0
Saturday 17 Mar 2012 20:42

قدس کی پکار۔۔۔مارچ ٹو یروشلم (۱)

قدس کی پکار۔۔۔مارچ ٹو یروشلم (۱)
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

قدس ہمیں اپنی آنکھوں میں موجود دلفریب مسکراہٹ سے پکار رہا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ دنیا بھر کے آزاد انسانوں کی جانب بڑھا دیئے ہیں اور ہمارے قلوب کو اخلاص سے پر کر دیا ہے۔ اے قدس! دنیا بھر سے حریت پسند انسان تیری جانب بڑھ رہے ہیں اور تیری آنکھوں کی حسین مسکراہٹ نے انہیں نتائج سے بے پرواہ کر دیا ہے۔ اے قدس! ہم تیری سرحدوں پر جمع ہو رہے ہیں۔ اے قدس! وہ لوگ جنہوں نے تیری توہین کی کبھی بھی امن سے نہ رہیں۔ تیری جانب عظیم سفر کے ذریعے تمام ادیان نے ہم کو متحد کر دیا، تیرے حسن نے ہمیں آزاد عزم اور ایمان کے ساتھ تیری سرحدوں پر جمع ہونے پر مجبور کر دیا۔ اے سنہری ریت والی سرزمین، ہم تیری قید اور تکلیفوں کو نہیں بھولے۔ تیری محبت کتنے ہی دلوں میں بستی ہے جو سینکڑوں میل کا سفر کر کے تیری جانب آئے ہیں تاکہ تجھ سے قریب ہو سکیں اور ان کو اس امر کے محال ہونے کی کوئی پروا نہیں۔ یہ خلاصہ ہے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے رسمی ترانے کا جو گلوبل مارچ کی سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔


قارئین کرام! بالآخر فلسطینی شہداء کی قربانیاں رنگ لائیں اور دنیا کا ہر باضمیر انسان تاریخ کے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ مارچ ٹو یروشلم کا یہ عالمی کاروان اپنے تنوع کے اعتبار سے تو عظیم ہے ہی اپنے مقاصد کے اعتبار سے نسل انسانی کے اس عظیم ترین اجتماع نے ایک مرتبہ پھر انسان کی نیک طینتی پر ایمان کو پختہ کر دیا۔
اسماعیل حانیہ اس مارچ کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ہم وہ صبح دیکھنے جا رہے ہیں کہ جب دنیا کے آزاد انسان فلسطینی پرچم تھامے اردن، مصر، لبنان، تیونس ،طرابلس میں نمودار ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قدس ایک مرتبہ پھر اس امت کی ترجیج بننے جا رہا ہے، ہماری قیادت، دانشور اور سیاسی جماعتیں القدس کی جانب متوجہ ہیں اور یہ سب حالیہ عرب انقلابات کا ثمرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جامع الازھر نے ایک طویل خاموشی کے بعد القدس کی جانب ملین مارچ کی تائید کی ہے۔"


گلوبل مارچ ٹو یروشلم، بنیادی طور پر فلسطین کے 36 ویں یوم الارض کی مناسبت سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ فلسطین کا یوم الارض 30 مارچ 1976ء کے اس واقع کی یاد تازہ کرتا ہے جس میں اسرائیلی افواج نے پرامن مظاہرین پر حملہ کر کے 6 افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس واقع میں 96 فلسطینی زخمی ہوئے اور 300 فلسطینیوں کو قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی، چاہے غزہ کے باسی ہوں یا مغربی کنارے کے رہائشی، لبنان کے مہاجر ہوں یا شام میں بسنے والے، ہر سال آزادی کے شہداء کی یاد کو تازہ کرنے اور فلسطینی سرزمین سے اپنے تعلق کو واضح کرنے نیز تاریخ انسانیت کی اس عظیم راہزنی سے پردہ اٹھانے کے لیے یروشلم اور القدس کی سرحدوں پر جمع ہوتے ہیں اور اسرائیلی جارح افواج کے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ 

ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل نے سیاست، عسکری طاقت، پیسے اور سفارت کاری کے ذریعے ہمیشہ اس آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ فلسطین پر صیہونی قبضہ، صیہونی ریاست کا قیام اور مقامی آبادی کی بے دخلی کو مختلف حیلوں بہانوں سے دبایا جاتا رہا۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر قائم ہونے والی اس ریاست سے کسی بھی قسم کے قانون یا ضابطے کی پاسداری کی توقع رکھنا روز اول سے انسانوں کی خطا تھی، تاہم اس کے باوجود کئی لوگ اس جرم میں بالواسطہ اور بلاواسطہ شریک ہونے لگے۔ 
صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے سے لے کر اس ریاست کی عسکری اور مالی امداد تک کے جرائم سے دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے ہاتھ رنگے۔ انسانی اقدار اور اخلاقی قوانین کو پس پشت رکھتے ہوئے وقتی مفادات کے تحت اس راہزن اور قاتل حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیے جانے لگے۔ فلسطینیوں کا خون، زمین، عزت و آبرو اور مستقبل ان صیہونی بھیڑیوں کے لیے مباح کر دیا گیا۔ دنیا جانتے بوجھتے ہوئے اس عظیم واقع سے اندھی بنی رہی اور انسانیت کی تذلیل کا یہ تماشہ لبنان، اردن اور فلسطین میں ہر روز صابرہ، شتیلہ اور غزہ کی صورت میں دہرایا جاتا رہا۔

وہ ریاستیں جو کسی بھی شکل میں اس صیہونی ریاست یا اس جیسی ظالم حکومتوں کے گناہوں میں ملوث رہیں یا ہیں، کے لیے گلوبل مارچ ٹو یروشلم اس امر کا عندیہ ہے کہ جھوٹ اور ظلم اخلاق انسانی میں کبھی بھی مقام پیدا نہیں کر سکتا۔ ظلم یا جھوٹ جب انسانیت پر آشکار ہو گا تو اس کے لیے نفرت کے سوا کسی ردعمل کی توقع رکھنا تاریخ انسانیت اور الہی سلسلہ ہدایت سے بے بہرہ ہونے یا بے ضمیری کی علامت ہے۔ 

گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا تصور گزشتہ سال پیش کیا گیا، اس نظریے کو دنیا بھر میں اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ آج یہ نظریہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی متعدد اقوام اور مذاہب کے لوگ اس کاروان میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ یہ خبر جس تک بھی پہنچتی ہے وہ اگر یروشلم نہیں بھی جا سکتا تو کم از کم اس تحریک کا حامی ضرور نظر آتا ہے۔

گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی رسمی سائٹ پر اس مارچ کے اہداف کو یوں بیان کیا گیا ہے:
” اس مارچ اور اس سے متعلق سرگرمیوں کا مقصد یروشلم (شہر امن) کے مقاصد کو اجاگر کرنا ہے۔ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ دنیا کو باور کرا سکیں کہ نسل پرست صہیونی ریاست کے یروشلم اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدامات اور پالیسیاں فلسطینیوں ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی جرم ہیں۔ یہ مارچ فلسطینیوں، عربوں، مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دنیا کے تمام باضمیر انسانوں کی کوششوں کو مجتمع کرے گا، تاکہ اسرائیل کی جانب سے یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں پر قبضے کے ذریعے عالمی قوانین کی پامالی کو ختم کیا جا سکے۔ ہم اس مارچ کے ذریعے مزاحمت کو ایک نیا رخ دینا چاہتے ہیں جس میں دنیا بھر سے لاکھوں مظاہرین فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں گے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔“

گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شامل پانچ براعظموں کے افراد پر مشتمل ایک مرکزی عالمی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے ممبران کی کل تعداد 35 ہے۔ اس مرکزی کمیٹی کے تحت مختلف ممالک میں سب کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جو اس مارچ کے لیے شب و روز کام کر رہی ہیں۔ اس مارچ کے کچھ قافلے چند روز قبل پاکستانی سرحدوں سے گزر کر ایران میں داخل ہو چکے ہیں جو ایران سے ہوتے ہوئے اردن اور پھر اپنی آخری منزل یروشلم یا قریب ترین مقام تک پہنچیں گے۔ ایشیا کے قافلے میں 15 ممالک جن میں پاکستان، ہندوستان، ایران، بحرین، ملائشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، تاجکستان، ازبکستان، ترکی، سعودی عرب، جاپان اور آسٹریلیا قابل ذکر ہیں، سے انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی و مذہبی گروہ اہم سماجی، سیاسی اور مذہبی شخصیات اس کاروان میں شریک ہیں۔ اسی قسم کے قافلے دیگر چار براعظموں سے یروشلم کی جانب رواں دواں ہیں۔

گلوبل مارچ ٹو یروشلم نے یروشلم کے گرد جمع ہونے اور دعا کرنے کے علاوہ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ”یوم الارض“ کے موقع پر وہ لوگ جو اس مارچ میں شامل نہیں ہو رہے اپنے اپنے ممالک میں اسرائیلی سفارت خانوں کے گرد یا شہر کے اہم مقامات پر مظاہرے کریں، تاکہ صیہونی حکومت اور اس کے ہمنواﺅں تک اپنا پیغام پہنچایا جا سکے۔ اس مارچ کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی کے علاوہ دیگر مغربی ممالک میں بھی خاصی پذیرائی ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپی ممالک سے ایک بہت بڑا قافلہ اردن کی جانب روانہ ہونے والا ہے، برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے 31 مارچ کو اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
 
صیہونی حکومت اس مارچ کی تیاریوں سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس مارچ کے خلاف باقاعدہ طور پر ایک محاذ قائم کیا جا چکا ہے۔ جس میں سائبر وار سب سے اہم ہے۔ مارچ ٹو یروشلم کے نام سے کئی ایک ویب سائٹس بنائی گئی ہیں جن میں اس مارچ کے پس پردہ عناصر کو مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے تناظر میں مغرب کے بھولے لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق ایران اس مارچ کے پیچھے ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایران میں قائم اہلبیت انسٹیٹیوٹ کے تین ڈومین اس مارچ کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ ایرانی ٹی وی چینل پریس ٹی وی اس مارچ کے لیے پراپیگنڈہ مشین کا کام کر رہا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
خبر کا کوڈ : 146346
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش