2
0
Thursday 7 Mar 2024 11:32
بسم رب الشھداء والصدیقین

"شہید ڈاکٹر کا تنظیمی مکتب"

"شہید ڈاکٹر کا تنظیمی مکتب"
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

چند برس قبل شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت و کردار پر لکھے گئے ایک آرٹیکل میں میری طرف سے "شہید ڈاکٹر کا مکتب" کی اصطلاح استعمال ہوئی۔ اسلام ٹائمز میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل پر کسی قاری یا قاریہ نے کمنٹس کے سیکشن میں یہ لکھ دیا کہ شہید ڈاکٹر کی بےشک قومی و ملی خدمات ہوں گی، لیکن وہ ایک کارکن تھے اور کارکن کا کوئی مکتب نہیں ہوتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس تنقید کو برداشت کر گیا اور کسی قسم کا جواب نہیں دیا، لیکن خداوند عالم بحق محمد و آل محمد علیہم السلام رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی عمر دراز کرے اور ان کا سایہ تا ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہم سب پر قائم و دائم رکھے، انہوں نے شہید حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد "مکتب سلیمانی" کی اصطلاح استعمال کرکے میرے لیے یہ آسانی فراہم کر دی کہ میں مکتب کی یہ اصطلاح نہ صرف شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے لیے استعمال کروں بلکہ اس مکتب کی خصوصیات و صفات کو بھی احاطہِ تحریر میں لاؤں۔

آج 7 مارچ 2024ء کا دن ہے اور میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 29ویں برسی کی مناسبت سے "شہید ڈاکٹر کا تنظیمی مکتب" کے عنوان سے کچھ معروضات اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ قارئین سے ملتمس دعا ہوں کہ خداوند عالم مجھے اس کام کو نتیجے تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سے پہلے کہ شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب کے بارے میں کچھ ضبطِ تحریر میں لاوں، مکتب کی مختصر تعریف بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اردو ڈکشنری فیروز اللغات کے مطابق، مکتب کا لفظی مطلب "لکھنے پڑھنے کی جگہ، مدرسہ، درسگاہ اور اسکول ہے اور اس کی جمع مکاتب ہے۔" لغت کے مطابق مکتب خانہ، مکتب خیال اور مکتبہ بھی اسی لفظ سے بنائے گئے ہیں۔ "مکتب" لفظ کے بارے میں مختلف علماء اور دانشوروں نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے اور اس لفظ اور اس سے مشتق الفاظ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

اہل مطالعہ کے لیے صرف ایک حوالہ دے کر آگے بڑھتے ہیں۔ مکتب اور مکتبہ فکر کے بارے میں عالم اسلام کے عظیم مفکر آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری نے بڑے منفرد انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اہل مطالعہ اس حوالے سے شہید مطہری کے افکار و نظریات سے متعلق کتب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں "مکتب" کی جو تعریف رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ کی پیش نظر ہے اور جس کی وجہ سے انہوں نے شہید حاج قاسم سلیمانی کو ایک مکتب قرار دیا ہے، اس کی روشنی میں ہم آگے بڑھتے ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی مکتب کی خصوصیات کو پہلے مرحلے میں عناوین کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اگلے مرحلے میں ان کی تفصیلات اور قرآن و سنت نیز ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی سیرت میں ان کی اہمیت اور قدر شناسی پر روشنی ڈالیں گے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شہید ڈاکٹر نقوی سے لے کر دنیا کا کوئی بھی غیر معصوم فرد یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی تمام خصوصیات اس کی ذاتی ہیں اور اس کے سامنے کوئی رول ماڈل یا مثالی تعلیمات نہیں تھیں۔ انبیاء و ائمہ علیہم السلام کی خلقت کی ایک وجہ انہیں بنی نوع انسان کے لیے آئیڈیل اور مثالی نمونہ بنانا تھا۔ انبیاء اور معصومین علیہم السلام کے معصوم ہونے کا فلسفہ بھی شاید اسی علت کی بدولت ہو۔ الہیٰ اور آسمانی تعلیمات ہی کسی انسان کو کمال انسانیت کے درجے پر فائز کرتی ہیں۔ تخلیق کائنات سے آج تک جس نے بھی کمال اور عروج کا راستہ اختیار کیا، وہ آسمانی تعلیمات پر عمل کرکے ہی سیر و سلوک کی یہ بلند و ارفع منزلیں طے کرسکا۔ جس انسان کا توحید و نبوت و امامت سے رابطہ منقطع ہوگیا، کمال کا حصول تو ایک طرف وہ خَسِر الدنیا والآخرۃ کے گہرے گڑھوں میں جا گرا۔

شہید ڈاکٹر کے مکتب کی خصوصیات بھی حقیقت میں توحیدی فکر اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے افکار و نظریات اور سیرتِ طیبہ سے حاصل شدہ ہیں، لہذا یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شہید ڈاکٹر نے قرآن و اہلبیت کی پیروی کو اپنا نصب العین قرار دیا اور ان الہیٰ تعلیمات کی روشنی میں اپنی تنظیمی اور ذاتی زندگی کو استوار کیا۔ شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب کو محمد و آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات سے ہٹ کر دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ آپ کے خطابات، انٹرویوز، دوست احباب سے گفتگو اور عملی زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے مکتب اسلام سے درس لے کر اسے تنظیمی ماحول اور تنظیمی راستے میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام خمینی علیہ الرحمۃ تنظیم اور جماعت کے تناظر میں ایک مقام پر فرماتے ہیں: "الہیٰ جماعت وہ ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلانے کی بجائے خداوند عالم کی طرف دعوت دے۔"

شہید ڈاکٹر نے امام خمینی علیہ الرحمۃ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تنظیمی زندگی کو اس اصول کے مطابق ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔جب ہم ان کے تنظیمی مکتب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں اور اس میں موجود صفات پر توجہ کرتے ہیں تو واضح محسوس ہوتا ہے کہ "شہید ڈاکٹر کا تنظیمی مکتب" ایک توحیدی، الہیٰ اور آسمانی مکتب کی تعلیمات سے آراستہ تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب کی صفات بیان کریں، شہید ڈاکٹر کا یہ جملہ ان کے تنظیمی مکتب کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ "حقیقت کی تلاش! انسان کب یہ جان سکتا ہے کہ وہ حقیقت اور سچائی کو پا چکا ہے؟ انسان کب اپنے سفر کو روک دے؟ کب اس نتیجے پر پہنچے کہ میں نے حقیقت کا ادراک کرکے اس تک رسائی حاصل کر لی ہے۔؟

کیا وہ لوگ جنہوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے پیغام تو قبول کیا، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ نہ دے سکے، لیکن وہ لوگ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ تو دیا، لیکن ان کے بعد کے سلسلے کو برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ماننا اور یہ جاننا پڑے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو پیغام کے کچھ حصے کو تو وصول کرتے ہیں، لیکن پیش قدمی کے لیے آگے نہیں بڑھتے، سلسلہ آگے نہیں بڑھاتے، کہیں آکر رک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید حقیقت یہی ہے کہ جس کی وہ تلاش میں تھے۔ بلاشک و شبہ ہر دور کے نبی و وصی نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ہدایت کے آخری ہادی کی ہدایت تک حقیقت اور سچ کی تلاش کا سلسلہ جاری رہے گا۔"

آج کے آرٹیکل کے آخر میں "شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب" کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں اور بعد کے مضامین میں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے:
1۔ ہر تنظیمی کام صرف اور صرف خوشنودی خدا کے لیے ہو۔
2۔ دینداری اور عبادی پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہو۔ (ولایت پذیری+تقویٰ)
3۔ جو دوسروں سے کہے پہلے خود اس پر عمل کرے۔ (قول و فعل میں عدم تضاد)
4۔ حق گوئی شناخت ہو۔
5۔ عشقِ شہادت سے سرشاری رہے۔
6۔ احساسِ ذمہ داری کا عنصر نمایاں ہو۔
7۔ خطرات سے کھیلنے کی عادت رہے۔
8۔ کم وسائل سے بڑے اہداف کے حصول کی کوشش۔
9۔ ملت کے لیے مردِ بحران کا کردار۔
10۔ صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ۔

11۔ کارکنوں کو مطیع و فرمانبردار اور مرید بنانے کی بجائے قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ کرنا۔
12۔ شہرت سے پرہیز اور گمنامی کو ترجیح دینا۔
13۔ ٹیم ورک۔
14۔ سادہ اور معمولی رہن سہن۔
15۔ اہل مطالعہ اور اہل تجزیہ افراد کی تیاری۔
16۔ وقت کی قدر شناسی۔
17۔ دوراندیشی اور منصوبہ بندی۔
18۔ قومی فلاحی امور پر توجہ۔
19۔ بڑے بڑے امور کو عام اور معمولی کام سمجھ کر انجام دینا اور فخرومباہات سے پرہیز۔
20۔  قران میں مذکورہ مومن کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔

21۔ خاندان سے گہرا تعلق رکھ کر دینی امور کی انجام دہی۔
22۔ جہدِ مسلسل۔
23۔ خلوص اور نرم دلی۔
24۔ عالمی سوچ۔
25۔ جفاکشی، محنت اور انقلابی انداز۔
26۔ نظم و ضبط۔
27 اصول و قوانین پر عدم سمجھوتہ۔
28۔ بروقت فیصلہ کرنا اور مصلحت و سستی سے پرہیز۔
29۔ عوامی انداز (عوام میں گھل مل کر رہنا)
30۔ نوجوان نسل پر خصوصی توجہ۔
31۔ کمال کے حصول یعنی بہتر سے بہتر ہونے کی کوشش۔
32۔ خدا پر توکل اور انا للہ و انا الیہ راجعون پر مکمل ایمان۔
عزیز قارئین! شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب کی ان خصوصیات اور دیگر خصوصیات پر ایک ایک کرکے اگلی قسطوں میں روشنی ڈالیں گے اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ذاتی اور اجتماعی زندگی سے اس کی مثالیں نیز واقعات اور یادیں بھی سپردِ قلم کریں گے ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 1120968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
آپ نے اس آرٹیکل کی مزید قسطیں لکھنے کا اسلام ٹائمز کے قارئین سےجو وعدہ کیا ہے، اسے ضرور پورا کیجئے گا۔ ہم آپکے لئے دعا گو ہیں، خدا اس عظیم کام میں آپکا حامی و ناصر ہو۔
Pakistan
جو دوسروں سے کہے پہلے خود اس پر عمل کرے۔ (قول و فعل میں عدم تضاد). لیکن فعل یہ کہ منظم ٹولے بناکر خود کو الگ الگ ظاہر کریں اور کوئی دوسرا الہیٰ امتحانات میں آگاہانہ آزادانہ کامیاب ہو جائے تو اس کی ایسی کی تیسی کرکے اتنا پیچھے کر دے کہ جان، مال، عزت، آبرو کے لالے پڑ جائیں اور پھر یہ منظم ٹولے خود فاتح اعظم بن سکیں۔ کریں یہ اپنی آزادی سے شیطانیت اور تہمت لگائیں اللہ پر اور اس مظلوم کو مطمئن کریں، یہ کہہ کہ گویا غیر انسانی غیر مرئی شیطان کی حد تک معاملہ محدود ہے۔
لعنت اللہ علی الحاسدین.
ہماری پیشکش