1
0
Friday 27 Jul 2012 12:32

میانمار میں مسلم نسل کشی اور امریکی اصلاحات

میانمار میں مسلم نسل کشی اور امریکی اصلاحات
تحریر: سید علی جواد ہمدانی
 
وَ مَا لَكمُ‏ْ لَا تُقَاتِلُونَ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِن ھذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَھْلھَا وَ اجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَ اجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورہ النساء/۷۵ )
ترجمہ: اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا، اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا، اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔

جنوب مشرقی ایشیا کا علاقہ میانمار (سابقہ برما) 4 جنوری 1948ء کو برطانوی سامراج کے ہاتھوں آزاد ہوا۔ محل وقوع کے لحاظ سے میانمار کے شمال مغرب میں بھارت، مغرب میں بنگلادیش، جنوب مغرب میں خلیج بنگال، جنوب مشرق میں تھائی لینڈ جبکہ مشرق میں لائوس اور شمال مشرق میں چین واقع ہے۔ میانمار کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ ہے جس میں 9 لاکھ کے قریب مسلمان ہیں۔ آبادی کا 70%بدھ مت کے ماننے والوں کا اور بقیہ دیگر اقلیتیں ہیں۔
 
ٹائمز اٹلس آف ورلڈ ہسٹری کے مطابق میانمار (سابق برما) کا علاقہ "اراکان"، روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ چودویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ ارکانی مسلمانوں کا آزاد ملک تھا۔ بعد میں برمیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ پھر 1826ء میں ارکان بھی برطانوی ہند کے ماتحت آگیا اور برما اس سے دست بردار ہوگیا، مگر انگریز حسب روایت جاتے جاتے اراکان کے مسلمانوں کو برما کے سپرد کر گیا۔ برما میں مسلمان صدیوں سے آباد ہیں، یہاں اسلام پہلی صدی ہجری سے عرب تاجروں کے ذریعے پہنچا تھا اور یہاں گہرے اثرات مرتب کئے، مگر المیہ یہ ہے کہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزارنے کے باوجود بھی اس خطے کے مسلمان اپنی شناخت سے محروم ہیں۔
 
 1962ء میں "نی وین" کی فوجی بغاوت، جس نے عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر اس ملک پر قبضہ جمایا تھا، کے دور سے مسلمانوں کے حالات انتہائی خراب ہونا شروع ہوگئے۔ فوجیوں نے مسلمانوں کو تمام حکومتی سرکاری اور عسکری اداروں سے برخاست کر دیا، حتٰی 1980ء تک انہیں حج اور دیگر بین الاقوامی اجتماعات میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ 1982ء میں فوجی حکومت نے اس ملک میں موجود تمام مسلمانوں کو اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت یہ لوگ اس ملک کے غریب ترین افراد شمار ہوتے ہیں۔
 
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق روہنگیا مسلمان برما اور بنگلادیش کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، دونوں ممالک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ برمی حکومت چاہتی ہے کہ وہ بنگلادیش چلے جائیں جب کہ بنگلادیشی حکومت انہیں کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ حد تو یہ کہ برمی حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور مسلم اکثریتی سٹیٹ اراکان میں رکھنہ نسل کے بدھ مسلمانوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، آئے روز مسلم آبادیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور بدقسمتی سے ریاستی انتظامیہ بھی بدھوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتی ہے۔ یہاں انہیں غیر قانونی مہاجرین سمجھا جاتا ہے۔
 
2011ء کے بعد سے اصلاحات کے تحت آنے والی نئی حکومت کے صدر "تین سین" نے امریکی وزیر خارجہ سے حالیہ ملاقات کے بعد اس ملک پر پابندیوں کی نرمی کے فوراً بعد ہی ان مسلمانوں سے کہا ہے کہ یا اس ملک سے نکل جائیں یا مخصوص مہاجر کیمپوں کا رخ کریں۔ اس بات نے بھی مسلمانوں کے خلاف شدت پسند رویے کو ہوا دی ہے۔ مسلم نسل کشی کی یہ نئی لہر اس امریکی اصلاحاتی پالیسی کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہی عالمی میڈیا ان واقعات کو سنسر کیئے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی حکومتیں اس ہولناک سانحہ پر دم سادھے بیٹھی تماشہ دیکھ رہی ہیں۔
 
جبکہ چند میل اس طرف چند سال قبل جب انڈونیشیایی عیسائیوں اور مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئی تھیں تو اقوام متحدہ نے فوری ایکشن لے کر عیسائی برادری کے لئے ایک علیحدہ ملک قائم کر دیا تھا۔ مگر انڈونیشیا کے بغل میں میانماری مسلمانوں کہ جن کا تاریخی طور پر اس علاقے پر رہائیشی حق ہے، اقوام متحدہ سمیت تمام عالم تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے مائی باپ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں اسرائیلی تحفظ اور امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا شام کے حصے بخرے کرنے میں مصروف ہیں۔ 

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 1982ء میں منظور ہونے والے کالے قانون نے مسلمانوں سے ان کا حق شہریت تک چھین لیا ہے۔ یہاں مسلمان تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، علاج معالجہ نہیں کروا سکتے، سفر نہیں کرسکتے، دوسرے گائوں تک نہیں جاسکتے، 15 سال سے بڑے بچے کو فوج اٹھا کر خرکار کیمپ لے جا کر جبراً مزدوری کرواتی ہے۔ میانمار انہیں بنگالی اور بنگلادیش انہیں میانماری قرار دیتا ہے۔ 1992ء میں میانمار حکومت کے حکم پر پولیس نے بنگلادیش سے واپس آنے والے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلادیش میں دھکیل دیا تھا، جو وہاں انتہائی نہ گفتہ بہ حالات میں مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس کے بعد سے میانمار میں مسلمانوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔
 
حالیہ فسادات:
حالیہ مسلم نسل کشی اس سال مئی 2012ء میں فوج کے ہاتھوں 11 بےگناہ مسلمانوں کے مارے جانے اور پھر مسلمانوں کی ایک بس پر بدھوں کے حملے کے نتیجے میں دفاع پر ایک بدھ کے مرنے سے شروع ہوئے۔ یوں شدت پسند بدھوں نے افواہیں پھیلا کر اور انتظامیہ کی زیر سرپرستی مسلمان نشین علاقوں پر دھاوا بول کر ایک ہفتے میں مسلمانوں کے 2000 گھروں کو جلا ڈالا، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس عرصے میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان بے گھر، 20,000 کے قریب قتل، 5000 مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی اور بچوں کو زندہ زندہ آگ میں پھینکنے کی رپورٹس ہیں۔
یہ ان بدھ مذہب کے پیروکاروں کی کارستانی ہے کہ جن کے بانی کے عظیم کردار کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ "بارش کے موسم میں کوئی بھگشو گھر سے باہر نہ نکلے، مبادا اس کے پائوں تلے برسات کے کیڑے مکوڑے آکر کچلے جائیں۔"
 
حد یہ کہ پرامن احتجاج کرنے والی میانماری اپوزیشن لیڈر "انگ سان سوچی" جو حال ہی میں 24سال نظر بندی کے بعد آزاد ہوئی ہیں اور اس حوالے سے 1992ء کے صلح کا بین الاقوامی نوبل انعام لے چکی ہیں، اس مسلم نسل کشی پر لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ 1988ء میں فوجی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کیلئے اپنے برطانوی شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر برما آنے والی یہ مخملی خاتون عالمی استکباری ایجنڈے پر کاربند اس انسانیت سوز ظلم پر صرف اتنا بولی ہیں کہ ابھی معلوم نہیں کہ یہ لوگ برما کے شہری ہیں یا نہیں!۔ خدا کی پناہ، اگر یہ برمی شہری نہ ہوں تو کیا یہ انسان بھی نہیں ہیں؟ سوچنے کی بات ہے انہیں کس امن کا، اور کن مقاصد کے تحت نوبل پرائز دیا گیا تھا؟؟؟
 
یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے میانماری مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی خاموشی کو مغربی اخلاق اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعووں کی ایک اور مثال قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مزمت کی ہے، جبکہ اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر نے فی الفور عالمی امن فورس کو میانمار کے مسلمانوں کے تحفظ کیلئے بھیجنے کی درخواست دی ہے۔ 

حد تو یہ کہ اسرائیلی جارحیت کا شکار غزہ کے مسلمان بھی اس وحشت اور بربریت کے خلاف اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے ہوئے ہیں، جبکہ عالمی میڈیا اس انسانی المیہ سے نظریں موڑے اس انتہائی المناک واقعے کو قریب الوقوع اولمپک مقابلوں کی خبروں کے پیچھے چھپائے، ان مقابلوں کے حفاظتی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے، اور اگر کہیں خبر دی بھی جا رہی ہے تو اس میں اس منظم اور طے شدہ نسل کشی کو دو قبیلوں کی جنگ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 182447
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
aap logoo ka asan hai rohingya muslim ke news aap ke website main he meelty hai? thanks sir?
ہماری پیشکش