0
Wednesday 11 Jul 2012 23:22

اور گھر میں آنا گیلانی کا

اور گھر میں آنا گیلانی کا
تحریر: سید محمد ثقلین 

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی چار سال اور کچھ مہینے اقتدار میں رہنے کے بعد جب پہلی بار ملتان لوٹے تو عاشق مزاج بن کے لوٹے، سابق وزیراعظم کے ملتان آنے سے گذشتہ چند مہینوں سے دبی سرائیکی صوبے کی تحریک کو ایک بار پھر پنپنے کا موقع ملا، اس موقع پر یوسف رضا گیلانی نے بغیر کوئی موقعہ گنوائے اپنے آپ کو جنوبی پنجاب کی سیاست کا گرو بناتے ہوئے سرائیکی صوبے کی تحریک کا اعلان کر دیا۔
 
سید یوسف رضا گیلانی کو ملتان پہنچنے پر جو محبت و پیار سرائیکی دھرتی کے عوام نے دیا ہے وہ اس کے حقدار تھے، گیلانی بحیثیت وزیراعظم سرائیکی دھرتی کا مقدمہ خوب لڑے، اقتدار کی خاطر سودے بازی کرکے پنجاب میں نئے صوبوں کے معاملے پر دیگر سرائیکی لیڈرشپ (مصطفٰے کھر، فاروق لغاری، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین) کی طرح خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کیا، بلکہ دو ٹوک الفاظ میں پیغام دیا کہ سرائیکی دھرتی کے عوام تخت لاہور کی حکمرانی کیخلاف بغاوت کرچکے ہیں، یوں ان کو پنجاب کے حکمران جذباتی تقریروں اور حبیب جالب کی شاعری پر ایکٹنگ کرکے دھوکہ میں نہیں رکھ سکتے۔
 
گیلانی کی کامیاب سیاسی حکمت عملی ہی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ جو پنجاب کی تقسیم کے سوال پر آگ بگولہ ہو جاتی تھی، وہی آخرکار پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی قراردادیں خود لیکر آئی، جس میں وفاق سے درخواست کی گئی کہ پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے فوری طور پر آئینی کارروائی مکمل کی جائے، ایک دوست نے پنجاب اسمبلی سے شہباز شریف حکومت کی موجودگی میں ان قراردادوں کی منظوری پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ تخت لاہور کی لیڈرشپ نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ وہ اس قابل نہیں رہے کہ موجود پنجاب کے نظام حکومت کو چلا سکیں، اس لیے انہوں نے اپنے بدترین سیاسی مخالفین گیلانی اور زرداری سے مدد مانگ لی ہے۔
 
سرائیکی دھرتی کی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدان مختلف ادوار میں صدر مملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراتوں یا پھر وزرات اعلٰی اور گورنر شپ کیلئے تو سرائیکی صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن عملی طور پر ان تحریکوں کو منظم کرنے کیلئے گیلانی کی طرح اعلٰی منصب پر فائز ہونے کے بعد کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا، بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جس طرح دوسرے وزراء اعظم اپنی مدت ختم کرنے کے بعد آرام کرتے ہیں، شاید اب گیلانی صاحب بھی اپنی گدی کو سنبھالیں گے، لیکن اِنہوں نے تو کچھ اور کر دکھایا۔
 
یوسف رضا گیلانی پر قدرت کچھ اس طرح مہربان ہوئی کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق مرکزی رہنماء اور پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے چھوٹے بھائی مخدوم مرید قریشی گیلانی کا استقبال کرنے خانیوال اسٹیشن پر پہنچ گئے اور نہ صرف استقبال کیا بلکہ گیلانی کی موجودگی میں پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کا بھی اعلان کیا۔ 

اُسی دن راقم کام کے سلسلے میں ملتان سے باہر گیا ہوا تھا، جب ملتان پہنچا تو دیکھا کہ خانیوال روڈ کو پولیس نے گھیر رکھا ہے، جب میں نے ڈیوٹی پر موجود پولیس کے اعلٰی افسر سے اس بابت پوچھا تو پتہ چلا یوسف رضا گیلانی ملتان تشریف لا رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے جیالے استقبال کرنے کے لیے ملتان سے پندرہ کلو میٹر دور ڈیرے لگا کے بیٹھے تھے، سابق وزیراعظم نے بھی لانگ مارچ کے شرکاء کی طرح ایک گھنٹے کا سفر آٹھ گھنٹوں میں طے کیا، رات گئے تک جلسہ گاہ پہنچے۔ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ کافی دنوں کے بعد مجو سائیں (احمد مجتبٰی گیلانی، ممبر پنجاب اسمبلی) کی بھی شکل دیکھنے کو ملی، اس موقع پر دونوں صاحبزادے (عبدالقادر گیلانی اور علی موسیٰ گیلانی) بھی باپ کے ساتھ تھے۔
 
میرا خیال تھا کہ وزیراعظم ملتانی عوام سے اُردو میں خطاب کرینگے، لیکن اُنہوں نے سرائیکی میں خطاب کرکے سرائیکستان کے نام پر سیاست چمکانے والوں کی نیندیں اُڑا دیں، گیلانی نے بار بار کہا کہ۔۔ میکوں سرائیکستان دی خاطر آواز اُٹھاونڑ دی سزا ملی ہے تے جیہڑی میں ہس کے قبول کر گھدی اے۔۔ 

سید یوسف رضاگیلانی وزیراعظم ہاوس پہنچے تو سیاسی مبصروں کا خیال تھا کہ موصوف کی جانب سے بھی سرائیکی دھرتی کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو ان کے قریبی ضلع ڈیرہ غازی خان کے بلوچ سردار فاروق لغاری نے بحیثیت صدر رکھا تھا، یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ فاروق لغاری کو صدر مملکت کا منصب پیپلزپارٹی کی بدولت ملنے پر سرائیکی وسیب کے عوام کی ان سے توقعات بہت بڑھ گئیں تھیں، وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان کی محرومیوں اور خاص طور پر تخت لاہور کے حکمرانوں کے سرائیکی وسیب کے وسائل پر ڈاکہ مارنے کی واردات پر آواز بلند کرینگے، ساتھ بے نظیر بھٹو کی حکومت کی موجودگی کے دوران اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ڈیر ہ غازی خان، ملتان اور بہاولپور ڈویژن اور ان کے ساتھ ملحقہ اضلاع کی پسماندگی دور کرنے کیلئے میگا پراجیکٹس شروع ہوں اور بدحالی کا شکار عوام کو ریلیف مل سکے۔
 
سرائیکی وسیب کے عوام کو مایوس کن صورتحال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب فاروق لغاری پیپلزپارٹی حکومت کیخلاف کام کرنیوالی سازشی قوتوں کے ساتھ ملکر بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے منصوبہ میں شریک ہوگئے، موصوف نے اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا کہ یہ وہی پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو ہیں جن کی بدولت وہ ایوان صدر پہنچے تھے، سرائیکی صوبہ، منصوبہ جات اور تخت لاہور کے ساتھ وسائل پر دوٹوک انداز میں بات بھی اس وقت گول ہوگئی، جب فاروق لغاری نے بحیثیت صدر غلام اسحاق کی طرح اٹھاون ٹو بی کی تلوار کے ساتھ پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کو کرپشن اور دیگر الزامات کے ساتھ گھر بھیج دیا۔
 
سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جتنا نقصان پیپلزپارٹی کو فاروق لغاری نے لمحوں میں بحیثیت صدر پہنچایا، اتنا تو بدترین سیاسی مخالف سالوں میں بھی نہیں پہنچا سکے تھے، یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی کو دوبارہ وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر تک پہنچنے کیلئے نواز شریف کے بعد جنرل مشرف کی دس سالوں پر محیط آمریت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اس دوران آصف علی زردار ی کو گیارہ سال اور سید یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا تو بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی میں جانا پڑا۔ 

فاروق لغاری کے پیپلزپارٹی کیخلاف سازشی کردار کا نقصان سرائیکی وسیب کے عوام کے ساتھ وہاں کی سیاسی لیڈر شپ کو بھی ہوا، کیونکہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ لغاری کی سازش کے بعد اس حد تک خوف زدہ ہوگئی تھی کہ وہ سرائیکی خطے کی لیڈرشپ کو اہم منصب دینے سے کترانے لگی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب پیپلزپارٹی 2008ء کے الیکشن میں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تو آصف علی زرداری گیلانی کو فوری طور پر وزیراعظم نامزد کرنے پر تیار نہیں تھے۔
 
واقفان حال بتاتے ہیں کہ زرداری سید یوسف رضا گیلانی کی مشکل وقت میں پارٹی کیلئے قربانیوں کی قدر کرتے تھے، لیکن وہ ڈرتے تھے کہ کہیں گیلانی کو وزیراعظم ہائوس پہنچنے پر لغاری کی سیاسی روح نہ گھیر لے، آخر کار زرداری نے لغاری کی پیپلزپارٹی کے ساتھ واردات کہانی کو تلخ یادوں سے نکال کر سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنوا دیا۔
 
سید یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم ہائوس پہنچتے ہی پیپلزپارٹی کے اندورنی حلقوں کو اسلام آباد کے سازشی اس بات سے ڈراتے رہے کہ گیلانی تو مسلم لیگ نواز کی لائن پر چل رہے ہیں اور وہ مشکل وقت میں ان کیلئے لغاری ثابت ہونگے، اس دوران گیلانی کو وزیراعظم ہائوس میں دوسال پورے ہوگئے۔ پھر تین سے چار سال ہو چلے، لیکن پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کو گیلانی کی نگرانی کا مشورہ دیا جاتا رہا، ادھر گیلانی نے سازشوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے سیاسی میدان میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے ملتان میں میگا پراجیکٹس شروع کرنے کا حکم دیا اور ملکی معاملات کیساتھ سرائیکی وسیب کو بھرپور توجہ دی۔ 

یوسف رضا گیلانی کیلئے فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آیا جب ملتان کی عوام نے سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگایا۔ خیال تھا کہ گیلانی سرائیکی صوبہ کے ایشو پر تخت لاہور کے حکمرانوں سے ڈر کر پیچھے ہٹ جائینگے، لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے بحیثیت وزیراعظم پاکستان اس مطالبے کو جائز قرار دیتے ہوئے پنجاب کی تقسیم کیلئے کام شروع کر دیا، یوں بحیثیت وزیراعظم اس ایشو پر ایسا اسٹینڈ لیا کہ مخالفین کو ان کے موقف کی تائید کرنی پڑی۔ گیلانی آخری امتحان میں یوں سرخرو ہوئے کہ این آر او کیس میں سپریم کورٹ کی طرف وزیراعظم گیلانی کو صدر مملکت آصف علی زرداری کیخلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کیلئے حکم دیا گیا تو انہوں نے عدالت کو بصد احترام تین بار پیش ہو کر بتایا کہ صدر کو آئین کا آرٹیکل 248 ون تحفظ فراہم کرتا ہے، اس لیے جب تک ان کے پاس صدر کا آفس ہے ہم خط نہیں لکھ سکتے۔
 
ان کے وکیل چوہدری اعتراز احسن کا بھی یہی موقف تھا کہ آصف علی زرداری کو اس وقت آئین بحیثیت صدر تحفظ فراہم کرتا ہے، اس دوران مختلف حلقوں کو گیلانی کو بتایا جاتا رہا ہے کہ توہین عدالت میں عدالت ان کو نااھل کرکے وزیراعظم کے منصب سے ہٹاسکتی ہے۔ جس پر گیلانی کا دوٹوک موقف تھا کہ میں آئین سے غداری نہیں کرسکتے اور توہین عدالت میں ان کو سپریم کورٹ جو سزا دیتی ہے وہ جمہوریت کی خاطر قبول کرلینگے، یوں گیلانی نے اقتدار کی خاطر لچک نہیں دکھائی بلکہ وزیراعظم شپ کو ٹھوکر مار دی ہے اور لغاری کے ہاتھوں سرائیکی دھرتی پر اقتدار کی خاطر لگے بغاوت کے داغ کو بھی دھو ڈالا۔
 
گیلانی کی اس بات کو درست سمجھا جاتا ہے کہ گیلانی کو سرائیکی صوبہ کے قیام کیلئے بحیثیت وزیراعظم پاکستان اسٹینڈ لینے کی سزا ملی ہے اور گیلانی اور پیپلزپارٹی کا سرائیکی دھرتی کے عوام کے ساتھ دینے کا فیصلہ سیاسی میدان میں گھاٹے کا سودا نہیں ہے، بلکہ منافع ہی منافع ہے۔
خبر کا کوڈ : 178151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش