0
Wednesday 9 Jun 2010 09:40

جگر بمقابلہ خنجر

جگر بمقابلہ خنجر
حافظ محمد ادریس
 امریکا اور مغربی ممالک کا پالتو غنڈہ اسرائیل تمام انسانی اقدار کو پامال کر چکا ہے۔اس کے مظالم کے لیے لفظ درندگی بہت ہیچ نظر آتا ہے۔غزہ میں 15 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ان پر اسرائیل نے 2008ء میں مسلسل 22 دن تک بدترین ہوائی اور زمینی حملوں اور بمباری کے ذریعے عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔اس وقت بھی حماس کی غیرت مند قیادت اور عالی ہمت جانبازوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔پوری دنیا میں انصاف پسند شہری حتیٰ کہ بعض اسرائیلی اور غیر اسرائیلی یہودی بھی صہیونیوں کے ان مظالم پر سراپا احتجاج بن گئے۔ 
اسرائیل کی سرپرست غیر مسلم اور مسلم حکومتوں نے تو انسانی اقدار کی حفاظت کی کوئی قابل قدر مثال پیش نہ کی،البتہ عمومی طور پر ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حماس نے عالمی اور عوامی سطح پر پہلی بار اخلاقی فتح اور اپنے مبنی برحق موقف کے لیے زبردست پزیرائی حاصل کی۔ اس کے بعد دنیا بھر سے امن پسند شہری غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مصر کے راستے غزہ جانے کے لیے جنوری 2010ء میں قاہرہ پہنچے۔مصر اور اسرائیل نے مل کر ان انسانیت کے علمبردار کارکنان کو غزہ جانے سے روک دیا۔یہ بھی صہیونیوں کی شکست اور اہل غزہ کی اخلاقی فتح تھی۔ تین سال سے محصور،ادویات و خوراک اور جملہ بنیادی ضروریات سے محروم اہل غزہ اپنی آزادی اور خودداری کو خیرباد کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عالمی ضمیر ان مظلومین کے لیے ایک بار پھر بیدار ہوا اور بیسیوں ممالک کے انصاف پسند شہری انسانیت کی بقا کے لیے ادویات،خوراک اور سامان تعمیرات لے کر کشتیوں کے ذریعے ترکی سے غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔یہ پُرامن،نہتے اور معزز شہری تھے۔غزہ کے مظلومین ان کے استقبال کے لیے چشم براہ اور سراپا انتظار تھے۔اسرائیل بحری بیڑے اور ایئرفورس نے اس قافلے کو بحیرہ روم میں گھیرے میں لے لیا۔قافلے میں شامل انسانی حقوق،خدمت خلق،ذرائع ابلاغ اور طبی خدمات کے شعبوں سے منسلک لوگوں نے ان غنڈوں کو بتایا کہ وہ مکمل طور پر غیرمسلح اور پُرامن ہیں۔ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں اور وہ خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مظلومین غزہ کے لیے ریلیف کا سامان لے کر آئے ہیں۔درندوں نے ان کی ایک نہ سنی اور تمام اخلاقی حدود،انسانی اقدار اور جملہ عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے اس پُر امن قافلے پر بحری اور ہوائی حملے شروع کر دیے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق 10 اور اب تک 20 سے زائد بے گناہ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ 
ترکی نے اس غنڈہ گردی پر شدید احتجاج کیا اور فی الفور اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلایا اور سیکریٹری اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے مطالبہ بھیج دیا۔یورپی یونین نے اسرائیلی مظالم کی مذمت پر اکتفا کیا۔امریکا کی باندی یو این او کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے بھی احتجاج کیا۔عالم اسلام میں عوام الناس سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے،مگر مسلمان حکومتوں سے کچھ نہ بن پڑا۔اسرائیل کے قریبی دوست اور حماس کے مخالف مصری صدر حسنی مبارک،جس نے غزہ کے تمام راستے بند کر دیے تھے اور زمینی سرنگیں کنکریٹ سے مسدود کر دی تھیں،وہ بھی اس موقع پر مصری عوام کے جذبات کو دیکھتے ہوئے مجبور ہو گیا اور کافی عرصے سے بند رفحہ سرحدی چوکی کھولنے کا اعلان کر دیا۔عالمی سطح پر مشرق و مغرب میں ہر ملک کی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔مسلمان ملکوں کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی عوام مظاہرے کر رہے ہیں۔
اسرائیلی کمانڈوز،جو ان امدادی جہازوں پر اترے،میں سے بعض کو حماس کی خیر مقدمی کشتیوں پر سوار جانبازوں نے پکڑ لیا۔امریکی صدر نے محض ایک ٹیلی فون کال کر کے اسرائیل سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟اسرائیل کے جواب کا خلاصہ حسب سابق یہی تھا کہ تمہیں جو کچھ کرنا ہے کر لو۔دوسرا کام امریکا نے یہ کیا کہ امریکا کے دورے پر آنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جو کینیڈا میں پہنچ چکا تھا،سے معذرت کر لی کہ ابھی ملاقات کے لیے وقت مناسب نہیں ہے،اسرائیلی وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ اس کے ملک میں حالات ایسے ہیں کہ وہ خود یہ دورہ چھوڑ کر واپس جا رہا ہے۔امریکا نے اس انتہائی وحشیانہ اور انسانیت سوز صہیونی درندگی پر جو طرز عمل اختیار کیا ہے وہ انتہائی قابل مذمت اور انسانیت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔امریکا کے تین ذمہ داران کے بیانات پر مشتمل ایک رپورٹ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے نمائندے بیری شویٹ (Barry Schweit) کے ذریعے ریلیز کی ہے۔اس کے مطابق اوباما نے ترک وزیراعظم طیب اردوگان کو یکم جون کو ٹیلی فون کر کے کہا کہ غزہ کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ایسی سبیل سوچنی چاہیے کہ اسرائیل کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ 
آپ اندازہ کیجیے کہ پرامن بحری کارواں جس میں مختلف ممالک کے رضاکار بغیر کسی اسلحے کے ترکی کی قیادت میں یہ سامان لے کر جارہے تھے ان میں سے 20 افراد اسرائیلی بحری کمانڈوز اور ایئرفورس کے حملوں میں جاں بحق ہو گئے،مگر کسی اسرائیلی کی نکسیر تک نہ پھوٹی،کیونکہ رضاکار مکمل طور پر غیرمسلح اور پرامن تھے۔اوباما کو جواب دینا چاہیے کہ اس کے باوجود اسرائیل کی سلامتی کو کیا خطرہ لاحق ہو گیا تھا؟نیویارک میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکا کے نائب سفیر ایلی جاندروولف (Alejandro Wolff) نے کہا کہ فلوٹیلا (آزادی بیڑہ) نے ممکن ہے کسی شرات اور اشتعال انگیزی کے ارادے سے یہ سفر کیا ہو،جس کے نتیجے میں اسرائیل کو یہ کارروائی کرنا پڑی ہو۔دیکھیے کس طرح صہیونی گماشتے امریکی مناصب پر فائز ہو کر انسانیت کی تذلیل و توہین کر رہے ہیں۔وائٹ ہاﺅس کے صہیونی ترجمان رابرٹ گبز (Robert Gibbs) نے کہا کہ امریکا اسرائیل کی سرپرستی اور حمایت کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔وہ یہ دور کی کوڑی بھی لایا کہ خوراک کی بجائے ہتھیار لے کر ”نہتے رضاکار“ غزہ جا رہے تھے (بحوالہ روزنامہ ڈان 3 جون 2010 ء)۔ امریکا کی یہ منافقت اور سنگدلی کوئی نئی بات نہیں۔قیام اسرائیل کے روز اول سے اس کی یہ شیطانیت جاری ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ حماس کی غیرت و حمیت کے طفیل ان کا کیس اب غیر معروف نہیں رہا۔اسرائیل کی اس ظالمانہ کارروائی کے نتیجے میں بے گناہ انسانی جانوں کے قتل عام کا از حد افسوس اپنی جگہ مگر اس شر میں سے خیر کا پہلو یہ نکل رہا ہے کہ اسرائیل کا بھیانک چہرہ امتِ مسلمہ ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا ہے۔ساتھ ہی امریکا کی منافقت اور بہیمانہ تاریخ ایک بار پھر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے۔غیرمسلم دنیا میں بھی اس ظلم کے خلاف انصاف پسند رائے عامہ سراپا احتجاج بن چکی ہے۔حماس اور اہل غزہ انشاءاللہ سرخ رو ہوں گے۔ اللہ نے چاہا تو امریکا کا مقدر شکست کی صورت میں جلد سامنے آجائے گا،اور اسرائیل ایک دن صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا۔ترکوں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور جس میں سب سے زیادہ ترک ہی شہید ہوئے ہیں ان کے لیے علامہ اقبال کا یہ پیغام ایک بار پھر بالکل تر و تازہ ہو کر سامنے آ گیا ہے۔
اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
 کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا 
"روزنامہ جسارت"
خبر کا کوڈ : 27911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش