1
0
Friday 14 Mar 2014 12:03

ایرانی انقلاب کا ماڈل

ایرانی انقلاب کا ماڈل
تحریر: مولانا خورشید احمد قانونگو

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے نوجوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

دین حق کی سربلندی کیلئے ہر وقت ایک ایسے امام و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جس کے دل میں حضرت اللہ، حضور اکرم سرور دو عالم (ص)، دین اسلام اور قرآن برحق کی آیات کا نور اور خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے گنج ہائے گرانمایہ ہمہ وقت ساتھ ساتھ رہیں، جس کے ذہن و قلب میں قوم کی فتح مندی کی تڑپ اور فکر مندی ہمیشہ موجود ہو، جس نے ان تمام تکالیف کو برداشت کیا ہو، جن کو انبیاء کرام (ص) کی سنت کی اتباع میں صحابہ عظام، اولیائے کرام اور بزرگان دین نے اپنے مراتب کے تحت برداشت کیا، جس کے اندر جھکاؤ بکاؤ اور تھکاوٹ کے نگیٹیو عناصر موجود نہ ہوں۔ ایسی مومنانہ شخصیات جہاں بھی ہوں، خدا کی طرف سے بخشی گئی ان کی انمول صلاحیتوں سے قوم کو ہرگز مایوس نہیں کرتی ہے، آیت اللہ روح اللہ خمینی (رہ) انہی نابغۂ روزگار انقلابی ہستیوں کے کارواں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں تک ان کی ایرانی قوم کو نصیب ان کی دینی و سیاسی رہنمائی اور بصیرت کا تعلق ہے تو امامؒ نے فرانس میں جلا وطنی کے وقت بھی اہل ایران کی بہترین رہنمائی سے انقلاب کو کامیاب ہونے کا ہرموقع فراہم کیا، ایران میں کہنے کو حکومت کسی غیر کی نہیں تھی بلکہ غیروں نے اپنے فاسد خیالات کو ایران کا اپنا شاہ کہلانے والے کے ذہن و قلب پر مسلط کیا تھا، اس ذہنی و فکری تسلط سے آزادی ومومنانہ زندگی گزارنے کے لئے امام خمینیؒ اور ان کے رفقاء اور بہ حیثیت مجمومی پوری قوم کو بے انتہا سختیاں جھیلنا پڑیں، یاد رکھیں استقامت کے اس کوہ گراں اور صبر و استقلال کے اس مجسمہ نے کامیابی نہیں ڈھونڈی بلکہ کامیابی خود ان کی منتظر تھی۔

میں اہل کشمیر کی سیاسی و دینی قیادت سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایرانی قوم پر مسلط ایک جابر بادشاہ جس کے وجود پر غیروں کے ذہنی و فکری تسلط اور بےدینی جمی تھی، سے چھٹکارا پانے کیلئے اہل ایران نے سینکڑوں پلیٹ فارم، متضاد نظریات اور منقسم قیادت کا سہارا لیا یا ایک ہی منزل، ایک ہی قائد اور ایک ہی منشور پر عمل درآمد کیا؟ ایرانی قوم نے ایک رہنما، ایک نظریہ، ایک قیادت کے تحت رضا شاہ پہلوی کے بےدین نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا، آج ہر سال قائدین ایرانی انقلاب کی سالگرہ مناتے ہوئے ہم یہ بھی تو ذرا سوچیں کہ کیا الگ الگ بولی اور الگ الگ تنظیموں میں بٹ کر اور عوام کو انتشار اور مغالطوں میں ڈبوکر اس طاقت کے شکنجے سے ہم گلوخاصی پاسکتے ہیں جو ہم پر مسلط ہے؟ واضح رہے قدرت نے ایران کے زخموں سے پارہ پارہ قلب و ذہن کے مرہم کیلئے امام خمینی (رہ) کو منصۂ شہود پر لایا، ان کو اللہ تعالیٰ نے توکل، استقامت اور بےشمار قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کے جاہ و جلال کے سامنے کسی مقتداء، تنظیم یا ذاتی نظریہ پیش کرنے کی جرأت نہ ہوئی، ایک نظریہ اور ایک تحریک کے تحت ایران میں ہمہ گیر انقلاب آیا جو آج تک امریکہ و دیگر سامراجی قوتوں کے گلے میں ہڈی کی مانند اٹکا ہے۔

اس انقلاب کو آج پھر سے زخمی کرنے کے لئے عالمی استکبار کوشاں ہے مگر ایرانی قوم کے اتحاد و اتفاق سے دشمن ان میں کوئی دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جب دشمن کے جہازوں نے اپنی زمین سے ایران کو تہس نہس کرنے کے لئے مکروہ پرواز کی تو امام خمینی کو خبر دی گئی، انہوں نے برجستہ فرمایا کہ کیا ہمارا خدا نہیں ہے، جب امام خمینی کے خدا نے اپنی غیبی طاقت بھیجی تو آج تک ان جہازوں کا سراغ حاصل کرنے میں امریکہ ناکام رہا ہے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیئے کہ انفرادی آزمائشیں، اجتماعی امتحانات، مصیبتیں اور آفات تو آتی رہیں گی بلکہ ان امتحانات سے ہمارے سرزمین کشمیر یا دوسرے خطوں کو دوچار ہونا پڑے گا مگر ان مصیبتوں اور مشکلات میں نیا پار کرانے کے لئے قوم کے پاس ایک ملاح، ایک نجات دہندہ اور جملہ قائدانہ اوصاف سے متصف رہنما لازماً قوم میں ہونا چاہیئے، تاریخ بتاتی ہے کہ جابر و ظالم حکمران نمرود کے سامنے جب صاحب توکل و استقامت پیغمبر حضرت ابراہیم (ع) خلیل اللہ کھڑے ہوئے تو نمرود کی خود ساختہ خدائیت زمین بوس ہوئی، جب فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ (ع) کلیم اللہ کھڑے ہوئے تو فرعون غرقِ نیل ہوا، حضرت رسول اکرم (ص) جب تشریف لائے تو ابوجہل کے ساتھ ساتھ قیصر و کسریٰ کی حکومت حضور اقدس (ص) کے جانثاروں نے زمین بوس کی، اس میں ہمارے لئے ابدی درس ہے کہ اگر ہمیں ایمان، استقامت، اتحاد و اتفاق، ایک نظریہ، ایک پلیٹ فارم نصیب ہو جائے تو ہم میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم اپنا سفینہ پارکریں گے کہ پھر دشمن کبھی ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا نام بھی نہ لے گا۔

اللہ تعالیٰ میرے استاد محترم پروفیسر عبداللہ شیداؔ کو جنت الفردوس نصیب کرے، انہوں نے کہا کہ جب میں ایران گیا تو مجھے ایران میں جمعہ کیلئے ساڑھے تین سومیل کا سفر کرنا پڑا کیونکہ وہاں صرف اجتماعی طور ایک نماز جمعہ کی جماعت کا اہتمام ہوتا ہے، یہاں کوچے کوچے میں جمعہ اور جمعہ اجتماعات کے وعظ و تبلیغ میں مسلکی، سیاسی و دینی اختلافی بحث و مباحثے اٹھانے کی ناروا کاوشوں سے نے ہمیں برباد کرکے رکھا ہے، سوا لاکھ لوگوں کی قربانی کے بعد بھی آج یہاں کی سیاسی قیادت تقسیم در تقسیم کے دروازے پر کھڑی ہے۔ میں اس بات کی طرف قیادت کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی قدآور شخصیت (جن کے ساتھ لوگوں کو موافقت یا اختلاف کرنے کا حق محفوظ ہے) نے جب ’’بائیس سالہ جدوجہد‘‘ کے بعد بات چیت کے دروازے پر ماقبل ہی سستے پر سودا کیا تو 1977ء فروری میں شیخ محمد عبداللہ سے ہندوستان نے دو سال کے بعد حمایت واپس لیتے ہوئے یہاں صدر راج نافذ کردیا، اور یہی سلسلہ ایک یا دوسرے رنگ میں آج تک جاری ہے۔ میں موجودہ مزاحمتی قیادت سے بصد ادب پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ اس مجوزہ بات چیت سے کیا حاصل کرنے جا رہے ہیں؟ آپ کو جواب دینا ہوگا کیونکہ یہ معاملہ سوا لاکھ انسانوں کے مقدس خون، لاکھوں بہنوں اور مائوں کی عصمت ریزیوں، ہزاروں نوجوانوں کی گم نامیوں، ہزاروں قیدیوں کی داستان الم، بےنام قبروں اور ہزاروں افراد کی جسمانی معذوری کی بنا پر عوام کی عدالت میں درج ہے۔

آپ سب جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ کس سودے کیلئے ہمیں اتنی عظیم قربانیاں دینی پڑیں؟ ہمیں معلوم ہے کسی سستے سودا کیلئے اغیار یہاں دینی و سیاسی قیادت کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشیں رچاتے ہیں، وقت آن پہنچا ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہم نے اتنی ساری قربانیاں پیش کرکے کیا کھویا؟ اور کیا پایا؟ ہر ایک کو اس کیلئے فکری مراقبہ کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی دعا ہے کہ ایرانی انقلاب کا ماڈل دیکھ کر ہمارے ذہن و قلب میں ایک مثبت تبدیلی کی لہر خدا تعالیٰ نصیب کرے اور ہماری سرزمین کشمیر میں ہماری اجتماعی و ملّی کامیابی کا جھنڈا سربلند رہے، آخر پر ہم اپنا اصولی عندیہ صاف کرنا چا ہتے ہیں کہ ہم بات چیت کے مخالف نہیں، مگر اس نتیجہ خیز مثبت بات چیت کے بعد یہ ضمانت ملنی چاہیے کہ ہماری سیاسی خرماں نصیبی کے دن لد جائیں گے اور ہمیں دینی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی، لسانی، روحانی، معاشی زندگیاں اپنے آقا و مولا کی مرضی کے مطابق بسر کرنے کے مواقع ملیں گے اور اسلاف کرام کی طرف سے تمام احسانات نہ صرف محفوظ ہونے چاہئیں بلکہ ان کی حفاظت پر اقوام عالم کی مضبوط ضمانت حاصل ہونی چاہئے تاکہ ہمارے آنے والی نسلوں کو ہمارے جیسے مصائب اور مشکلات سے پالا نہ پڑے۔ انشاءاللہ!

نوٹ: مضمون نگار جموں و کشمیر انجمن حمایت الاسلام کے صدر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 360534
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ممکن ہو تو مولانا صاحب کی مزید تحریریں شائع کی جائیں۔ شکریہ
ہماری پیشکش