3
0
Saturday 7 Dec 2013 02:45

کربلا اور اصلاح معاشرہ (1)

کربلا اور اصلاح معاشرہ (1)

تحریر: فدا حسین بالہامی  
سرینگر کشمیر


اگر فرد بشر کو کتاب بشریت کے ایک پرت سے تشبیہ دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس پرت کے دو رُخ یعنی دو صفحے ہیں۔ ایک صفحہ پر اجتماعیت کا رنگ غالب ہے اور دوسرا صفحہ ذاتی و انفرادی نقش و نگار سے بھرا پڑا ہے۔ شیرازہ بندی نہ ہونے کی صورت میں بشریت کے یہ اوراق حادثات زمانہ اور قدرتی آفات کے طوفان سے خس و خاشاک کی مانند کائنات کی وسیع فضا میں گم ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے فطری طور ان اوراق کی شیرازہ بندی کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس قدرتی شیرازہ بندی پر عالم انسانیت کی حیات کا دارومدار ہے۔
ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں


واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خالق ہستی نے انسان کی فطرت میں ہی باقی ہم جنس انسانوں کیساتھ جذب و میلان رکھا ہے۔ نافہم بچے کا اپنی ماں یا دیگر مانوس افراد کی وقتی جدائی پر بھی چیخنا چلانا بتاتا ہے کہ انسان فطرتاً انجمن پسند ہے اور الگ تھلگ  اس دنیا میں زندگی گزارنا اس کیلئے محال ہے۔ انسانی معاشرے کی تشکیل کا یہی سب سے بڑا محرک ہے۔ المختصر معاشرے کی اہمیت اشرف المخلوقات انسان کیلئے ویسی ہی ہے جیسے مچھلی کیلئے پانی۔ معاشرہ انسانی احتیاج کے مسائل کا حل ہے۔

کیسا سماج:
یقیناً سماج کی تشکیل انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسا معاشرہ انسانیت کے موافق ہے؟ کیا محض چند افراد کے ایک خاص مقام پر بودوباش سے ہی انسان کی یہ اہم ضرورت خود بخود پوری ہو جاتی ہے؟ یا پھر سماج میں کچھ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے؟ ان سوالات کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ کسی روحانی اور ایمانی رابطہ کے بغیر مختلف اشخاص کا ایک ہی جگہ مل جل کر زندگی گزارنا قطعاً اس اجتماعی ضرورت کی پیاس کو نہیں بجھا سکتا۔ ایک فرد وحشت و تنہائی سے بھاگ کر اسی لئے انسانی سماج کی پناہ میں آ جاتا ہے تاکہ اُس کو روحانی تسکین ملے۔ اب اگر سماج کے راہ و رسم ہی آزارِجاں بن جائیں تو ایسی صورت میں یہ سماج اس کیلئے کیونکر موافق ہو سکتا ہے؟۔ اس کی مثال آج کے مادیت پرست معاشروں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں "النفسی النفسی" کا وظیفہ ہر شخص کے وردِ زبان ہے اور ہر فرد صرف اپنا الوسیدھا کرنے میں مگن ہے۔ بظاہر ہر طرف لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ہے، سڑکوں پر چہل پہل ہے، بازاروں میں رونق ہے مگر ہر کوئی اپنے مطلب سے غرض رکھتا ہے، حتیٰ کہ والدین کو اپنی اولاد سے کوئی مروت نہیں ہے اور اولاد اپنی خواہشات کے آگے ماں باپ کو ہیچ جانتی ہے۔ غرض ہر فرد جلوت میں خلوت سے دوچار ہے۔ معنوی فقدان سے دوچار ان معاشروں میں اگر کہیں پر چند افراد کے درمیان اشتراکِ عمل بھی دیکھنے کو ملے تو اس میں  بھی ہر شخص کو ذاتی اور فردی منفعت پیش نظر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد  یہ کہ انسانیت سوز امور کی انجام دہی میں عالمی سطح پر مقتدر شخصیات کی ساجھے داری دیکھنے کو ملتی ہے۔
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند
(اقبال)                   
                                                                                                                  معاشروں ایسے بگڑے ہوئے معاشروں سے کنارہ کشی ہی بھلی ہے جن میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہ ہو جیسا کہ مولائے متقیان کا ارشاد گرامی ہے کہ "برے ہمنشین سے تنہائی بہتر ہے" حتیٰ کہ اللہ کے عظیم بندوں کا جینا بھی اس طرح کے معاشروں میں دو بھر ہو جاتا ہے۔ پیغمبرِ رحمت کو بھی حد سے زیادہ سرکش سماج سے ہجرت کرنے کا حکم ملا اور شاہِ مردان جیسے مرد میدان کو بڑی مدت کنج تنہائی میں گزارنا پڑی، اگرچہ یہ مہاجرت اور گوشہ نشینی وقتی ہی تھی۔ عالم انسانیت ایسی انجمن کا متمنی ہے جس میں انسان دوستی، رواداری، ہمدردی، الفت، خیر خواہی، ایثار و محبت کے جام پلائے جائیں۔ برعکس اس کے نفرت، تعصب، شرانگیزی، انسان دشمنی، خوانخواری، خود غرضی کے زہریلے گھونٹ ہی محفل کی غذا ہو تو ہر قلب سلیم رکھنے والا شخص خدا سے یوں دعاگو ہوتا ہے۔
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب   
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا میرا 
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
 (اقبال) 

انسان اپنے جیسے ان انسانوں سے بھی خائف و ہراساں ہو کر راہِ فرار اختیار کر جاتا ہے جن کی مونسی اور دم سازی اس کے وجود کی بقاء کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان سے ہی کچھ یوں اماں مانگتا ہے۔
رہے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑھئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئِی نہ ہو (غالب)       

صالح سماج اور مصلح:
مندرجہ بالا بحث سے یہ پتا چلتا ہے کہ صرف اور صرف صالح معاشرہ ہی انسان کی منزل و مقصود ہے۔ یہی معاشرہ اس کی تمام روحانی و مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سماج کا نقشہ اسلامی نظام معاشرت نے پیش کیا ہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے اس کا عملی نمونہ  دنیا کے سامنے رکھا۔ رسول  اکرم (ص) کے عملی نمونہ کو سامنے رکھ کر پورے عالم میں اجتماعیت کی درستگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ عالم اسلام پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلامی قوانین و اصول کی حدود میں ایسے معاشروں کو تشکیل دے جو تمام دنیا کیلئے نمونہ عمل ہوں لیکن ایک بات جو تمام مسلمانوں کے دل میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ صالح سماج کی تشکیل کارے دار والا معاملہ ہے اور تشکیل کے بعد بھی اس سماج میں ہر وقت خرابیوں کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ دراصل یہ ایک منفی سوچ ہے کہ مثالی سماج میں نقص و عیب پیدا نہیں ہونا چاہیئے۔
 
چنانچہ ماہر عمرانیات کا کہنا ہے کہ" انسانی سماج، جسم کی مانند ہے" یہ ماننا پڑے گا کہ انسانی سماج جامد و ٹھوس شئے نہیں کہ اسے ایک بار درست کیا جائے  تو پھر ہمیشہ کیلئے درست ہی رہے گا۔ سماج زندہ اشخاص کے مابین اشتراک عمل کا نام ہے، اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو گا کہ انسانی سماج نہ صرف ذی روح ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے۔ [1] فلسفہ حیات کے مطابق جہاں کہیں زندگی ہے وہاں لامحالا بیماری بھی ہو گی یہی وجہ ہے کہ ہر جاندار کو {جب تک وہ زندہ ہے} کسی نہ کسی چھوٹی بڑی بیماری کا خطرہ لگا رہتا ہے اور انسانی جسم میں جب مختلف بیماریوں کا اندیشہ رہتا ہے تو کیسے انسانی سماج کو مختلف مفاسد سے مستثنیٰ تصور کیا جائے۔ البتہ سماجی بیماریوں کا علاج جسمانی بیماریوں کے علاج سے کافی مشکل ہے۔ انسانی جسم میں جراثیم بیماری کو جنم دیتے ہیں اور سماجی بیماریوں کا ذمہ دار مفسد ہوتا ہے۔ مفسدین اپنے کردار کے لحاظ سے ان جراثیم سے مشابہ بلکہ اُن سے بدتر ہیں کیونکہ جب ڈاکٹر اپنی خاص صلاحیت سے ان جراثیم کی کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ جراثیم اپنی اصلی پہچان ظاہر کرنے سے کتراتےنہیں ہیں۔ یوں مریض بھی ان سے بچنے کیلئے آپریشن کی تکلیف اور دوا کی کڑواہٹ کو برداشت کرنے پر رضامند ہو جاتا ہے مگر مصلحین کے سامنے مشکل یہ ہے کہ سماجی جراثیم یعنی مفسدین روباہی سے اپنی پہچان چھپانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اپنے کردار سے بالکل متضاد شناخت ظاہر کرتے ہیں۔ قرآن کریم انکی کارستانیوں کو یوں پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں لیکن ہوشیار رہنا مفسد یہی لوگ ہیں....[2] اسلامی تاریخ میں اس آیت کی عملی مثال بار بار دیکھنے کو ملتی ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد جب سر ہائے شہداء کوفہ لائے گئے تو ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں اہل کوفہ سے کہا "شکر خدا کا جس نے حق اور اہل حق کو قوی کردار اور امیرالمومنین یزید بن معاویہ اور انکے گروہ والوں کی نصرت کی اور ۔۔۔۔ حسین بن علی کو اور انکے گروہ کے لوگوں کو قتل کیا"۔ [3]

حوالہ جات:
Introduction to Sociology, Vol. 1, p8 -1
2  ۔سورہ بقرہ آیت نمبر11
3-تاریخ طبری، ترجمہ سید حیدر علی طباطبائی ، ص ۲۸۴

خبر کا کوڈ : 327529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

aap eik kitab zror likhie
United Kingdom
very nice one
very nice Fida bhai
منتخب
ہماری پیشکش