0
Thursday 5 Jul 2012 16:06

برما میں تاریخ انسانی کا سیاہ المیہ

برما میں تاریخ انسانی کا سیاہ المیہ
تحریر: ثاقب اکبر
 
ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہا درجے کے امن پسند اور انسانوں کے لیے نرم دل رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اس تاثر کی وجہ خود اس مذہب کے بانی بدھ کا عظیم انسانی کردار ہے، جس نے دنیا کی سہولیات اور تعیشات کو انسانی مشکلات اور مصائب کو دیکھ کر ترک کر دیا اور پھر انسانی آلام کو دور کرنے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا، لیکن آج انسانوں کی بھاری اکثریت یہ نہیں جانتی کہ 89 فی صد سے زیادہ تعداد میں برما میں بسنے والے بدھ مت کے پیروکار اپنی ایک اقلیت کے قتل عام میں شریک ہیں، یا خاموش تماشائی ہیں یا بے اختیار، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے۔ اس امر کا اندازہ ایک عرصے سے برمی مسلمانوں پر جاری وحشیانہ تشدد اور قتل عام سے لگایا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بدھ مت کے قاتل پیروکاروں نے پورے مذہب کو رسوا کر دیا ہے۔

برما کی آبادی 60.28 ملین ہے۔ چھ کروڑ سے زیادہ اس آبادی میں مسلمان فقط چار فیصد ہیں، جو اس وقت محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 24 لاکھ کی تعداد میں ہیں۔ یہ مسلمان آج جس کسمپرسی اور بے چارگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اندازہ برما سے باہر اور خاص طور پر ان مسلمانوں سے دور رہنے والے اللہ کے بندے نہیں لگا سکتے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق وہاں ہزاروں مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا ہے۔ سینکڑوں بستیاں اجاڑ دی گئیں اور سینکڑوں ہی گاﺅں خاکستر کر دیئے گئے ہیں، لاکھوں افراد کو ترک وطن پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
 
مسلم اکثریتی علاقے اراکان میں کرفیو نافذ کرکے مساجد کو سیل اور مسلم علاقوں کو فوج نے محصور کر رکھا ہے۔ اطلاعات یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ فسادات بدھ مت کے پیروکاروں نے اس وقت شروع کیے جب دو بدھ خواتین کے مسلمان ہونے کی خبر آئی اور پھر اس سلسلے میں وہاں تبلیغی جماعت کے دس افراد کو بھی شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہاں جو خوفناک حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ایک ایک گاﺅں سے سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو زبردستی اٹھا کر غائب کر دیا گیا ہے۔ جہاں بعض کی کچھ وقت بعد لاشیں ملتی ہیں۔ 1    

اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ برما میں یہ دو قبیلوں کی جنگ ہے۔ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ راکھین کی بدھ آبادی راکھین نسل کی ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد برہم ہوئی ہے۔ 2  

لیکن یہ سب کچھ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، کیونکہ برمی مسلمانوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ 1978ء سے جاری ہے۔ برما میں الرھنجیا نامی مسلمانوں کے ایک بڑے قبیلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والی تنظیم کے چیئرمین الشیخ سلیم اللہ حسین عبدالرحمان نے بتایا کہ اراکان اور برما کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں پر ہونے والے یہ حملے، ہلاکتیں اور ہجرت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 1978ء میں بھی مسلمان آبادی پر ہونے والے حملوں کے بعد تین لاکھ مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
 
1982ء میں برما کی حکومت نے مسلمانوں پر ایک اور بم اس وقت گرایا، جب اس نے ملک میں موجود تمام مسلمانوں کو اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ برما میں موجود تمام مسلمان تارکین وطن ہیں۔ انھیں یہاں پر شہریت نہیں دی جاسکتی۔ 1992ء کو برما کی حکومت کے حکم پر پولیس نے بنگلہ دیش سے واپس جانے والے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں دھکیل دیا تھا۔ اس کے بعد سے مسلمانوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 3

انسانی حقوق کے ایک میانماری مندوب محمد نصر کے مطابق مسلمانوں کے خلاف حالیہ جارحیت میں 300 افراد لا پتہ ہوگئے ہیں، جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیاء کی قلت کے باعث سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ ایک ہفتہ کے دوران ”ماگ“ ملیشیا کے دہشتگردوں نے میانمار میں مسلمانوں کے 20 دیہات اور 1600 مکانات نقشے سے مٹا دیئے، جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
 
محمد نصر نے مزید کہا ہے کہ "ماگ" ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تاہم بنگالی حکام کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔ ”ماگ“ کے دہشتگردوں سے جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والے مسلمانوں کی کشتیوں کو بنگالی پولیس واپس کر دیتی ہے۔ اس کے باوجود کم سے کم 3 لاکھ افراد بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔ 4

یہ امر باعث افسوس ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک، ادارے اور تنظیمیں خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ نے کوئی حرکت کی ہے نہ او آئی سی نے۔ پوری دنیا میں مسلمان بھی اول تو اس المیے سے آگاہ نہیں ہیں اور جن تنظیموں اور اداروں کو اس کی خبر ہے، ان کی طرف سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا، البتہ پاکستان میں برمی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان نے ایک دن مختص کیا اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا۔

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اس موقع پر کہا کہ نہ او آئی سی کا کہیں وجود ہے اور نہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کے اندر کوئی دینی غیرت و حمیت موجود ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں کے خلاف جاری آگ اور خون کے کھیل کو بند کرانے کے لیے آواز اٹھاتے، جہاں گذشتہ چند ہفتوں میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا ہے اور لاکھوں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کراچی میں احتجاجی مظاہرے کے کارکنوں نے ایک قرارداد میں مطالبہ کیا کہ برما کے مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے، اذان و باجماعت نماز پر پابندی ختم کی جائے، مسلم بستیوں کا محاصرہ ختم کیا جائے اور مسلم نوجوانوں، علماء اور دانشوروں کے اغوا کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔ 5

پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے میانمار میں بے گناہ برمی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھ کر برما کے مسلمانوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے اس مکتوب میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے قیام امن کے لیے صرف مذاکرات پر انحصار نہیں کیا ہے، بلکہ انسانی جانوں کو بچانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے امن افواج کے ذریعے بھی جدوجہد کی ہے۔ میانمار میں صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی بلکہ مسلمانوں کے قتل عام میں خواتین کی حرمت اور حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔ میانمار حکومت کی سرپرستی میں معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کے قتل عام کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ 6

جیسا کہ بعض مندرجہ بالا رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے برما میں مسئلہ فقط فرقہ وارانہ تشدد کا نہیں ہے بلکہ برما کی حکومت خود مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہے۔ برمی فوج نے ہی مسلمان علاقوں میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لیے برمی حکومت بنیادی انسانی حقوق ہی کی قائل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور رپورٹ ملاحظہ کیجیے:

بلاشبہ میانمار میں قانونی حکومت کے قیام کی کوشش یورپی یونین کے زیرنگرانی ملک پر عاید پابندیوں کو کم کرنے کے لیے ہے، لیکن یہ کوشش ہرگز ان بیس لاکھ مسلمانوں کو نظرانداز کرکے بار آور نہیں ہوسکتی، جن کو روہینجیا کی اقلیت کا نام دیا گیا ہے، جو چند سالوں سے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور صفایا و خاتمہ کی مہم سے دوچار ہیں۔ فوج ان مسلمانوں کو قانوناً الیکشن میں حصہ لینے ہی سے نہیں روک رہی ہے، بلکہ انھیں شہری حقوق سے بھی محروم کررہی ہے۔
 
ان مسلمانوں کو وہاں کا نیشنل نہیں سمجھا جاتا ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور انھیں اتری راحینی صوبہ سے میانمار کے دوسرے صوبے میں سابقہ اجازت کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ پرسنل لاء سے متعلق کارروائی کرانے جیسے شادی بیاہ، بچوں کے نام درج کرانے کے سلسلے میں ایسی کڑی شرطیں ہیں، جن کی وجہ سے وہ لوگ غیر قانونی طور پر پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیش جو اکثریتی مسلم ملک ہے اور ہزاروں لوگ ہندوستان میں بھی مہاجر کی زندگی گزار رہے ہیں۔

امریکا کے انسانی معاملات کو منظم کرنے والے ایک ادارے کے آفس نے 23جنوری 2012ء کو یہ رپورٹ شائع کی ہے:
روہینجیا کے 40 ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جاسکا ہے، ان کڑی شرطوں کی وجہ سے جو وہاں کی اقلیت پر عائد ہیں، ان میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ ہوں اور بیبیوں کے نام بھی نوٹ نہیں کیے جاتے۔ ان شرطوں کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے۔ 1982ء میں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق روہینجیا کے تمام بچے خواہ ان کا نام نوٹ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، برمی نہیں سمجھے جائیں گے۔ انھیں غذا، خوردونوش، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہ ہوں گے اور انھیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا۔ 7  

ان رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انفرادی واقعات کو بنیاد بنا کر برما کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت کے پس منظر کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ جنسی زیادتی کا کوئی انفرادی واقعہ ہو یا مذہب کی تبدیلی کا کوئی واقعہ، اس سنگین صورتحال کی ہمہ گیر بنیاد نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جب ایک اقلیتی آبادی کو کچلنے کے لیے حکومت برسرکار ہو اور جس کی 25 فی صد سے زیادہ آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہو اور باقی آبادی فوجی سنگینوں کے رحم و کرم پر ہو، تو اسے عصری تاریخ کا سیاہ المیہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس المیے کی سیاہی اس وقت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب انسانی حقوق اور جمہوریت کے عالمی علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کو اس سنگین انسانی مسئلے پر کوئی حرکت کرتے ہوئے نہ دیکھا جائے۔ البتہ ان سے شکایت تو ایک طرف مسلمان ممالک کو کیا ہو گیا ہے، کیا وہ زبانی بھی ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی اہلیت کھو چکے ہیں۔؟


مصادر
1۔ http://www.hamariweb.com/articles/articles .aspx?id=22773&type=text
2۔ http://www.dw.de/dw/article/0,,16040825,00.html
3۔ http://urduwebnews.com/2012/06/30/barma/
4۔ http://urdu.irib.ir/index.php/2010-06-23-04-13-06/2010-06-28-08-42-28-/26675-2012-07-01-
5۔ http://www.siasat.pk
6۔ http://www.jasarat.com...
7۔ www.ahlehaq.org
خبر کا کوڈ : 176822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش