2
1
Thursday 7 Mar 2024 10:11

آؤ نکمے لوگو

آؤ نکمے لوگو
تحریر: سید نثار علی ترمذی

میں تیز قدم اٹھاتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا تو سامنے تشریف فرما ہوتے۔ دیکھتے ہی آواز دیتے "آؤ نکمے لوگو" میں جلدی سے سلام کرکے ہاتھ ملاتا تو گھڑی والا ہاتھ سامنے لہرا کر فرماتے کہ "وقت دیکھا ہے، میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔" میں روز کا بہانہ بیان کرکے کہتا ہے کہ ویگن دیر سے ملی، رش زیادہ تھا۔ وہ یہ بات سن کر کہتے "اب ایسی باتیں کرکے مزید وقت ضائع کرو گے، جلدی سے یہ کام نوٹ کر لیں، اس سے پہلے کہ میں بھول جاؤں۔" اب یہ دوسرا مرحلہ ہوتا، میں باوجود کوشش کے کبھی قلم نہیں تو کبھی کاغذ نہیں، کی الجھن سے گزرتا۔ وہ اس کا حل میز کی دراز سے مطلوبہ اشیاء نکال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "میں کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ایک ڈائری اور ایک قلم ہر وقت آپ کے پاس ہونا چاہیئے۔ کام کو منظم طریقے سے انجام کرنا سیکھو۔" مجھے ہمیشہ سے اپنے حافظے کا مان رہا ہے۔ میں زبانی یاد رکھنے کی کوشش کرتا،  لیکن یہ بھی حقیقت ہے اکثر بھول جاتا تھا۔

وہ بتاتے تھے کہ اسے خط لکھنا ہے۔ فلاں دن میٹنگ ہونی ہے۔ فلاں کام اس طرح ہونا چاہیئے۔ وہ کام اب تک کیوں نہیں ہوا یا اس کام کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے دیگر کام کی ہدایت دیتے۔ اسی دوران کوئی پلیٹ میں تھوڑا سا سالن یا ایک فرائی انڈا اور دو روٹیاں لا کر رکھ دیتا۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے آواز لگاتے، کوئی ہے جس نے کھانا کھانا ہے، آجائے۔ بعض کو تو آواز دے کر کھانے کی دعوت دیتے۔ میں مداخلت کرتا کہ کھانا کم ہے تو جواب میں کہتے کہ "بندہ خدا! اتنا کھانا میں کھا سکتا ہوں؟ اور چائے کے لیے بھی تو گنجائش رکھنی ہوتی ہے۔" ایسے میں ایک دو شریک طعام ہو جاتے۔ چائے کے دوران دریافت کرتے کہ کل جو کام کہے تھے، ان کی کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ میں ان کاموں کی تفصیل بتاتا تو چہرے کی مسکراہٹ شاباش کی نشانی ہوتی، جو کام انجام نہ پاسکتے، ان کی توجیح کی جاتی، اکثر پر ناراضی کا اظہار کرتے، مگر یہ سب کچھ وقتی ہوتا۔

اسی طرح ملاقاتی بھی نپٹا لیتے۔ رات کے مصروفیت کا پوچھتے۔ سٹڈی سرکل کروانا ہے یا میٹنگ ہے۔ کسی سے ملاقات کرنی ہے یا کسی کی شادی میں شرکت کرنی ہے، درس ہے یا دعائیہ پروگرام۔ انہوں نے یہاں آنا ہے یا میں نے وہاں پہنچنا ہے یا کسی اور مقام پر اکٹھا ہونا ہے، غرض یہ کہ قبل از وقت طے کرتے۔ کسی دن فرماتے، میں دس منٹ کے لیے سونے لگا ہوں، مجھے اٹھا دینا۔ دوسرے کمرے میں چلے جاتے اور سیدھے لیٹ جاتے۔ لیٹتے ہی نیند کی وادی میں چلے جاتے۔ بعض اوقات تو دل نہ چاہتا کہ انہیں اٹھایا جائے کہ ابھی لیٹے ہیں۔ کئی مرتبہ ذہن سے بھی اتر جاتا ہے، مگر آپ جب اٹھتے گھڑی دیکھتے، دیکھتے ہی کہتے کہ "لیٹ ہوگئے چلو! "بس یہ کہتے ہی جوتے پہنتے اور گاڑی کی طرف دوڑ پڑتے۔ اس سے قبل کہ محافظ پہنچیں، گاڑی سٹارٹ ہوچکی ہوتی، ایسا بھی ہوتا کہ انہیں چلتی گاڑی میں بیٹھنا پڑتا۔

اب یہ وقفہ ہوتا کہ میں تفویض شدہ کاموں کو نمٹاتا۔ ضروری ہوتا تو فون پر ہدایت دیتے۔ آٹھ بجے رات سے پھر کام شروع ہوتا۔ کبھی مجھے کلینک یا معین جگہ پہنچ کر ملنا پڑتا یا وہ تشریف لے آتے۔ جب رات کافی گزر جاتی تو گھر کی جانب روانہ ہوتے اور مجھے گھر کے قریب سٹاپ پر اتار دیتے۔ ایک دن قدرے جلدی گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میں نے کہا آج تو کافی آرام کر لیں گے۔ انہوں نے جواب دیا، کون آرام کرنے دیتا ہے۔ گھر ہوں تو فون آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض احباب بارہ ایک بجے کے بعد فون کرتے ہیں، حالانکہ میں انہیں کہہ چکا ہوں، بندہ خدا!  کوئی وقت ہے یہ فون کرنے کا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو صبح ہوئی ہے، پھر دن بھر آپ سے بات نہ ہوسکے گی۔ کوئی کینیڈا سے فون کرتا ہے، کوئی کہیں سے۔ میں اس سے قبل آپ کی اس مصروفیت سے آگاہ نہیں تھا۔

ایک دن میری اہلیہ محترمہ نے کہا کہ اس کے بازو میں درد ہو رہا ہے۔ میں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں، ڈاکٹر صاحب کو دکھا دیں گے۔ میں انہیں لے کر کلینک پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے استقبال کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ مسئلہ ہے۔ آپ نے میری اہلیہ سے بات کرتے ہوئے کہا "بھابھی کہیں نثار نے آپ کو بتا تو نہیں دیا کہ آج ہم سب دوست آپ کے گھر آرہے ہیں۔ آپ نے اچھا بہانہ بنایا کہ بازو میں درد ہے۔" آپ خود سوچیں اس فقرے کے بعد درد رہ سکتا تھا۔ اہلیہ نے شہید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ "یہ رات کو بہت دیر سے آتے ہیں۔" تو ڈاکٹر صاحب نے ہلکے سے مسکراتے کہا "بھابھی مجھے نہیں پتہ نثار کہاں ہوتے ہیں۔" پھر میری طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا "نثار تم بتاؤ کہاں ہوتے ہو؟" میں بھی جواباً مسکرا دیا۔

میرا بیٹا ارتضیٰ ابھی چھوٹا تھا۔ اسے بخار ہوگیا۔ ان دنوں جعفریہ کالونی میں رہائش تھی۔ وہاں قریب کے ڈاکٹر کو دکھایا، کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے دن اسے ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے کہا اسے تو نمونیا ہے۔ اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے تجویز کیا کہ یہ ایک ٹیکہ ہے، یہ اسے صبح شام لگنا ہے لازمی۔ ہم گھر آئے تو بچے کی پریشانیوں کے ساتھ یہ بھی سوچنا تھا کہ صبح انجیکشن لگانے والے کا بندوبست کرنا بھی تھا۔ جیسے ہی دن چڑھا میں حیران رہ گیا کہ ڈاکٹر صاحب گھر کے باہر کھڑے ہیں اور آوازیں دے رہے ہیں۔ بچے کا کیا حال ہے؟ انجیکشن لے کر آؤ، تاکہ میں اسے لگا دوں۔ شہید چھ دن متواتر  صبح شام آکر بچے کو دیکھتے، ٹیکا لگاتے رہے۔ ایک عام کارکن کا اس قدر خیال شائد ہی کوئی رکھتا ہو۔

ہر بڑی شخصیت کی ایک خوبی ہوتی ہے، اس سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے، جتنا ان کے وہ قریب ہے، اتنا اور کوئی نہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ایسی ہی شخصیت تھے۔ مجھے بھی یہی دعویٰ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مجھے ان کے ساتھ متواتر اور طویل وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اس حوالے سے چند ذاتی لمحات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شہید بہت کم شاباش کا اظہار کرتے تھے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی کو شاباش دے دیں تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے بڑھنے کا امکان کم رہتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ دو مرتبہ انہوں نے میرے کندھے کو تھپکا کر اظہار مسرت کیا۔ جب اسلامک ایمپلائیز ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تو چند ماہ میں رابطہ اس قدر بڑھا کہ 2-دیو سماج روڈ پر پندرہ محکموں کا نمائندہ اجلاس تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی، انہوں نے یہ پیش رفت دیکھ کر میٹنگ میں ہی میرے کندھے کو تھپکایا۔

اس طرح 1988ء کے الیکشن کے بعد تحریک کی صورت حال بہت ابتر ہوگئی تھی۔ 1989ء میں علامہ افتخار حسین نقوی کی صدارت میں تحریک پنجاب کا آخری اجلاس بورے والا میں ہوا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ اس وقت تحریک اگر موجود ہے تو وہ اسلامک ایمپلائیز کی صورت میں موجود ہے۔ اس کا تذکرہ پروفیسر خادم حسین لغاری مرحوم نے اپنی سوانح حیات "سفر زندگی کا" میں بھی کیا۔ اس موقع پر میں نے محسوس کیا کہ شہید نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور شاباش دی۔ ایک دن کہنے لگے"دیکھو لوگ کیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔" میں نے پوچھا کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا  "مجھے لوگوں نے مخاطب کرکے کہا کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ ہر کمیٹی میں نثار ترمذی کو کیوں شامل کر دیتے ہیں۔"

میں نے پوچھا کہ آپ نے پھر اس کا کیا جواب دیا۔ انہوں نے بتایا میں نے کہا کہ"تم میں سے کون ہے کہ جس نے پورے پنجاب میں تنظیم کھڑی کی ہو۔ یہ کارنامہ کیا کم ہے، اس لیے میں اسے ہر کمیٹی میں شامل کرتا ہوں۔ وہ کام کرتا ہے، تم لوگ باتیں۔" یہ ان کی زبان سے اپنی تعریف سن کر میرا جو حال ہوا، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ منہ پر تعریف ہر کوئی کرسکتا ہے، مگر کسی کی غیر موجودگی میں کی جانے والی تعریف کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
ثاقب بھائی پڑھنے لکھنے کا کام کرتے تھے۔ شہید کیونکہ عملی آدمی تھے، انگریزی میں خوب لکھ لیتے تھے۔ اردو میں بہت ہی کم۔ ثاقب بھائی علم دین حاصل کرنے قم چلے گئے۔ بعد میں ثاقب بھائی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا میرے آنے کے بعد آپ کو مشکل تو ہوگی۔ آپ نے فرمایا "نثار ترمذی نے کافی حد تک اپ کی کمی کو پورا کیا ہوا ہے۔" یہ بات ثاقب بھائی نے مجھے شہید کی شہادت کے بعد بتائی۔

سفیر انقلاب اور سفیر نور کے تحریر کنندہ برادر تسلیم رضا خان راوی ہیں کہ چند دوستوں نے شہید سے ملی مسائل پر گفتگو کی۔ شہید نے تجویز کیا کہ  نشست رکھی جائے، اس میں اور احباب کو دعوت دی جائے، تاکہ ملی معاملات پر کھل کر بات کی جاسکے۔ میٹنگ طے ہوگئی۔ شہید نے فرمایا کہ "میں اپنی اور نثار ترمذی کی ضمانت لیتا ہوں کہ ہم دونوں اس میٹنگ میں آجائیں گے۔" برادر تسنیم رضا خان کہتے ہیں کہ میں نے شہید سے کہا میری ضمانت بھی  دے دیں۔ ڈاکٹر شہید نے کہا "نہیں میں فقط نثار ترمذی کی ضمانت دے سکتا ہوں۔" یہ بات برادر تسلیم رضا خان نے آپ کی شہادت کے بعد اور سفیر انقلاب کتاب مرتب کرتے ہوئے، معلومات لیتے ہوئے بتائی۔

میرے چھوٹے بھائی سید محمد علی ترمذی مرحوم ایک مرتبہ قم المقدس، ایران سے آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ بیٹے کی ختنہ کروانی ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر چلے جانا۔ ایسا ہی ہؤا۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب ایران گئے تو واپسی پر میں نے بھائی کے بارے میں پوچھا تو ہنستے ہوئے بتانے لگے کہ میں ملا تھا۔ وہاں دوست بتانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب یہ بچہ یہاں بہت مشہور ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیوں مشہور ہے۔؟ مجھے بتایا کہ یہ اس لیے مشہور ہے کہ اس کی ختنہ ڈاکٹر صاحب نے کی ہیں۔ اس بات کا لطف ابھی تک محسوس کرتا ہوں۔ غیر ارادی طور پر ذاتی سی باتیں لکھی ہیں، جس پر معذرت۔

 ایک مرتبہ فرصت کے لمحات تھے۔ میں نے شہید سے دریافت کیا آپ نے اتنی طویل جدوجہد کی ہے، اتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آپ نے محسوس کیا کہ کوئی کمی رہ گئی ہے یا نہیں۔ آپ نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ تنظیمی  زندگی سے ایک نقصان ہوا ہے کہ میرا کوئی ذاتی دوست نہیں ہے۔ سب تنظیمی دوست ہیں، ان سے تنظیمی گفتگو ہوسکتی ہے۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ کسی دوست کے پاس جا کر گپ شپ کروں۔ کچھ دیر اس کے ساتھ وقت گزاروں۔ یہ ایک کمی رہ گئی ہے۔ ہر انسان شہید کی جذبات کا احساس کرسکتا ہے، یہ ایسی قربانی ہے، جس کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔

میں انتہائی وثوق کے ساتھ یہ اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ شہید کے افکار، شہید کی شخصیت اور کارناموں پر مکمل سوانح عمری کی ضرورت ہے۔ موجودہ کتاب قطعاً ان کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ ان کی خاطرات کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے سب دوستوں سے انٹرویوز اور معلومات حاصل کرنی چاہیںن، وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آثار بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔اب جب میں کسی تنظیم کے دفتر میں جاتا ہوں تو احساس رہتا ہے کہ شاید کسی طرف سے وہ دلکش پیاری سی آواز سنائی دے "آؤ نکمے لوگو۔"
خبر کا کوڈ : 1120987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید قمر عباس
Seychelles
بہت اچھا لکھا ہے، ماشاء اللّٰہ۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی اپنے ساتھیوں سے محبت اور ان کے ساتھیوں کی ان کے لیے عقیدت و احترام مثالی تھی۔
Brazil
خوشبختی ان لوگوں کیلئے ہے۔۔۔۔۔۔
ہماری پیشکش