3
0
Thursday 19 Dec 2013 21:47

یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ

یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ
تحریر: حسن عسکری

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا، جس نے امام حسین (ع) کی زیارت کی خدا اس کے لیے ہزار حج اور ہزار عمرے  لکھ دے گا اور اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ (میزان الحکمۃ)

سید الشہداء، اسوہ قیام  و جہاد، قدوۃ  تحریک و مبارزہ:
امام حسین  کی کربلائے معلی میں قبرِ مبارک کی  زیارت کا ثواب بڑی عظمت و کثرت کے ساتھ روایاتِ محمد (ص) و آل محمد (ع) میں پایا جاتا ہے۔ بالخصوص آنحضرت کی شہادتِ عظیم کے بعد اربعین کے دن آپ کی قبرِ مبارک کی زیارت کرنا مومن کی علامات  اور نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ بحمدِللہ آج یہ سنتِ عظیم زندہ ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں  جبکہ عراق کے کونے کونے سے کروڑوں کی تعداد میں عاشقانِ حسین (ع) اس زمینی بہشت کی طرف سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد دور و نزدیک سے پا پیادہ راہِ عشق طے کرتے ہوئے حائر حسینی کا پروانہ وار طواف کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ یہ اجتماع  محبت، عقیدت، مودۃ اور عشقِ  الہی، محمدی و حسینی کا جلوہ ہے۔ عاشورا اور اربعین کے یہ اجتماع چاہے عراق کے اندر ہوں یا پاکستان جیسے کسی اور ملک میں، نہ صرف ایک ملک و  قوم کی بلکہ پورے جہانِ اسلام کی اور پوری امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔
وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے
جس سے متزلزل نہ ہوئی ہو   دولتِ پرویز


آج صرف بیت المقدس  و کشمیر ہی مقبوضہ نہیں بلکہ کربلا و نجف  اور بغداد و اسلام آباد کابل و کشمیر  بھی امریکی  نظامِ ستم میں  مقبوضہ ہو چکے ہیں۔ اسلامی مقدسات صرف نماز و روزہ ہی نہیں بلکہ یہ سارا جہانِ اسلام مقدس ہے اور ظالموں  اور فاسقوں کے ہاتھوں مغلوب  و مقہور ہے۔ اس کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کی عزت، حرمت اور تقدس  کی نگہداری کی ضرورت ہے۔ اس مقبوضہ بیت المقدس اور occopied کربلا کی زیارت کرنے والوں کا فریضہ ہے کہ اس کو دشمنانِ اسلام  اور مستکبرانِ جہاں کے چنگل سے آزاد کرائیں اور اس امرِ مقدس  کے لیے ان لاکھوں محمد و آلِ محمد  کے عزاداروں، ماتمیوں، سوگواروں، مومنوں، کربلائیوں اور عاشورائیوں کو کسی قسم کے مادی اسلحے کی بھی کوئی ضرورت نہیں بلکہ یہ اسی کربلائی جوش و جذبے سے دشمنانِ اسلام کو  ذلیل و خوار کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ  یہ زینبی سیرت اپناتے ہوئے بت شکنِ زمان امام خمینی (رہ) کی فریاد پر عمل کریں جو انہوں نے آج سے دسیوں سال پہلے بلند کی تھی: " اگر سب مسلمان مل کر  ایک ایک بالٹی پانی کی  اسرائیل کی طرف پھینکیں تو وہ بہہ جائے گا۔  "
یٰقوم ادخلوا الارض المقدسۃ  اللتی کتب اللہ لکم ولا ترتدوا علیٰ ادبارکم۔ (مائدہ ،21۔) گویا یہ آیت  کہہ رہی ہے کہ اے قوم اس ارضِ مقدسہ میں داخل ہو جاؤ  کہ جو آپ کی یعنی مومنین و امتِ مسلمہ کی سرزمین ہے اور ظالموں کو نکال باہر کرو لیکن یاد رکھنا یہ نہ ہو کہ فقط زیارت کرکے  واپس آ جانا۔

ان اجتماعات و زیارات  کا مقصد بھی یہی تھا کہ حسینی شجاعت، فداکاری، جہاد  اور طاغوت سے مقابلے کا درس حاصل کریں اور ہر زمانے کے طاغوت کے سامنے  حسین (ع) کی طرح ڈٹ جائیں۔  زیارت و  عزاداری ہم سے اسی بات کا تقاضا کرتی ہے۔ سید الشہداء کی شہادت  سے پہلے اور بعد کے تمام معصومین (ع) نے آپ کی شہادت کی یاد، زیارت اور عزاداری  پر  بہت تاکید فرمائی ہے۔ ہر زمانے میں امت کو فکر و عمل میں کربلا کو   اسوہ اور نمونہ بنانے  کی تبلیغ کی ہے۔ تمام  آئمہ اطہار علیہم السلام  اپنی امت  کو کربلائی و عاشورائی دیکھنا چاہتے تھے،   جس کی دلیل  یہ ہے جب بھی کسی امام معصوم (ع) سے قیام و جہاد کی درخواست کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: " کہاں ہیں حبیب بن مظاہر؟  کہاں ہیں زہیر بن قین؟ کہاں ہیں مسلم بن عوسجہ؟  " یعنی ہر امام  کا زمان و مکان کے فرق کے باوجود  اصلی و حقیقی مطالبہ  امت کا کربلائی  تفکر  اور عاشورائی عمل  سے سرشار ہونا تھا۔ تمام آئمہ (ع) حسرت و افسوس کرتے اس ظاہری دنیا سے امت کے ہاتھوں  جامِ زہر پینے پر مجبور ہوئے اور کسی امام کو خود  امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق  سترہ  کربلائی بھی نہیں ملے۔

آج  عاشورا و اربعین کے ان حسینی و زینبی  اجتماعات سے آئمہ علیہم السلام کی حسرت پوری  ہو سکتی ہے، اگر یہ حسینی عزاداران و زائرین  اس عزا و زیارت کے تقاضے پورے کریں  اور ان کو ادھورے پن سے نکال کر لباسِ کمال پہنا دیں چونکہ  اس تناظر میں ایک تضاد  اور ٹکراؤ نظر آتا ہے جس کو ختم  کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ لاکھوں کروڑوں  پر مشتمل حسین (ع) کا ماتم کرنے والے، حسین (ع) کی زیارت و عزاداری کرنے والے بھی موجود ہیں  اور زمانے کا طاغوت ویسے کا ویسا امت کے مقدر پر سوار ہے۔ مجالس و جلوس ہائے عزاداری میں "لبیک یا حسین (ع) و لبیک یا زینب (س)" کے شعار بھی سنائی دیتے ہیں اور اسلام و مسلمین پر  دشمن کے ہمہ جہتی ہجوم  کے مقابلے میں خاموشی و سکوت بھی دکھائی دیتا ہے۔ امام مظلوم کی یاد میں  امام بارگاہوں اور گلی کوچوں میں "ھیھات منا الذلۃ" کے نعرے تو موجود ہیں لیکن طاغوت کی سرپرستی میں دسیوں ٹی وی چینلز اور  دیگر طاغوتی  مراکز سے اسلامی مقدسات کی بےحرمتی اور مسلمان خواتین  کی  بےحجابی و عصمت دری پر کوئی ردعمل  نہیں دکھاتے۔ ہر سال محرم و صفر میں عزاداری  و زیارات مقدسہ کی رسم بھی منا لیتے ہیں  اور سال بھر  یزیدِ وقت کے خلاف مقاومت و جہاد کے دوران شہادت کی بجائے ہر دوسرے دن سینکڑوں مسلمانوں کی قیمتی جانیں بھی گنوا دیتے ہیں۔ عزاداری و محبتِ محمد و آلِ محمد دنیا میں سب سے زیادہ عراق و پاکستان میں  جوش و خروش  اور عقیدت و احترام کے ساتھ  موجود ہے لیکن  انہی دو ممالک میں امریکہ کے دنیا میں سب سے بڑے سفارت و خیانت خانے موجود ہیں نیز انہی دو ممالک  پر مظالم کی انتہا کرکے وہ اسلامی سرزمین ایران پر الٰہی نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے قبضہ  کرنا چاہتا ہے۔ یہاں سزاوار تو یہ تھا کہ یہی جلوسِ عزا و ماتمی دستے " لبیک یا رسول اللہ  اور لبیک  یاحسین " کے نعرے لگاتے  بغداد و اسلام آباد میں موجود اسلام و رسول ِاسلام  کی حرمت شکنی کرنے والے  امریکہ کے  پلید جنایت خانہ پر عاشقانِ رسول (ص) و سبطِ رسول (ع) کے قبضے  پر منتہی ہوتے لیکن  افسوس کہ  عزاداری و زیارت کرکے حتی بعض دفعہ مردہ باد امریکہ کے نعرے بھی  لگا کے گھروں میں واپس آ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ظالم و طاغوت کے خلاف خاموش اور پرامن رہنے کی اتنی تاکید کرتے ہیں کہ گویا امریکہ نے انہیں امن کا نوبل انعام دینا ہے۔ اسی تضاد کی طرف امامِ امت  نے آیۃ اللہ سید محمد باقر الصدر کی شہادت پر اپنے پیغام میں واضح الفاظ میں بیا ن کیا۔ "عجیب یہ نہیں کہ مرحوم محمد باقر الصدر اور ان کی مظلومہ بہن جامِ شہادت نوش کر جائیں بلکہ عجیب یہ ہے کہ امتِ مسلمہ اور خصوصا عراق کی باشرف قوم ، غیرت مند جوان اور دجلہ و فرات کے قبائل ان مظالم  سے  لاتعلق و غیر جانبدار رہیں اور ظالم  کو فرصت دیں کہ وہ ایک ایک کرکے ان کی قابلِ فخر شخصیات کو شہید کرتا جائے۔ اٹھیں! قیام کریں! اور اس ظالم و طاغوتی حکومت کو گرا پھینکیں۔" یہ تضاد  و ٹکراؤ  آج ہمارے اندر موجود ہے جو حقیقی عزاداری،  اصلی زیارت اور اسلامِ نابِ محمدی سے مانع ہے کیونکہ ایسی عبادت  کا ثواب تو ایک حد تک مل جاتا ہے لیکن حق و مقصدِ عبادت  و عبودیت  ادا نہیں ہوتا جو خدا تعالی چاہتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
شکوہِ عید کا منکر نہیں ہوں میں
قبولِ حق ہیں  فقط مردِ حر کی تکبیریں


جس طرح  ایسی نماز کہ جو برائیوں سے نہیں روکتی، فساد و فحشا میں مانع نہیں بنتی۔ انسان نماز بھی پڑھتا ہے  اور کبھی کبھی گناہ بھی کر لیتا ہے۔ اس سے نماز کا ایک سطحی سا ثواب تو مل جاتا ہے لیکن وہ  حقیقی نماز  و عبادت  کہ جو انسان کو  کمال تک پہنچاتی ہے اور قربِ خداوندی کا باعث بنتی ہے نیز مطلوب و مقصود الہی بھی ہے کہ اسی سے انسان کی پوری زندگی میں  انقلاب آ جاتا ہے وہ حاصل نہیں ہوتی۔ یہی حال آج ہم  نے عزاداری، حج و زیارات کے ساتھ کر دیا ہے کہ مجلسیں  ہیں، زیارات  ہیں، ماتم ہے، حج بھی ہے  لیکن ان کے اندر محمدی و حسینی روح نہیں ہے اور بےروح چیزیں نہ صرف انقلاب آور نہیں  ہوتیں بلکہ  فتنہ پرور بن جاتی ہیں اسی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ فتنوں کا شکار ہے۔ اس مصیبت و آفت سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی عبادات میں روح ڈالنی ہو گی۔ فرزندِ  زہرا، روحِ خدا امام خمینی نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ  کرتے ہوئے  فرمایا تھا   کہ " اگر حج کے اندر روح آ جائے تو مسلمانوں کے ہاں انقلاب  آ جائے گا اور عزاداری کے اندر روح پیدا ہو جائے تو شیعوں کے ہاں انقلاب آ سکتا ہے۔"   

آج ایران میں  اسی روحِ عزا، ابراہیمی حج اور حسینی زیارت کے ذریعے راہیانِ کربلا نے  طاغوتی حکومت و سلطنت کا بیڑا الٹا اور ولائی و الہی حکومت  قائم کی لیکن ہمسائے میں  موجود عراق، پاکستان و افغانستان  کے مسلمان طاغوت کے سائے میں تن من دھن  اور الہی عزت و ناموس قربان کیے جا رہے ہیں اور جب کوئی انقلابی و کربلائی جوان " ہے ہماری درس گاہ،   کربلا کربلا " کا نعرہ  لگاتا ہے تو کوئی  سفید ریش  اسے یہ کہہ کر بٹھا دیتا ہےکہ "کیا کربلا کربلا لگائے ہوئے ہو، ہمارے پاس صرف  کربلا نہیں ہے بلکہ نجف بھی ہے!  کوفہ بھی ہے!۔۔۔!!!"
علامہ اقبال نے  بھی اسی درد میں مبتلا ہو کر یہ فریاد لگائی تھی:
وائے  ناکامی متاع کارواں جاتا رہا                                                  کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
خبر کا کوڈ : 331258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت خوب۔ لیکن آپ مقبوضہ مکہ و مدینہ کا ذکر شاید بھول گئے۔
سلام برادر حسن عسکری
آپ کا فرمانا (یہ کہ لاکھوں کروڑوں پر مشتمل حسین (ع) کا ماتم کرنے والے، حسین (ع) کی زیارت و عزاداری کرنے والے بھی موجود ہیں اور زمانے کا طاغوت ویسے کا ویسا امت کے مقدر پر سوار ہے۔) امام سجاد علیہ السلام سے امام عسکری علیہ السلام تک آٹھ امام جن سے زیادہ نہ کسی میں بصیرت تھی اور نہ ہی شجاعت جبکہ ولید و ہشام و منصور و ہارون و مامون و معتصم و متوکل و معتز اور معتمد جیسے طاغوت بھی اور حسین (ع) کا ماتم کرنے والے، حسین (ع) کی زیارت و عزاداری کرنے والے بھی موجود تھے اور زمانے کے طاغوت ویسے کے ویسے امت کے مقدر پر سوار تھے تو کیا آپ کو اس وقت بھی تضاد اور ٹکراؤ نظر آتا ہے جس کو ختم کرنے کی ضرورت تھی لیکن معاذ اللہ یہ کام نہ ہوسکا۔
مقبوضہ مکہ و مدینہ (خصوصاً جنت البقیع) کو یہ لوگ عالم تشیع کا حصہ ہی نہیں سمجھتے، لہذا اس کے غاصبین کی یہ کبھی مذمت نہیں کرتے۔
ہماری پیشکش