0
Wednesday 25 Apr 2012 00:26

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، محافظ ولایت

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، محافظ ولایت
 تحریر: سید رضا نقوی

عصرِ حاضر میں عورت کی آزادی نے وہ بھیانک صورتیں اختیار کر لی ہیں جس کے تصور سے انسانیت لرزہ براندام ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ عورت شوہر کے گھر کی ملکہ اور زینت سمجھی جاتی تھی اور آج وہ شمعِ محفل ہے۔ پردہ کو خیرباد کہہ دینے اور حیا کو رخصت کرنے کے جو بدنتائج ہمیں نظر آتے ہیں اس سے نسوانی آزادی کے حامی بھی نفرت کرتے جا رہے ہیں، لیکن اب یہ بڑھتا ہوا سیلاب رک نہیں سکتا۔

مذہب نے عورت کی کیا حیثیت قرار دی تھی، محافظان دین و ملت نے نسوانی حقوق کا معیار مقرر کرنے میں کس قدر عدل پروری سے کام لیا تھا، تدبیر منزل کی کیا صورتیں تجویز کی تھیں، اولاد کی نشو و نما میں ماں کو کیا مخصوص درجہ دیا تھا اور گھر میں رکھ کر عورت کے کیا مشاغل قرار دیئے تھے، ان تمام موضوعات پر اگر قلم فرسائی کی جائے تو مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ اس موضوع پر ہمارے اہلِ قلم نے جو جہاد قلم کیا ہے، وہ خود پسند طبقہ کے انتباہ کے لئے کافی ہے۔

آج کی اس جدید ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ دنیا کے حامل انسان نے اپنی آسائش، سکون اور ترقی وبہبود کی تو ہزاروں اشیاء تیارکر ڈالیں، جدیدیت اور نت نئے بازاروں میں سجے ہر طرح مال و اموال نے لوگوں کی آنکھیں چندھیا دیں، علمی موشگافیاں، اختراع و ایجادات کے کاروبار نے زندگی کو تیز تو کر دیا، مگر جوں جوں مدارج ارتقاء طے ہوتے گئے، ترقی ہوتی چلی گئی، انسانی اقدار کو قدموں تلے روند دیا گیا اور اخلاقیات کا فقدان ہوتا چلا گیا، فساد اور شر انگیزیوں نے انسان کا ذہنی سکون چھین لیا، رواداری، محبت، خلوص، ایثار و قربانی کے جذبوں کے ناپید ہو جانے کی و جہ سے انسان، انسان تو رہ گیا ہے، مگر انسانیت ختم ہوگئی ہے۔ تعلیم تو عام ہو گئی مگر تربیت کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔
 
انسانوں میں بے چینی، بے قدری اور دل کا سکون اور عدل و انصاف جیسی چیزوں کا نہ ملنا، اسی تربیت کے فقدان کا معاملہ ہے، اگر وجہ تلاش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک انسان کی تربیت نہ ہو تو وہ دنیاوی ترقی تو کر جاتا ہے، مگر روح کے اعتبار سے حیوان بن جاتا ہے۔ غور یہ کرنا ہے کہ ایک مکمل انسان، ایک اعلٰی شخصیت اور ایک اخلاقی پیکر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کہاں سے کام شروع کیا جائے۔ دنیا بھر کے محققین، دانشور و فلاسفر اس بات پر متفق ہیں کہ:

’’ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے‘‘
شخصیت، اخلاق، تعمیر ذات اور اعلٰی اقدار کی بنیاد ماں کی گود ہی سے شروع ہوتی ہے۔ پس لازم ہے کہ اس اولین درسگاہ کی پہچان کروانے کیلئے ہمیں کسی ایسے نمونہ سے متوسل ہونا پڑے گا، جو دوسروں کیلئے مکمل ہو۔
تاریخ اسلام یوں تو بے شمار خواتین کے اعلٰی تربیتی نمونوں سے پر ہے، مگر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی جو شہزادی بانوان، نمونہ دو جہان، عطائے خداوند سبحان، تفسیر سورہ کوثر قرآن اور ہمسر امیر مومنان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں، جن کا در آل کساء کا محور، جو عزیز قلب پیامبر، شفیعہ روز محشر اور ولیة اللہ اطہر ہیں۔

فاطمہ الزہرا جن کا گھر منزل’’ہل اتیٰ‘‘ جن کے بابا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جن کے شوہر علی مرتضٰی علیہ السلام ، جن کے فرزند حضرت امام حسن مجتبٰی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سید الشہدا ہیں، جن کی بیٹیاں ام کلثوم و زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا ہیں، جن کے ہاتھ بوسہ گاہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جن کی اعلٰی ترین مدحت ’’ام ابیھا‘‘ ہے۔ 

زندگانی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کا ہر پہلو ایک اسلامی خاتون کے کردار کا مکمل نمونہ ہے، اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی زندگی کے ادوار پر نگاہ ڈالی جائے، تو زندگی مبارک کا وہ حصہ جو انہوں نے اپنے والد کے گھر گزارا، ایک فرماں بردار، خدمت گزار، محبت کرنے والی بیٹی کا نمونہ ہے، جو چھوٹی سی عمر میں اپنے بابا کو مخالفتوں میں گھرا دیکھتی ہے، ننھا سا ذہن اپنے والد کی پریشانیوں دور کرنے کا سوچتا رہتا ہے، جو سختیاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھائیں، ان کا اثر دلِ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بے قرار کرتا رہا۔
 
شعب ابی طالب کی مشکلات ہوں یا ہجرت کے ایام کی سختیاں، خاندان والوں کی مخالفتیں ہوں یا بت پرستوں کی سازشیں ہر مشکل میں دختر پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بابا کے زخموں پر مرہم رکھا ہے۔ اتنی خدمت کی کہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی شان میں ’’ام ابیھا‘‘ کا لقب فرما دیا یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ مقصد یہ ہے کہ اپنے باپ کی اس طرح سے خدمت کی، دیکھ بھال کی، انہیں عزیز رکھا کہ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو رکھتی ہے۔

مولائے مشکل کشاء علی مرتضٰی علیہ السلام کی زوجیت میں آنے کے بعد فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے کاندھوں پر نبوت کی ذمہ داریوں کے بعد ولایت کی حفاظت کی ذمہ داریاں بھی آگئیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد دختر رسول پر مصائب و آلام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا، علی علیہ السلام کی ولایت سے نالاں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام حدوں کو پار کر کے وہ وہ کارہائے بد انجام دیئے کہ جسکی نظیر نہیں ملتی، لیکن سلام ہو اس فاطمہ سلام اللہ علیہا پر کہ جنہوں نے ایسی نازک صورتحال میں دین خدا کی بقا کیلئے ولایت کا تحفظ کیا اور اپنے بیٹے حضرت محسن علیہ السلام کی قربانی بھی دی۔ چاہے معاملہ علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے پر آگ لگانے کا ہو یا علی علیہ السلام کے گلے میں رسی باندھنے کا۔۔۔۔دختر رسول نے ہر قدم پر ولایت علی علیہ السلام کی حفاظت کی۔

مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کون حکومت اسلامی کو سنبھالے گا، مسئلہ دین اسلام کی بقا کا تھا اور دین اسلام کی بقا ولایت میں مضمر تھی، وہ تمام منافقین اسلام جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آباء و اجداد کا بدلہ لینے کیلئے اور اسلام کی سرکوبی کیلئے مناسب موقع کی تلاش میں تھے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اپنی سازشوں پر عمل کرنے کیلئے متحرک ہو گئے تھے۔۔۔۔۔ دین اسلام خطروں میں گھر چکا تھا اور ایسے میں خاندان رسالت و ولایت نے ہی اسلام کی نصرت کیلئے قیام کیا۔

ہاں یہ وہی فاطمہ ہیں جنہیں رسول کھڑے ہو کر سلام کیا کرتے تھے، وہی فاطمہ جو عصمت و طہارت کا پیکر ہیں، وہ فاطمہ جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماں کہا گیا، وہ فاطمہ جس نے اپنے والد گرامی کے بعد دین خدا کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ اپنے شوہر اور ولی کیساتھ ملکر کیا۔۔۔۔۔ ہاں وہ فاطمہ جس نے اپنے بچوں کو بھی دین خدا کی بقا و سربلندی کیلئے چکیاں پیس پیس کر پروان چڑھایا۔۔۔۔۔ وہ فاطمہ جس سے محبت، جس کے شوہر سے محبت، جس کے بچوں سے محبت اجر رسالت قرار پایا:

سورہ شوریٰ کی 23ویں آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے
اے میرے رسول آپ امت سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر سے سوال کیا گیا ،جن لوگوں سے محبت و مودت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ کون لوگ ہیں؟
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند مراد ہیں۔

علاوہ ازیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان ’’انا و علی ابوھا ھٰذہ الامة‘‘ کی روشنی میں اگر علی امت کے باپ ہیں تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا امت کی ماں ہوئیں اور اسلام میں ماں کا حق اولاد پر بنسبت باپ کے زیادہ ہوتا ہے اور یہ حق اس وقت بدرجۂ اولٰی بڑھ جاتا ہے جب ماں! شہزادی کونین جیسی باعظمت بی بی ہو کہ جس کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ماں کہا ہو، اسکی ولادت کے موقع پر اظہار مسرت اور شہادت پر اظہار غم کرنا ہمارا اسلامی و ایمانی فریضہ ہے۔ اب اگر وہی بی بی اسے دیئے گئے دکھوں پر مرثیہ پڑھتی ہوئی نظر آئے اور اپنے اور اپنے باپ کے مصائب پر غمزدہ دکھلائی دے، وہ بی بی جسکی تکلیف خدا و رسول کی تکلیف ہو کہ جس نے ظالم کے ظلم و ستم سہنے کی وجہ سے صرف 18 برس کی عمر ہی میں شہادت پائی ہو اور شکم میں اپنے بچے کی شہادت کا صدمہ لیکر دنیا سے رخصت ہوئی ہو۔
 
کیوں نہ! ہم سب ملکر اس مظلومہ و معصومہ ماں کی شہادت کے موقع پر زیادہ سے زیادہ سوگ منانے کا حق ادا کرنے کی سعی کریں کہ جسکا شکستہ پہلو دیکھ کر علی علیہ السلام جیسا صابر و شاکر شوہر دھاڑیں مار کر رویا ہو اور جس کی جدائی پر حسن و حسین علیہ السلام جیسے بیٹے بے قرار ہو کر روئے ہوں اور زینب و ام کلثوم سلام اللہ علیہا جیسی بیٹیاں پچھاڑے کھا رہی ہوں! اس بی بی کی شہادت کا جتنا بھی غم منایا جائے کم ہے اور مثل فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا ولایت کی حفاظت کیلئے کمر بستہ ہوں، کیونکہ یہ سنت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 156307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش