0
Monday 8 Feb 2010 13:49

انقلاب اسلامی ایران کا سفر (8)

انقلاب اسلامی ایران کا سفر (8)
ایران کا اسلامی انقلاب اور خواتین کا اہم کردار
ایران کا اسلامی انقلاب،نظریہ اسلام،امام خمینی رہ کی با بصیرت قیادت اور ایرانی عوام کی بھرپور حمایت سے کامیاب ہوا۔شاہ ایران نے ملک چھوڑنے سے پہلے شاہ پور بختیار کو وزير اعظم بنا کر اسلامی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی،لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔امریکی بھی اسکی بھرپور مدد کر رہے تھے امریکی حکومت نے اپنے ایک انتہائی تیز طراز اور شاطر شخص جنرل ہائزر کو بھی شاہ کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لئے بھیجا۔لیکن وہ بھی ایرانی عوام کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے واپس لوٹ گیا۔ایران کے اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں معاشرے کا ہر طبقہ فعال تھا۔امام خمینی رہ کی دوراندیش قیادت نے معاشرے کے کسی بھی طبقے اور شعبے کو فراموش نہیں کیا تھا یہی وجہ ہے کہ ایران کا پورے کا پورا معاشرہ امام خمینی رہ کے ساتھ قدم بہ قدم آگے چل رہا تھا۔خواتین جنہیں معاشرہ کا پچاس فیصد کہا جاتا تھا وہ بھی اس انقلاب میں مردوں کے شانہ بشانہ رضاشاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف بر سرپیکار تھیں۔خواتین کی ایک ماں،زوجہ اور بیٹی کی حیثیت سے اس انقلاب میں اور اسکے بعد اتنا اہم کردار رہا ہے کہ امام خمینی رہ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ اس انقلاب کی کامیابی اور تحفظ میں مردوں سے زیادہ عورتوں کا حصّہ ہے۔ خاندان معاشرے کی ایک اکائی ہے جس کا محور و مرکز ایک عورت ہوتی ہے،خاندان کی تربیت میں عورت کا کردار اتنا اہم ہوتا ہے کہ امام خمینی رہ فرماتے ہیں کہ مرد عورت کی آغوش سے منزل معراج تک پہنچتا ہے۔امام خمینی رہ آئے اور انہوں نے ان چنگاریوں کو جو زمانہ کی راکھ کے نیچے دبی رہ گئی تھیں پھر سے شعلہ ور کر دیا اور اپنی دوررس نظروں کے ذریعہ اس اسلام کو جس میں نہ کلیسائي نظام کی گھٹن تھی نہ کمیونزم کی دہریت بلکہ یہ وہی حضرت محمد(ص) کا حقیقی و خالص اسلام تھا جسے آپ نے دوبارہ زندہ کیا اور انسان کو نیز اسی کے ساتھ عورت کو گمراہی سے نکلنے اور خود اپنے آپ کو پہنچاننے کی دعوت دی۔امام خمینی رہ نے پہلی منزل میں مسلمان عورت میں یہ یقین و اعتقاد پیدا کیا کہ وہ خود کو اسلامی تعلیمات کے صاف و شفّاف سرچشمہ میں تلاش کرے اور اپنی حقیقی معرفت حاصل کرے،بیدارہو،گمراہیوں اور کج رویوں کو بھی اچھی طرح پہچانے۔اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ ایک مسلمان عورت انقلاب لاتی ہے،خود منقلب نہیں ہوتی،تغییر پیدا کرتی ہے،خود متغیّر نہیں ہوتی۔وہ یہ جان لے کہ عورت کے سلسلہ میں غلط تصورات کے ناخوشگوار نتائج اور انکے برے اثرات انسانی تہذیب کے دوسرے تمام پہلوؤں کو بھی متاثر کریں گے اور ان پر غالب ہو جائیں گے۔لہذا عورت اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو انسانی کمال کی بلند ترین منزل تک آسانی کے ساتھ پرواز کرسکتا ہے اس کے وجود نے تاریخ کو تابناک بنایا ہے نیز انقلابوں اور تحریکوں کو روشنی بخشی ہے۔عورت تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کو جہالت اور طاغوتیت کے پنجوں سے رہائی دلانے والی تحریکوں کی روح رواں رہی ہے پھر بھی مختلف معاشروں میں اس پر ظلم و ستم روا رکھا گیا اور اس کی شخصیت کو پامال کیا گیا ہے۔اگر پندرہ صدیوں پہلے عرب کے بدّو انسان عورت کے جسم کو زندہ درگور کر دیتے تھے تو آج کے خلائی دور میں اس کی روح کو زندہ در گور کیا جاتا ہے۔ایران کے اسلامی نظام نے جہاں ریاست کے دیگر شعبوں میں انقلاب بر پا کیا وہاں خواتین اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔اسلامی انقلاب سے پہلے خواتین کی شرح خواندگي بہت کم تھی جس میں انقلاب کے بعد انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا۔اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اس کا انقلاب سے پہلے کی صورتحال سے موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔انقلاب کے بعد خواتین کی سیاست،ثقافت،تعلیم،اقتصاد،ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں مشارکت میں حیران کن اضافہ ہوا ہے اور اس حوالے سے ایران اسلامی ملکوں اور علاقائی ممالک سے بہت آگے ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں عورت باشعور،تعلیم یافتہ اور معاشرتی زندگی میں فعال ہو،اسکے اثرات خاندان،معاشرے اور ملک کے لئے انتہائي مثبت اور فائدے مند ہوتے ہیں۔بلاشبہ ایران کے اسلامی انقلاب کے واقعات اور بیسویں صدی کے بڑے بڑے سیاسی و معاشرتی کارناموں میں مسلمان خواتین کی بھرپور شرکت اسلامی حلقوں میں عورتوں سے متعلق معاشرتی کردار کے کئی راہوں کو واضح کر رہی ہے اور اس تناظر میں خواتین کا مستقبل روشن ہے۔ہم اپنے مضمون کا اختتام قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اس بیان سے کرتے ہیں جس میں آپ انقلاب کی کامیابی اور اسکے خواتین پر پڑنے والے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔علمی اور تحقیقی مسائل میں خواتین کی آمد ہیقابل توجہ ہے۔ملک میں جو جرائد شائع ہوتے ہیں،چاہے علمی اور سائنسی جرائد ہوں،علمی اور تحقیقی جرائد ہوں یا علمی اور تبلیغی جرائد ہوں،جب میں ان پر نظر ڈالتا ہوں،ان کا مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارے جرائد میں تمام موضوعات پر نئے نئے مضامین لکھے جا رہے ہیں اور ان میں خاتون مصنفین اور محققین کی تعداد قابل توجہ ہے۔دینی علوم میں،فقہ میں،فلسفے میں،یونیورسٹی کے مسائل کے میدان میں،انسانی علوم کے میدان میں،سائنس کے میدان میں ہمارے ملک کی خواتین کی موجودگي بہت ہی واضح اور تمام علمی شعبوں میں مکمل طور پر عیاں ہے۔یونیورسٹیوں میں ہماری طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے؛علمی میدانوں کو خواتین کی موجودگي نے حیرت انگیز طریقے سے واضح اور آشکار کر دیا ہے۔رہبر انقلاب فرماتے ہیں:یہ کیا ہے؟ یہ کونسا مسئلہ ہے؟ یہ کون سی حقیقت ہے؟ کب ہمارے ملک میں خواتین میں اتنی محققین،عالم،پڑھی لکھی اور دین کی مبلغ و مروج عورتیں تھیں؟ ہماری تاریخ میں کبھی بھی اس طرح کی کوئی چیز نہیں تھی۔جی ہاں ! خال خال،کبھی کبھار دانشور اور اہم شخصیت کی حامل خواتین رہی ہیں لیکن پورے معاشرے میں قابل توجہ اور بہت بڑی تعداد میں موجودگي کے حوالے سے نہیں۔یہ اسلامی جمہوریہ کے دور سے مختص ہے؛یہ اس ملک میں اسلام کی حکمرانی کی برکت کے سبب ہے کہ علمی میدانوں میں خواتین اس طرح سے اپنے آپ کو منوا رہی ہیں اور اتنی اہمیت کی حامل بنتی جا رہی ہیں۔یہ اسلامی جمہوری نظام کے قابل فخر کارناموں میں سے ایک ہے آپ فرماتے ہیں یہ جو میں نے طلبہ اور جوانوں کے اجتماع میں باربار یہ بات کہی ہے کہ خواتین کے مسئلے میں ہم مغرب والوں کے دعووں کے مقابل دفاعی پوزيشن میں نہیں بلکہ حملے کی پوزيشن میں ہیں اور خواتین کے معاملے میں اسلام کو نہیں بلکہ مغرب کو اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ طاغوتی نظام میں ہمیشہ غلط طریقے سے عورت کو دیکھا گيا ہے آج بھی مغرب میں ایسا ہی ہے۔ عورت کی شان یہ ہے کہ اسے موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام عظیم اور اہم صلاحیتوں کو جنہیں خداوند متعال نے عورت سمیت ہر انسان کے اندر رکھا ہے اور ان صلاحیتوں کو جو صرف خواتین کے اندر ہی ہوتی ہیں۔کو معاشرے،خاندان،علم و دانش،معرفت و تحقیق،تربیت و پرورش اور تعمیر کے لئے ظاہر کرسکے اور عورت کے احترام کا حقیقی مطلب یہ ہے۔رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ خداوند عالم کی توفیق سے اور اسکے فضل و کرم سے ہمارے معاشرے میں یہ بات پوری طرح سے واضح ہو گئی ہے۔بحمداللہ ہمارے ملک میں خواتین کی بنیادی صورتحال بہت ہی گرانقدر ہے اور وہ تمام علمی میدانوں میں موجود ہیں اور ان کی موجودگي انتہائي سرگرم اور قابل تحسین ہے۔

خبر کا کوڈ : 20072
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش