1
0
Thursday 7 Mar 2024 09:35

غزہ میں قحط، امریکہ ذمہ دار

غزہ میں قحط، امریکہ ذمہ دار
تحریر: سید رضا میر طاہر
 
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے خوراک نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں انسانی امداد کے قافلوں پر ان کا راستہ جانتے ہوئے جان بوجھ کر بمباری کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک کے امور کے خصوصی نمائندے "مائیکل فخری" کے مطابق، یہ حکومت نہیں چاہتی کہ غزہ کے ضرورت مندوں تک کوئی امداد پہنچے اور ایسا کرکے وہ فلسطینیوں کے خلاف کھلم کھلا اور جان بوجھ کر قحط پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو نظر انداز کرنے اور غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ رویئے کے بارے میں اقوام متحدہ کے اس اہلکار کی تنقید اور واضح انتباہ، خاص طور پر امدادی قافلوں پر جان بوجھ کر حملے، نے ایک بار پھر غزہ کی جنگ اور غزہ کے مظلوم عوام کی انتہائی تباہ کن صورتحال کو سب پر عیاں کر دیا ہے۔

غزہ پر اسرائیل کے حملوں کو امریکہ کی ہری جھنڈی
امریکہ نے اسرائیل کے سب سے اہم حامی اور اتحادی کے طور پر اس جارحیت کے دوران تل ابیب کو وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ہتھیاروں کی مدد فراہم کی ہے، جس کی وجہ سے  گذشتہ چند مہینوں میں اسرائیل نے کھلم کھلا یہاں کے باشندوں کی نسل کشی کی ہے۔ غزہ کے محاصرے کے علاوہ غزہ کے عوام پر فضائی، زمینی اور سمندری حملے بھی جاری ہیں، جو غزہ کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہے۔ اہل غزہ کے خلاف غیر انسانی روش کا ایک پہلو غزہ کے لوگوں کو جان بوجھ کر بھوکہ مارنا ہے۔ اس سے پہلے غزہ کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی بھوک اور قحط کے دہانے پر تھی اور اب یہ صورتحال بہت زیادہ خراب ہوچکی ہے اور بہت سے بچے بھوک کی وجہ سے مر چکے ہیں۔

اس سلسلے میں، آکسفیم، جو غربت کے خلاف لڑنے والی ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم ہے، اس نے کہا ہے کہ امدادی قافلوں کو نشانہ بنانا اسرائیلی فوج کے رویئے کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، جس سے غزہ میں غذائی تحفظ کے بحران میں اضافہ ہوا ہے، آکسفیم کے ترجمان نے غزہ کے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امدادی فورسز پر صہیونی فوجوں کے حملوں نے صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے اور فوری طور پر قحط کے خطرے کو روکنے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔ ان کے بقول وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کی تباہ کن صورت حال کے باوجود نہ صرف صیہونی حکومت غزہ کے عوام پر مزید دباؤ ڈالنے پر اصرار کرتی ہے، جس میں بمباری میں شدت اور اس علاقے کے مظلوم لوگوں کا قتل عام بھی شامل ہے، بلکہ امریکہ بھی تل ابیب کی جانب سے واضح تنقید کے باوجود غزہ پٹی کے عوام پر مزید دباؤ ڈالنے کے لئے فوجی اور ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ کے حوالے سے اپنی دوہری پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ "اسرائیل کو غزہ جنگ میں مزید وقت درکار ہے۔" وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک جان کربی نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ "ہم اسرائیل کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اسرائیل اپنے دفاع کے قابل ہے اور یرغمالیوں کے بارے میں کسی معاہدے تک پہنچا جاسکے۔" دریں اثناء، سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 52 فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا بند کرے۔ CEPR کی طرف سے کرائے گئے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ بائیڈن اسرائیل کو ہتھیار بھیجنا فوری طور پر بند کر دیں۔

غزہ جنگ کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کے طرز عمل پر امریکی سیاست دانوں میں بھی تنقید بڑھ گئی ہے اور اس ملک کے سینیٹرز کی جانب سے تل ابیب کے ساتھ واشنگٹن کے تعاون پر تنقیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈیموکریٹک سینیٹر الزبتھ وارن نے تل ابیب کے بارے میں بائیڈن کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا ہے کہ  "کانگریس میں بائیڈن کے اتحادی ہونے کے ناطے، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو کا طرز عمل واشنگٹن کے مفاد میں نہیں ہے۔" وارن نے نیتن یاہو کے بارے میں بائیڈن کی پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ ایک اور ڈیموکریٹک سینیٹر کرس کونز نے بھی اپنی تقریر میں اعلان کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ غزہ جنگ کے انداز کے حوالے سے نیتن یاہو کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک صیہونی حکومت امریکہ کی طرف سے سیاسی اور فوجی امداد جاری رہنے کے بارے میں پراعتماد ہے، وہ نہ صرف غزہ کی جنگ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل نہیں کرے گی بلکہ اس کے جرائم کی شدت میں بھی تبدیلی نہیں آئے گی، جن میں بھوک کا استعمال بھی شامل ہے۔ امریکہ کی اس حمایت کی وجہ سے غزہ کے مظلوم عوام کی نسل کشی اور قتل عام کے ساتھ ساتھ امدادی قافلوں پر جان بوجھ کر حملے جاری رہیں گے۔ ان حملوں کا مقصد غزہ کے لوگوں تک انسانی امداد کو پہنچنے سے روکنا ہے۔

ایسے اقدامات جو جنگی جرائم کی واضح مثالیں ہوں تو ایسے مجرموں کے خلاف مجاز بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ جنوبی افریقہ کی طرف سے صیہونی حکومت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں شکایت نیز 1948ء کے جنیوا کنونشن کے مطابق فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے عالمی عدالت کی طرف سے درخواست قبول کر لینے کے بعد اس بین الاقوامی قانونی ادارے کو غاصب اسرائیل کے خلاف جلد از جلد فیصلہ جاری کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1121039
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Noor Syed
Pakistan
اللهم العن بايدن و نتنياهو وقواتهم وحلفائهم.
أولئك الذين يضطهدون البشر المسؤولين عن تدمير العالم بأكمله.
وبسببهم ستكون هناك حرب عالمية ثالثة ستدمر فيها البشرية.
اے اللہ لعنت فرما، بائیڈن پر، نتن یاہو پر، اُن کی افواج پر اور اُن کے ہمنواؤں پر۔
جو انسانوں پر ظلم کر رہے ہیں، جو کہ تمام دنیا کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ ہوگی۔ جس میں انسانیت تباہ ہوگی۔
O Allah, curse Biden, Netanyahu, their forces _and their allies.
Those who are oppressing humans who are responsible for destroying the entire world.
_And because of them, there will be a third world war, in which humanity will be destroyed.
ہماری پیشکش