش کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تقریباً سو سے زیادہ منقبتیں امیر المومنین علی ؑ کی شان میں لکھیں۔ میں شیعہ کو اپنی اصلاح کی دعوت دے رہا ہوں۔ انھوں نے اپنی گفتگو کے دوران میں کچھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا، جو ان کے منصب و مقام سے میل نہیں کھاتا۔ ہم انتظامی اقدامات کریں گے، اب نہیں معلوم کہ وہ یہ بات اپنی حیثیت میں کہ رہے تھے یا کسی کی ترجمانی کر رہے تھے۔
احمد جاوید صاحب کا ماضی اور مغالطے
احمد جاوید صاحب کا تعلق امروہا سے ہے، وہ شیعہ علماء اور اساتذہ کی علمی استعداد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے اساتذہ اور دوستوں میں بہت سی شیعہ علمی شخصیات موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بہت سی شیعہ محافل میں شرکت کی ہے، جہاں تبرا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ مجھے اسی موقع پر اس عمل کو روکنا چاہیئے تھا، تاہم اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اس کے خلاف بات کروں۔ وہ اپنی گفتگو میں شیعہ، شیعوں کے عقائد، شیعوں کی محافل، ایران، نظام ولایت فقیہ، ایران حکومت کی سیاسی پالیسیاں، اتحاد و وحدت سبھی باتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک سانس میں کہتے ہیں کہ تمام شیعہ ولایت فقیہ کے قائل نہیں، اسی سانس میں کہتے ہیں کہ شیعہ ایران کا دفاع کرنا اپنے لیے اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں، جتنا شیعت کا دفاع ہے۔ ایک جانب وہ روایتی اور غیر مقلد شیعوں کو ایران اور ایرانی نظام سے جدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا ایران سے تعلق نہیں، دوسری جانب کہتے ہیں کہ نصیریت ایران پر حاوی ہوچکی ہے اور ایران ان نصیریوں اور تبرائیوں کو مدد کر رہا ہے۔ ان کی اکثر باتوں میں تضاد موجود ہے، جو ان کی سطح کے منطقی سے متوقع نہیں، تاہم مغالطے پیدا کرنا اہل فلسفہ کا کام ہے، جو احمد جاوید صاحب نے اپنی گفتگو میں بخوبی انجام دیا۔
عقائد کا اختلاف اور احمد جاوید کا زعم اکثریت
عقائد کا اختلاف ایک کلامی مسئلہ ہے، جو صدیوں سے مسلمانوں میں زیر بحث ہے۔ عقائد کے لحاظ سے اگر ہم اپنی قوم کو تقسیم کریں گے تو سنی وحدت و اکثریت بھی ایک سراب بن جائے گی۔ بریلویوں، دیو بندیوں اور اہل حدیث کے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے، پھر ان فرقوں میں عقیدتی و سیاسی اختلافات اگر سامنے رکھے جائیں تو آپ کسی بھی فرقہ کو اکثریت یا اقلیت قرار نہیں دے سکتے۔ قبلہ مجھے نہیں معلوم آپ دیوبندی مسلمان ہیں یا بریلوی، آپ کا تعلق اہل حدیث سے ہے یا فقط صوفی روایت کو مانتے ہیں۔ اگر آپ اس لباس میں خود کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حقیقی اقلیت کون ہے، حقیقی اکثریت کون۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو اٹھانا ہی فرقہ وارانہ ہے۔ ہم سب مسلمان ہیں، امت رسول ہیں، پاکستانی ہیں، یہی تعارف ہمارے لیے کافی ہونا چاہیئے۔ مسلک و فقہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے، جسے ہمیں وجہ نزاع نہیں بنانا چاہیئے۔
آپ نے خاندان اجتہاد کے علمی رسالوں کا حوالہ دیا، تاہم آپ نے غور نہیں فرمایا کہ اس خاندان نے جتنے بھی علمی رسالے تحریر کیے ہیں، وہ اہل سنت علماء کے جواب میں تحریر کیے ہیں۔ دلدار نقوی غفران مآب جو خاندان اجتہاد کے موسس جانے جاتے ہیں، انہوں نے درج ذیل کتابیں اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے تحریر کیں ۔(الصوارم الالٰھیات فی قطع شبھات عابدی العزی اللات (تحفہ اثنا عشریہ کے باب پنجم کا جواب جو الٰہیات کے بارے میں ہے،(حسام الاسلام و سھام الملام (تحفہ اثنا عشریہ کے باب ششم کا جواب جو نبوت کے بارے میں ہے، (احیاء السنة بطعن الاسنہ (تحفہ اثنا عشریہ کے باب رجعت و معاد کا جواب، (رسالہ ذوالفقار (تحفہ اثناء عشریہ کے بارہویں باب کا جواب، (رسالہ غیبت) غیبت امام زمانہ کے حوالے سے طعن کا جواب۔
شیعہ علماء کا زیادہ وقت اپنے اوپر لگائے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے میں ہی گزرا۔ ہمیں کب اپنی فقہ اور عقائد کو پھیلانے کی آزادی رہی۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ شیعہ اپنے عقائد پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی نہ دیں۔ احمد جاوید صاحب نے تبرا ایجی ٹیشن کا ذکر کیا، تاریخ کا طالب علم جانتا ہے کہ یہ ایجیٹیشن مدح صحابہ ایجی ٹیشن کی رد میں منظر عام پر آئی، جب اہل تشیع نے دیکھا کہ ہمارے مذہبی جلوسوں کو میلوں میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے عقائد کو سرعام دشنام کا سامنا ہے تو وہ تبرا ایجی ٹیشن کرنے پر مجبور ہوئے۔ احمد جاوید صاحب، کیا آپ چاہتے ہیں کہ شیعہ خاموشی سے یہ سب سہتے رہتے۔ "دل صاحب انصاف سے انصاف طلب ہے"
روہیل کھنڈ اور ریاست اودھ کا قصہ
آپ نے روہیل کھنڈ اور سلطنت اودھ کی بات کی اور کہا کہ وہاں اہل سنت پر ظلم و ستم روا رکھا جاتا تھا اور کہا کہ اگر روہیل کھنڈ چاہتے تو سلطنت اودھ کو ختم کر دیتے۔ تاریخ کہتی ہے کہ 1772ء میں روہیلوں کے سردار حافظ رحمت خاں یوسفزئی نے مرہٹوں کے آئے دن کی چھیڑ خانی سے تنگ آکر شجاع الدولہ نواب اودھ کے ساتھ معاہدہ کیا کہ روہیل کھنڈ پر مرہٹوں کے حملے کی صورت میں نواب اودھ روہیلوں کی مدد کرے گا اور روہیلے اس کے عوض نواب کو چالیس لاکھ روپیہ دیں گے۔ 1773ء میں مرہٹوں نے روہیل کھنڈ پر حملہ کیا، نواب اودھ اور انگریزوں کی مشترکہ فوجوں نے روہیلوں کا ساتھ دیا اور مرہٹے پسپا ہوگئے۔
روہیلوں اور اودھ کا مسئلہ روہیلوں کی جانب سے وعدہ کردہ رقم کا مہیا کرنا نہ تھا، جس پر عہدنامہ بنارس کی روشنی میں سلطنت اودھ نے روہیلوں پر حملہ کیا اور ان کو پسپا کر دیا اور روہیل کھنڈ کو سلطنت اودھ میں شامل کر لیا گیا۔ اب نہیں معلوم قبلہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ روہیلوں کے مقابلے میں سلطنت اودھ ایک بلبلہ ثابت ہوتی۔ ہمیں سلطنت اودھ کا دفاع نہیں کرنا، وہ شیعہ تھے، لیکن ان کے سیاسی اقدامات قابل تنقید بھی ہوسکتے ہیں اور قابل مذمت بھی، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ روہیل کھنڈ کے سنی اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرتے رہے اور اگر وہ اقدام کرتے تو سلطنت اودھ کو ختم کر دیتے۔
ریاست اودھ کی علمی خدمات کے بجائے ان کے مظالم کا تذکرہ
اردو ادیب اور نقاد ہونے کی حیثیت سے نہ جانے کیوں احمد جاوید صاحب سلطنت اودھ کی علمی و ادبی خدمات کو بھول گئے اور فقط وہاں شیعہ ظلم و ستم کو ہی پیش کرنے پر اکتفاء کیا، جس کے وہ حوالے دینے سے قاصر رہے۔ نوابان اودھ کی شاعروں، ادیبوں اور علماء کی حوصلہ افزائی تاریخ کا حصہ ہے۔خان آرزو، سودا، مصحفی، جرات، انشاء اور میر تقی میر اسی دور میں لکھنو آئے اور اردو ادب کی آبیاری کی۔ مشہور شاعر حیدر علی آتش اگرچہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کے والد دہلی سے نقل مکانی کرکے اودھ آگئے تھے۔ شاہان اودھ کے زمانے میں مرثیہ نگاری نے خاص طور پر عروج پایا اور اردو زبان کے سب سے بڑے مرثیہ نگار میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر اسی دور سے تعلق رکھتے تھے۔
دینی تعلیم کے سلسلے میں یہ دور اس وجہ سے قابل ذکر ہے کہ ملا نظام الدین نے تعلیم کا وہ مشہور نصاب اسی زمانے میں ترتیب دیا، جو آج بھی درس نظامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکھنؤ کا محلہ "فرنگی محل" اس دور میں برصغیر کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بن گیا۔ ملا نظام الدین کا انتقال 1748ء کے بعد ہوا۔ اودھ کا قصبہ بلگرام اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں وہاں کی خاک سے کئی قابل ذکر علماء اٹھے۔ ان میں غلام علی آزاد اور سید مرتضیٰ زبیدی قابل ذکر ہیں۔ کیا احمد جاوید کے پاس ان کے ممدوحین یعنی روہیل کھنڈوں کی بھی ایسی ہی علمی خدمات موجود ہیں۔
اتحاد امت ایرانی پراجیکٹ یا عالم اسلام کی ضرورت
اتحاد امت کا ایرانی نظریہ ان کی تنقید کا خصوصی طور پر نشانہ بنا، وہ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ ایران کا آخری مورچہ ہے، جب ایران کہتا ہے کہ سنی ہمارے بھائی ہیں یا سنی ہماری جان ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جلد ہی ہمارا مکتب اختیار کر لیں گے۔ وہ مظلوموں کی مدد اس لیے کرتا ہے، تاکہ ان کو شیعہ کیا جاسکے۔ ان کی نظر میں پاکستان میں اتحاد امت کا نعرہ بھی اسی تناظر میں لگایا گیا ہے اور یہ بنیادی طور پر ایرانی حکمت عملی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودیہ نے یہ نعرہ کبھی بھی نہیں لگایا، کیونکہ وہ منافق نہیں ہے۔احمد جاوید صاحب ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت سے آپ کی اس بات کی سختی سے مذمت کرتا ہوں اور اسے اتحاد امت کے لیے پرخلوص کوششیں کرنے والے علماء، قائدین اور دانشوروں کی بے لوث خدمات پر حملہ تصور کرتا ہوں۔
آپ کو اچھی طرح سے علم ہے کہ سنی و شیعہ مسلکی وحدت تو کبھی بھی نہ رہی اور ممکن بھی نہیں ہے، لیکن سماجی وحدت ایران کی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتا، اگر آپ فقط تحریک پاکستان کا بغور جائزہ لیتے تو کبھی بھی یہ بات نہ کرتے کہ شیعہ سنی اتحاد ایرانی سیاسی حکمت عملی کا شاخصانہ ہے۔ تحریک پاکستان میں پاکستان بھر سے سنی علماء، قائدین، دانشوروں اور عوام نے قائداعظم محمد علی جناح جو کہ خوجہ اثناء عشری تھے، ان کی قیادت پر اتفاق کیا اور مشترکہ ہدف کے لیے مل کر جدوجہد کی۔ 1947ء میں برصغیر کے شیعہ اور سنی مسلمان جن میں لکھنؤ، حیدر آباد کے شیعہ نواب، صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء، پیر، سیاسی قائدین سبھی شامل تھے، جنہوں نے مل کر پاکستان بنایا۔ برصغیر میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ سماجی وحدت موجود تھی اور اس کا سبب ایران ہرگز نہیں تھا۔
1965ء کی جنگ پاکستانی افواج کے شیعہ، سنی، عیسائی جرنیلوں اور فوجیوں نے مل کر لڑی، 1971ء میں پاکستان کا آئین شیعہ اور سنی آبادی نے مل کر بنایا، اس وقت تک تو ایران میں انقلاب کا نام و نشان تک نہ تھا، ایوب دور میں پیش کیے جانے والے اکتیس علماء کے بائیس نکات شیعہ و سنی علماء کی مشترکہ کاوش ہیں، جس کا ایران کی اتحاد و وحدت کی پالیسی سے دور دور کا لینا دینا نہیں ہے۔ لہذا قبلہ اپنی اصلاح فرمائیں کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد و وحدت کا نعرہ کسی ملک کی سیاسی حکمت عملی کو بڑھاوا دینے کے لیے نہیں بلکہ پاکستانی شیعہ و سنی علماء کی ذاتی خواہش اور ضرورت ہے۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا قیام
1995ء میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا قیام ایران نے ممکن نہیں بنایا بلکہ اس کے بنانے والے پاکستان کے ادارے اور پاکستان کے مخلص اور جید علماء و قائدین تھے، انہی علماء نے مل کر 2011ء میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا دوبارہ احیاء کیا۔ لہذا آپ کا کہنا کہ اتحاد و وحدت کی بات ایک ایرانی موقف یا ایرانی ایجنڈا ہے، بالکل بھی درست نہیں۔ آپ کو اپنے اس فہم سے رجوع کرنا چاہیئے اور پاکستان میں اتحاد امت کی مخلصانہ کوششوں کو مورد سوال نہیں ٹھہرانا چاہیئے۔ آپ کو یہ بات کرنے سے پہلے بخوبی اندازہ ہونا چاہیئے کہ آپ اس طرح کے اظہارات کرکے کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
شیعہ سنی اتحاد کے لیے اعلان مکہ، عمان ڈیکلیریشن کا بھی مطالعہ فرمائیں، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ عالم اسلام کی کن کن شخصیات نے اتحاد امت کے لیے کوششیں کی ہیں۔ یہ کہنا کہ سعودی اتحاد امت کی بات نہیں کرتا، کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی حکم "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو" کی خلاف ورزی ہے۔ عالم اسلام کے ہر ملک کو عالم اسلام میں سماجی وحدت کے قیام کے لیے دینی اور اسلامی جذبے کے ساتھ کوشش کرنی چاہیئے، یہ ہماری سماجی ضرورت ہی نہیں بلکہ دینی تقاضا بھی ہے۔ سعودیہ میں اعلان مکہ کا ہونا اس کی اتحاد امت کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1120841
آپکی تحریر نے چند سوالات کو جنم دیا، ان میں سے دو موضوعات پر معلومات میں اضافہ فرمائیں۔
اعلان مکہ کونسے سال، کونسے فریق کی موجودگی میں؟ عمان ڈیکلیریشن میں عمان کونسا اومان یا اممان؟؟ اور کس برس ہوا؟ کیا یہ دونوں اعلان و ڈیکلیریشن سعودی حکومت کی سرپرستی میں ہوئے؟ یا میزبانی میں؟ یا بحیثیت سعودی حکومت کی بجائے کوئی اور فورم.
دوسرا موضوع ملی یکجہتی کائونسل کس ادارے یا کن اداروں نے 1995ء میں بنوائی؟ اور غیر فعال بنانے، بنوانے والے کون تھے۔
سال 2011ء میں احیاء سے متعلق بھی یہی دو سوالات ہیں۔
اعلان مکہ کونسے سال، کونسے فریق کی موجودگی میں؟ عمان ڈیکلیریشن میں عمان کونسا اومان یا اممان؟؟ اور کس برس ہوا؟ کیا یہ دونوں اعلان و ڈیکلیریشن سعودی حکومت کی سرپرستی میں ہوئے؟ یا میزبانی میں؟ یا بحیثیت سعودی حکومت کی بجائے کوئی اور فورم.
دوسرا موضوع ملی یکجہتی کائونسل کس ادارے یا کن اداروں نے 1995ء میں بنوائی؟ اور غیر فعال بنانے، بنوانے والے کون تھے۔
سال 2011ء میں احیاء سے متعلق بھی یہی دو سوالات ہیں۔
کیا اسلام ٹائمز کی پالیسی بدل دی گئی ہے؟ یہ سوالات جب ایک اور مقالہ نگار سے کیے جاتے تھے، تب تو درجنوں سوالات و رکیک جملوں اور کج بحثی شروع کردی جاتی تھی. حالانکہ یہ سوالات تو بے ضرر سے ہیں اور بہت ہی با ادب محترمانہ انداز سے پوچھے گئے ہیں۔ کیا اسد عباس جواب دینا نہیں چاہتے؟؟ مکہ کانفرنس, عمان کانفرنس و اداروں سے متعلق۔
سید اسد عباس
اعلان مکہ: 19 اکتوبر 2006ء، یہ اجلاس بنیادی طور پر عراق کے شیعہ و سنی علماء کے مابین ہوا اور اس کا اہتمام اسلامی کانفرنس تنظیم نے کیا۔
اعلان عمان 4 تا 6 جولائی2005ء میں ہوا، جس کا اہتمام اردن کے شاہ نے کیا۔ اس میں شیخ الازہر، ترکی کی سپریم کونسل براے دینی امور، آیت اللہ سیستانی، مفتی اعظم مصر، شیعہ و زیدیہ کے مراجع، سلطنت عمان کے مفی العام کے فتاویٰ کو شامل کیا گیا۔
یہ دونوں اعلامیہ سید ثاقب اکبر مرحوم کی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں تفصیل سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے قیام میں ملک کے اہم اداروں کا کردار تھا، تاکہ ملک میں خونریزی کا خاتمہ ہو۔۔۔۔ خونریزی کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد کمزور پڑ گیا یا اس کی ویسی ضرورت نہ رہی، 2011ء میں اس اتحاد کا احیاء سید ثاقب اکبر اور قاضی حسین احمد مرحوم کی کاوشوں سے ہوا۔ اس مرتبہ اس کے پیچھے کوئی ملکی ادارہ نہ تھا بلکہ خود جوش کاوش تھی، جو تاحال جاری ہے۔
اعلان عمان 4 تا 6 جولائی2005ء میں ہوا، جس کا اہتمام اردن کے شاہ نے کیا۔ اس میں شیخ الازہر، ترکی کی سپریم کونسل براے دینی امور، آیت اللہ سیستانی، مفتی اعظم مصر، شیعہ و زیدیہ کے مراجع، سلطنت عمان کے مفی العام کے فتاویٰ کو شامل کیا گیا۔
یہ دونوں اعلامیہ سید ثاقب اکبر مرحوم کی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں تفصیل سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ملی یکجہتی کونسل کے قیام میں ملک کے اہم اداروں کا کردار تھا، تاکہ ملک میں خونریزی کا خاتمہ ہو۔۔۔۔ خونریزی کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد کمزور پڑ گیا یا اس کی ویسی ضرورت نہ رہی، 2011ء میں اس اتحاد کا احیاء سید ثاقب اکبر اور قاضی حسین احمد مرحوم کی کاوشوں سے ہوا۔ اس مرتبہ اس کے پیچھے کوئی ملکی ادارہ نہ تھا بلکہ خود جوش کاوش تھی، جو تاحال جاری ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ اسلام ٹائمز پر از خود کمنٹس نہیں شایع کیے جا رہے؟ اسلام ٹائمز کی پالیسی میں عدل و انصاف کا فقدان نظر آتا ہے. یعنی کہ کوئی سوتیلا کوئی لاڈلہ؟ مومنانہ مخلصانہ صادقانہ عادلانہ منصفانہ پالیسی کا فقدان واضح ہے۔ سید اسد عباس نے قائد کے فرمان پر بھٹو دے نعرے وجن گے لکھا تھا۔ اداروں نے بنوائی اور علامہ ساجد کی تحریک جعفریہ کو کالعدم کر دیا، کیوں؟ اگر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نام پر بہت مسائل تھے تو علامہ حامد علی شاہ موسوی کی تحریک نفاذ جعفریہ تو کالعدم نہ کی گئی۔ نہ ہی مخالفین کا ہدف علامہ حامد علی شاہ صاحب کی ٹی این ایف جے بنی۔ 1995ء سے کتنا وقت ضایع کیا؟ اور ایک مین اسٹریم شیعہ اسلامی جماعت کو لیبل کرکے کالعدم کرنے کے لیے ٹریپ کیا، یہ کیوں نہ لکھوں میں، اور آپ سبھی استعمال ہوئے، کیا ایسا نہیں تھا؟
اداروں نے تو تحریک انصاف بھی آپ ہی کی پسندیدہ ترین مجلس وحدت مسلمین، سمیع الحق جے یو آئی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی شیرانی کی مدد سے پیش کی تو تین تا چار برس جو اقتصادی لحاظ سے ملک ڈیفالٹ کرگیا، یہ تو پی پی پی بے نظیر و ٹوٹ پھوٹ سے پہلے کی مسلم لیگ کی پہلی حکومت کے دور یعنی 1988ء تا 1990ء و 1990ء تا 1993ء جس میں شدید اپوزیشن رہی اور اس کی روداد آن ریکارڈ موجود ہے کہ انکو باہم صف آراء کرنے میں کون کون غیر سیاسی حکام نے سیاسی و اقتصادی کرداروں کے توسط سے و چھانگا مانگا ٹائپ طریقوں سے غیر آئینی غیر پارلیمانی طریقوں سے کردار ادا کیا تھا۔
ان کی حکومتوں کے ادوار میں بھی اقتصادی بدحالی پی ٹی آئی عمران خان حکومت کی نسبت کم تھی. تو یہ اقتصادی بدحالی و ناکامی جب سبھی ایک پیج پر تھے، تب ہوگئی تو یہ ملک و قوم کے کھاتے میں کیوں اور موجودہ سیٹ اپ لانے میں بھی کردار تو انہی کا ہے، اس پر تو اب اجماع ہے۔ یہ تو 2018ء پارٹ ٹو ہی ہے تو اب ملک و قوم کی خالص مخلص مزاحمتی تحریک کو تو آپ کے پسندیدہ ترین سیٹ اپ نے ویسے ہی کچل کر رکھ دیا ہے، تو ملک اس 48 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کے نتیجے میں جس بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا کر دیا گیا ہے، اسکے مجرم کون ہیں؟
یہ ایکسپورٹ پالیسی کس کس نے بنوائی، کس کس نے بنائی اور کس کس نے عمل کیا۔ کیا اسلام ٹائمز کی ٹیم میں پی ٹی آئی، مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی کے حامی، جے یو آئی سمیع و شیرانی، جماعت اسلامی کے طرفداران اس پر عدل و انصاف پر مبنی اسباب بیان کریں گے۔؟؟
اداروں نے تو تحریک انصاف بھی آپ ہی کی پسندیدہ ترین مجلس وحدت مسلمین، سمیع الحق جے یو آئی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی شیرانی کی مدد سے پیش کی تو تین تا چار برس جو اقتصادی لحاظ سے ملک ڈیفالٹ کرگیا، یہ تو پی پی پی بے نظیر و ٹوٹ پھوٹ سے پہلے کی مسلم لیگ کی پہلی حکومت کے دور یعنی 1988ء تا 1990ء و 1990ء تا 1993ء جس میں شدید اپوزیشن رہی اور اس کی روداد آن ریکارڈ موجود ہے کہ انکو باہم صف آراء کرنے میں کون کون غیر سیاسی حکام نے سیاسی و اقتصادی کرداروں کے توسط سے و چھانگا مانگا ٹائپ طریقوں سے غیر آئینی غیر پارلیمانی طریقوں سے کردار ادا کیا تھا۔
ان کی حکومتوں کے ادوار میں بھی اقتصادی بدحالی پی ٹی آئی عمران خان حکومت کی نسبت کم تھی. تو یہ اقتصادی بدحالی و ناکامی جب سبھی ایک پیج پر تھے، تب ہوگئی تو یہ ملک و قوم کے کھاتے میں کیوں اور موجودہ سیٹ اپ لانے میں بھی کردار تو انہی کا ہے، اس پر تو اب اجماع ہے۔ یہ تو 2018ء پارٹ ٹو ہی ہے تو اب ملک و قوم کی خالص مخلص مزاحمتی تحریک کو تو آپ کے پسندیدہ ترین سیٹ اپ نے ویسے ہی کچل کر رکھ دیا ہے، تو ملک اس 48 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کے نتیجے میں جس بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا کر دیا گیا ہے، اسکے مجرم کون ہیں؟
یہ ایکسپورٹ پالیسی کس کس نے بنوائی، کس کس نے بنائی اور کس کس نے عمل کیا۔ کیا اسلام ٹائمز کی ٹیم میں پی ٹی آئی، مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی کے حامی، جے یو آئی سمیع و شیرانی، جماعت اسلامی کے طرفداران اس پر عدل و انصاف پر مبنی اسباب بیان کریں گے۔؟؟
میرے خیال میں معزز رائٹر کو ایسے آدمیوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے، جن کا مقصد ہی کچھ اور ہے اور وہ کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ رائٹر نے اپنی بات کر دی ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو علم کا ذخیرہ اور سمجھداری کا سمندر سمجھتا ہے تو اسے خود لکھنے سے کسی نے نہیں روکا، خواہ مخواہ فضول کمنٹس کے ذریعے ایک بہترین مضمون کا ستیاناس کر دینا یہ انتہائی مکارانہ اور سوچی سمجھی حرکت ہے۔
ایک ایسی اہم تحریر کتنی محنت سے تیار ہوتی ہے اور پھر ایک آدمی ایسے ہی فضول میں آکر اس پر نکتہ چینی نہیں کرتا بلکہ ایسی نکتہ چینی کا مقصد صرف مضمون کے مرکزی خیال کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ صاف اور سب کو پتہ ہے کہ رائٹر نے یہ تحریر احمد جاوید صاحب کے جواب میں لکھی ہے، جس میں مخصوص معلومات کو ایک دائرے کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ یہ کوئی انسائیکلو پیڈیا تو نہیں لکھا گیا کہ وہ کس نے کرایا اور اس کی تاریخ پیدائش کیا تھی اور وہ فلاں دن کہاں پر تھا۔۔۔ رائٹر پابند ہی نہیں کہ وہ ایسی چیزوں کا جواب دے۔
رائٹر نے جو لکھا ہے اور جس مقصد کیلئے لکھا ہے، وہ ہر باشعور کی سمجھ میں آرہا ہے۔
ایک ایسی اہم تحریر کتنی محنت سے تیار ہوتی ہے اور پھر ایک آدمی ایسے ہی فضول میں آکر اس پر نکتہ چینی نہیں کرتا بلکہ ایسی نکتہ چینی کا مقصد صرف مضمون کے مرکزی خیال کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ صاف اور سب کو پتہ ہے کہ رائٹر نے یہ تحریر احمد جاوید صاحب کے جواب میں لکھی ہے، جس میں مخصوص معلومات کو ایک دائرے کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ یہ کوئی انسائیکلو پیڈیا تو نہیں لکھا گیا کہ وہ کس نے کرایا اور اس کی تاریخ پیدائش کیا تھی اور وہ فلاں دن کہاں پر تھا۔۔۔ رائٹر پابند ہی نہیں کہ وہ ایسی چیزوں کا جواب دے۔
رائٹر نے جو لکھا ہے اور جس مقصد کیلئے لکھا ہے، وہ ہر باشعور کی سمجھ میں آرہا ہے۔
علم کا ذخیرہ سمجھتا تو پوچھتا کیوں، جسے معلوم ہے، اس سے پوچھا ہے۔ احترام سے پوچھا ہے۔ اس کی توہین نہیں کی ہے۔ مجھے اس موضوع پر لکھنے کے لیے معلومات کا واحد دستیاب ذریعہ یہی ہے، کیونکہ 1995ء تا حال جو ہوا ہے، اس کے پس پردہ عوامل بھی تھے۔
دوسرا یہ کہ قائد کے فرمان پر بھٹو دے نعرے وجن گے، کیا اس عنوان کو مکارانہ چال کسی نے لکھا تھا؟ آپ نے؟
موازنہ درست کیا ہے، غلط نہیں کیا۔
احمقانہ کمنٹ سے گریز کریں، عقل شریف سے محروم آدمی، مجھے یہاں لکھنے کا حق زحمت ملتا تھا۔ پھر بھی توہین سے بچنے کے لیے، تم.جیسے نالائقوں کو گناہ سے بچانے کے لیے لکھنا چھوڑا تھا۔ آج تم پھر شروع ہوگئے، حالانکہ بہت عام سا سوال ہے۔ رمضان ہے، شیطان بند ہے، حیف ہے، یہ حاصل ہے یعنی تم اور تم جیسے، پتہ وتہ کچھ نہیں اور کود گئے درمیان میں۔
نہ میں بحیثیت مسلم محفوظ نہ بحیثیت عام آدمی!!!
دوسرا یہ کہ قائد کے فرمان پر بھٹو دے نعرے وجن گے، کیا اس عنوان کو مکارانہ چال کسی نے لکھا تھا؟ آپ نے؟
موازنہ درست کیا ہے، غلط نہیں کیا۔
احمقانہ کمنٹ سے گریز کریں، عقل شریف سے محروم آدمی، مجھے یہاں لکھنے کا حق زحمت ملتا تھا۔ پھر بھی توہین سے بچنے کے لیے، تم.جیسے نالائقوں کو گناہ سے بچانے کے لیے لکھنا چھوڑا تھا۔ آج تم پھر شروع ہوگئے، حالانکہ بہت عام سا سوال ہے۔ رمضان ہے، شیطان بند ہے، حیف ہے، یہ حاصل ہے یعنی تم اور تم جیسے، پتہ وتہ کچھ نہیں اور کود گئے درمیان میں۔
نہ میں بحیثیت مسلم محفوظ نہ بحیثیت عام آدمی!!!
معزز رائٹر!! تو بھیا اس معزز رائٹر نے بھی تو یہی پوچھا ہے ناں کہ کوئی سگا کوئی سوتیلا، ایسا کیوں ہے؟ چلیں یہ تبدیل کرکے پوچھ لیتے ہیں کہ کوئی معزز اور کوئی غیر معزز کیوں ہے؟ اور اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے جو سوال ہے، وہ اسی سے ہے، آپ انتظامیہ ہیں کیا؟؟ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں، کس تنظیم کے ذمے دار فرد ہیں، تاکہ آپ متعلقہ سوال کا ہی جواب دے دیں۔
لیں جی حضور نے کہاں کا بغض کہاں جاکر نکالا، اندازہ کریں۔
کیا اسلام ٹائمز کی ٹیم میں پی ٹی آئی، مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی کے حامی، جے یو آئی سمیع و شیرانی، جماعت اسلامی کے طرفداران اس پر عدل و انصاف پر مبنی اسباب بیان کریں گے۔؟؟
صاف لگ رہا ہے کہ حضرت صاحب کو اسلام ٹائمز کی ٹیم اور مجلس وحدت سے کوئی خاص مسئلہ ہے۔
کیا اسلام ٹائمز کی ٹیم میں پی ٹی آئی، مجلس وحدت مسلمین کی پالیسی کے حامی، جے یو آئی سمیع و شیرانی، جماعت اسلامی کے طرفداران اس پر عدل و انصاف پر مبنی اسباب بیان کریں گے۔؟؟
صاف لگ رہا ہے کہ حضرت صاحب کو اسلام ٹائمز کی ٹیم اور مجلس وحدت سے کوئی خاص مسئلہ ہے۔
نام تو جے یو آئی سمیع شیرانی جماعت اسلامی پی ٹی آئی بھی لکھے تھے مگر آپ کو صرف اسلام ٹائمز اور مجلس وحدت ہی نظر آئے فقط دو۔ یہ بغض کہاں ہے، کس میں ہے؟ موازنہ کرلیں، درجنوں کمنٹس۔
تو ان کمنٹس پر موازنہ کر لیں کہ میرے آرٹیکلز پر کمنٹس میں کس کس نے کہاں کہاں کا بغض نکالا تھا!!!! عدل و انصاف کا سوال ہے۔
ویسے مجلس وحدت کے بلدیاتی امیدوار کو ووٹ دیا تھا، جس پر بغض کا الزام ہے اس نے، مدعی سست گواہ چست۔
تو ان کمنٹس پر موازنہ کر لیں کہ میرے آرٹیکلز پر کمنٹس میں کس کس نے کہاں کہاں کا بغض نکالا تھا!!!! عدل و انصاف کا سوال ہے۔
ویسے مجلس وحدت کے بلدیاتی امیدوار کو ووٹ دیا تھا، جس پر بغض کا الزام ہے اس نے، مدعی سست گواہ چست۔
مسٹر سید اسد عباس یہ جو عراق میں دہشت گردی میں ملوث مجرم تھے، یہ کہاں سے آئے تھے، عراق دہشت گردی کرنے۔ اردن کی حکومت نے عمان کانفرنس کی تو کیا امام علی نقی ع اور امام حسن عسکری ع کا حرم سامرہ میں محفوظ رہا؟ کیا جماعت اسلامی کے روزنامہ جسارت میں ابو مصعب زرقاوی کی حمایت میں مقالہ شایع نہ ہوا؟؟ اور او آئی سی نے مکہ کانفرنس میں سعودی حکومت کی مذمت کی؟؟ یہ خونریزی تھی یا ایک منظم شیعہ نسل کشی تھی؟ ثاقب اکبر صاحب کی جس کتاب کا حوالہ آپ پیش کر رہے ہیں، کیا اس میں میرے پیش کردہ نکات کو نوٹ کیا گیا؟ 2011ء میں بقول آپ کے قاضی حسین احمد صاحب اور ثاقب صاحب نے احیاء کا فیصلہ کیا تو قاضی صاحب تو ایم ایم اے کا بھی حصہ تھے, کیا ثاقب صاحب بھی حصہ تھے؟ نہیں تھے شاید. تو سال 2011 ء سے اس اتحاد کا پاکستانی شیعوں کو کیا فائدہ ہوا، ان ثمرات سے مطلع فرمائیں۔ موازنہ کیا جائے۔
2011ء سے پاکستانی شیعوں کو کیا فایدہ ہوا؟ کیا اس مضمون میں پاکستانی شیعوں کو ہونے والے فوائد گنوائے گئے ہیں، جو آپ یہ پوچھ رہے ہیں؟ اس مضمون کا موضوع دیکھیں، مخاطب دیکھیں، اسے لکھنے کی وجہ دیکھیں۔ کس چیز سے شیعوں کو فایدہ ہوا یا نہیں ہوا، یہ موضوع ہی الگ ہے۔ جس کا اس مضمون سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ آپ نے جتنے سوالات کئے ہیں، وہ خود بتا رہے ہیں کہ یا تو آپ کو کسی موضوع کے بارے میں متعلقہ اور غیر متعلقہ کی سمجھ ہی نہیں، یعنی آپ کو سوالات کرنے کا پتہ ہی نہیں۔
رائٹر زمین کے بارے میں لکھتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ زمین کے اوپر آسمان ہے، لہذا آسمان کے بارے میں سوالات شروع کر دیتے ہیں، جو کہ رائٹر اور زمین کے موضوع میں ہی نہیں آتے، اس لحاظ سے آپ کو سوال کرنے کی سوجھ بوجھ نہیں اور یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ علم کا سمندر ہیں اور وہ علم اندھا دھند ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اس کا علاج بھی یہ ہے کہ اپنے علم کو اپنے قلم سے نکالیں اور دوسروں کی محنت اور مضامین خراب نہ کریں، ایک تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے جو کہ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کو سمجھنی چاہیئے کہ آپ کو جو تکلیف ہوئی ہے، وہ امت مسلمہ کے اتحاد کے ذکر سے شدید ہوئی ہے۔ یہ تکلیف بتا رہی ہے کہ آپ کی کڑیاں کہیں اور ملتی ہیں۔ سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
رائٹر زمین کے بارے میں لکھتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ زمین کے اوپر آسمان ہے، لہذا آسمان کے بارے میں سوالات شروع کر دیتے ہیں، جو کہ رائٹر اور زمین کے موضوع میں ہی نہیں آتے، اس لحاظ سے آپ کو سوال کرنے کی سوجھ بوجھ نہیں اور یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ علم کا سمندر ہیں اور وہ علم اندھا دھند ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اس کا علاج بھی یہ ہے کہ اپنے علم کو اپنے قلم سے نکالیں اور دوسروں کی محنت اور مضامین خراب نہ کریں، ایک تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے جو کہ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ کو سمجھنی چاہیئے کہ آپ کو جو تکلیف ہوئی ہے، وہ امت مسلمہ کے اتحاد کے ذکر سے شدید ہوئی ہے۔ یہ تکلیف بتا رہی ہے کہ آپ کی کڑیاں کہیں اور ملتی ہیں۔ سمجھدار کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
اس آرٹیکل سے بہت پہلے سوشل میڈیا پر ایک اور فورم پر میں خود جواب دے چکا ہوں، کسی وڈیو پروگرام کے کمنٹس میں جہاں دشمنان خود بکواس کر رہے تھے وہاں۔
البتہ مجھے خود جواب دینے پڑتے تھے اسلام ٹائمز پر اور کمنٹس توہین آمیز ہوا کرتے تھے۔
میں تو براہ راست فریق سے سوال کر رہا ہوں، جو ذمے دار فرد کہتے ہیں خود کو، جبکہ میں تاریخی حقائق مستند نامور ذمے دار افراد کے بیان کردہ ان معلومات کی بنیاد پر لکھا کرتا تھا، اس پر بھی جرح کی جاتی تھی۔
موازنہ کر رہا ہوں۔
البتہ مجھے خود جواب دینے پڑتے تھے اسلام ٹائمز پر اور کمنٹس توہین آمیز ہوا کرتے تھے۔
میں تو براہ راست فریق سے سوال کر رہا ہوں، جو ذمے دار فرد کہتے ہیں خود کو، جبکہ میں تاریخی حقائق مستند نامور ذمے دار افراد کے بیان کردہ ان معلومات کی بنیاد پر لکھا کرتا تھا، اس پر بھی جرح کی جاتی تھی۔
موازنہ کر رہا ہوں۔
واہ جی واہ۔ بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ توجہ فرمائیں اور موصوف کے کومنٹس کو پڑھ کر دیکھیں، مزہ آ جائے گا۔
میں پہلے سوشل میڈیا پر بہت پہلے جواب دے چکا ہوں۔
میں اسلام ٹائمز پر پہلے اجرت لے کر لکھتا تھا۔ میں۔۔۔ میں۔۔
اب سمجھ آئی کہ آپ کو مسٹر اسد عباس اور اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے کیوں چڑ ہے۔
اجرت بڑی چیز ہے یارو، یہ بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہے۔ خصوصاً جب ایک بھائی کو علم کا سمندر اور تجزیہ و تحلیل کا بادشاہ ہونے کا وہم بھی ہو تو اس کے شر سے بچنا محال ہوتا ہے۔
میرا آپ کو مشورہ ہے کہ لوگوں کے مضامین خراب نہ کریں اور اپنے علم کو تھوڑا سا مزید بڑھائیں، تاکہ آپ بھی اچھے لکھاریوں میں شامل ہوں اور آپ کی اجرت کا مسئلہ بھی نہ بنے۔
محنت کریں، حسد نہیں۔ اس طرح کی حرکتوں سے آپ کی علمی ناپختگی مزید ظاہر ہو رہی ہے۔ منفی سرگرمیوں کو چھوڑیں اور مثبت اور تعمیری راستہ اختیار کریں۔ دوسروں سے سیکھیں کہ وہ کیسے لکھتے ہیں، کیسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اور کیسے دلائل لاتے ہیں۔ اس حوالے سے محترم اسد عباس کو ہی لیجئے۔ ان کی تحریریں بڑی جاندار ہوتی ہیں۔ موضوع بھی منفرد اختیار کرتے ہیں اور دلائل بھی حسب روش ہوتے ہیں۔ تجزیہ و تحلیل کی خداد داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
رمضان المبارک ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو مثبت راہوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔
میں پہلے سوشل میڈیا پر بہت پہلے جواب دے چکا ہوں۔
میں اسلام ٹائمز پر پہلے اجرت لے کر لکھتا تھا۔ میں۔۔۔ میں۔۔
اب سمجھ آئی کہ آپ کو مسٹر اسد عباس اور اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے کیوں چڑ ہے۔
اجرت بڑی چیز ہے یارو، یہ بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیتی ہے۔ خصوصاً جب ایک بھائی کو علم کا سمندر اور تجزیہ و تحلیل کا بادشاہ ہونے کا وہم بھی ہو تو اس کے شر سے بچنا محال ہوتا ہے۔
میرا آپ کو مشورہ ہے کہ لوگوں کے مضامین خراب نہ کریں اور اپنے علم کو تھوڑا سا مزید بڑھائیں، تاکہ آپ بھی اچھے لکھاریوں میں شامل ہوں اور آپ کی اجرت کا مسئلہ بھی نہ بنے۔
محنت کریں، حسد نہیں۔ اس طرح کی حرکتوں سے آپ کی علمی ناپختگی مزید ظاہر ہو رہی ہے۔ منفی سرگرمیوں کو چھوڑیں اور مثبت اور تعمیری راستہ اختیار کریں۔ دوسروں سے سیکھیں کہ وہ کیسے لکھتے ہیں، کیسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں اور کیسے دلائل لاتے ہیں۔ اس حوالے سے محترم اسد عباس کو ہی لیجئے۔ ان کی تحریریں بڑی جاندار ہوتی ہیں۔ موضوع بھی منفرد اختیار کرتے ہیں اور دلائل بھی حسب روش ہوتے ہیں۔ تجزیہ و تحلیل کی خداد داد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
رمضان المبارک ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو مثبت راہوں پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔
بھئی اسد عباس علم کا سمندر ہے یا نہیں، نہیں معلوم۔ مجھے اس کی اہانت منظور نہیں۔ ایک نکتہ متوجہ کرنا تھا، انکے پرانے عنوان پر۔ وہ ضمنا آگیا. اسکا یہاں سے تعلق نہیں۔ لیکن اس موضوع سے متعلق اگر وہ مزید لکھے تو اسے متوجہ کر دیا ہے کہ اس پر یہ یہ لکھا جاسکتا ہے۔ اب اگر وہ نہیں لکھنا چاہتے تو مجھے مطلع کر دیں کہ میں لکھ دوں، لیکن معلومات انکے پاس ہیں۔ جب بتائیں گے تو لکھ دوں گا۔ میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تو پوچھتا ہی کیوں۔ اس موضوع پر یہ معلومات میرے لیے بالکل نئی ہیں.
اور آخری بات, مدعی سست گواہ چست نہ بنیں. میں نے اسد عباس کی توہین نہیں کی، نہ کروں گا اور ان کے خود کے علاوہ جتنے بھی کمنٹس ہیں، کوئی بلاوجہ گناہ اپنے سر نہ لے، بیچ میں نہ کودے۔ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ خود اپنا دفاع کرسکتی ہے، میں نے متوجہ کیا ہے کہ موازنہ کر لیا جائے اور ایک ہی اصول معیار پیمانہ ہونا چاہیئے، مجھ پر طنز کر لیا جبکہ کوئی قابل اعتراض توہین آمیز نکتہ نہ تھا، تو گریز کریں۔
اور آخری بات, مدعی سست گواہ چست نہ بنیں. میں نے اسد عباس کی توہین نہیں کی، نہ کروں گا اور ان کے خود کے علاوہ جتنے بھی کمنٹس ہیں، کوئی بلاوجہ گناہ اپنے سر نہ لے، بیچ میں نہ کودے۔ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ خود اپنا دفاع کرسکتی ہے، میں نے متوجہ کیا ہے کہ موازنہ کر لیا جائے اور ایک ہی اصول معیار پیمانہ ہونا چاہیئے، مجھ پر طنز کر لیا جبکہ کوئی قابل اعتراض توہین آمیز نکتہ نہ تھا، تو گریز کریں۔
اس سے بڑی توہین کیا ہوگی، آپ نے اپنا میدان صاف کرنے کیلئے کہ مجھے لکھنے کی دعوت دی جائے، اس کی خاطر اتنے بہترین مضمون پر ٹریکٹر چلا دیا۔ بھائی یہ مضمون جن لوگوں کے جواب میں لکھا گیا تھا، آپ نے اتنے کیڑے نکالے ہیں کہ اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ یہ انہیں فارورڈ کیا جائے۔ اچھا انتقام لیا ہے آپ نے اسد عباس اور اسلام ٹائمز کی انتظامیہ سے۔
یہی اسلام ٹائمز کی میری تحریروں پر کمنٹس سے متعلق مجھ پر کیے گئے کید و مکر و ظلم پر میری اللہ سے فریاد ہے اور قرآن کا حکم ہے اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم
کونو مع الصادقین
ان اللہ لایحب الجھر بالسوء الا......
و مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین. کفی باللہ علیما, واللہ بکل شی علیم, کفی باللہ شھیدا, واللہ بکل شی شھید,
کونو مع الصادقین
ان اللہ لایحب الجھر بالسوء الا......
و مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین. کفی باللہ علیما, واللہ بکل شی علیم, کفی باللہ شھیدا, واللہ بکل شی شھید,
بات احمد جاوید سے متعلق جواب پر اعتراض تو کیا ہی نہیں گیا کہ غلط کیا ہے۔ کاسٹ بینیفٹ اینالیسس کر رہا ہوں اور دوسرا ڈاکٹر راشد عباس نقوی کے فرمودات پڑھے کہ کام فقط خدا کے لیے، اس معیار پر پرکھا، مکتب ڈاکٹر محمد علی نقوی شھید رح کے معیار پر چیک کر رہا ہوں۔ جنرل نالج کے پرچے میں اگر میرے کمنٹس سے کسی کو ایسا لگا تو مجھے بھی حق ہے کہ اپنے سے متعلق بھی یہی سوچوں.
پھر اس پر حرمت سادات کے مدعیان کو چیک کیا کہ ساجد صاحب والا ایشو اس زمرے میں تھا۔
موازنہ کرر ہا ہوں، ان سوالات سے متعلق، جو جواب مجھے اپنے آرٹیکلز سے متعلق کمنٹس پر دینے پڑتے تھے.
العمل بالنیت، انما الاعمال بالنیات.
عمران خان پی ٹی آئی حکومت سے متعلق سوال کا جواب بھی الیکشن 2018ء کے وقت دے چکا تھا، جب حکومت بن رہی تھی، تب اور وقتاً فوقتاً لکھ کر بھی، ہوا تو وہی جو میں نے لکھا تھا۔
پھر اس پر حرمت سادات کے مدعیان کو چیک کیا کہ ساجد صاحب والا ایشو اس زمرے میں تھا۔
موازنہ کرر ہا ہوں، ان سوالات سے متعلق، جو جواب مجھے اپنے آرٹیکلز سے متعلق کمنٹس پر دینے پڑتے تھے.
العمل بالنیت، انما الاعمال بالنیات.
عمران خان پی ٹی آئی حکومت سے متعلق سوال کا جواب بھی الیکشن 2018ء کے وقت دے چکا تھا، جب حکومت بن رہی تھی، تب اور وقتاً فوقتاً لکھ کر بھی، ہوا تو وہی جو میں نے لکھا تھا۔
منتخب
1 May 2024
29 Apr 2024
30 Apr 2024
29 Apr 2024
اتحاد بین المسلمین خالصتاً برصغیر کی تحریک ہے۔ یہاں بننے والی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں میں شیعہ سنی شامل ہیں۔
تحریک پاکستان اس کی زندہ مثال ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کی ایک تصویر میری کتاب مولانا مودودی داعی وحدت امت، دیکھی جا سکتی ہے۔ اتحاد و وحدت امت کے خلاف جو بات کرتے ہیں، وہ اس کے اثرات سے خوف زدہ ہیں۔