6
0
Friday 14 Mar 2014 00:40
ڈرون حملوں میں کوئی عام شہری نہیں مرا!

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور قومی خاموشی؟

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور قومی خاموشی؟
تحریر: عرفان علی

کیا پچھلے سال امریکی سی آئی اے کے ڈرون طیاروں سے کئے گئے میزائل حملوں میں کوئی پاکستانی سویلین یعنی نہتا یا عام شہری نہیں مارا گیا؟ پچھلے سال روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان بھر میں شور مچایا جاتا رہا کہ امریکی ڈرون حملوں میں پاکستان کے عام شہریوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ کیا عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے اسی مسئلے کو بنیاد بنا کر صوبہ خیبر پختونخوا میں بعض سڑکوں پر نیٹو افواج کی گراؤنڈ لائنز آف کمیونیکیشن یعنی زمین کے راستے سامان کی ترسیل کو روکنے کے لئے دھرنے نہیں دیئے تھے؟ یہ سارے سوالات میرے ذہن میں آئے کیونکہ 11 مارچ 2014ء کو اقوام متحدہ کی کاؤنسل برائے حقوق انسانی کی جانب سے دہشت گردی سے نمٹنے کے دوران انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ کے لئے مقرر کئے گئے خصوصی روداد نویس بن ایمرسن نے اپنی تیسری سالانہ رپورٹ جاری کی۔ اس میں دعویٰ کیا کہ پچھلے سال ڈرون حملوں میں ایک بھی عام پاکستانی شہری نہیں مارا گیا۔

یہ خبر دنیا میں، میں نے بریک کی۔ روزنامہ بشارت نے اسے سپر لیڈ اسٹوری کے طور پر بدھ کے روز شایع کیا (http://www.basharat.com.pk/2014/03/12/index.php)۔ جمعرات 13 ستمبر کی سہ پہر ملک کے کثیر الاشاعت روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ پر نیویارک سے یہ چھوٹی سی خبر کے طور پر اپ لوڈ کی گئی (http://jang.com.pk/jang/mar2014-daily/13-03-2014/u13134.htm )۔ میں نے اصل دستاویز کا مطالعہ کرکے اس میں اپنے وطن کے بارے میں بیان کئے گئے اہم نکات پر مشتمل جامع خبر تیار کی تھی۔ کل 22 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ نو سالوں میں 2013ء وہ پہلا سال تھا جب ڈرون طیاروں سے کئے گئے میزائل حملوں میں ایک بھی عام شہری مرنے کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ بن ایمرسن نے رپورٹ میں مزید کہا کہ سال 2013ء  میں کل 27 ڈرون میزائل حملے کئے گئے یعنی ڈرون حملوں کی تعداد انتہائی کم رہی، حالانکہ 2010ء میں 128 ڈرون حملے کئے گئے تھے۔ 2014ء میں تاحال کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا گیا۔ جب سے باراک اوبامہ صدر بنے ہیں تب سے ڈرون حملوں کے درمیان یہ سب سے زیادہ طویل وقفہ ہے۔ اقوام متحدہ کے افغان مشن کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں 19 ڈرون حملوں میں 59 سویلین شہید ہوئے تھے۔

بن ایمرسن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دیگر فضائی حملوں میں ڈرون حملوں کی نسبت زیادہ شہری مارے جاتے تھے لیکن پچھلے سال شہری ہلاکتوں کی تعداد فضائی حملوں میں شہید ہونے والے عام شہریوں کی تعداد کا 40 فیصد تھی۔ یمن میں بھی ڈرون حملوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانوی شہری بن ایمرسن خود بین الاقوامی قانون کے ماہر اور برطانوی عدلیہ سے وابستہ رہے ہیں۔ جب ان کی پچھلی عارضی رپورٹ پر اقوام متحدہ کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی تو پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسے اپنی کامیابی قرار دیا تھا۔ کسی حد تک وہ مبارکباد کے مستحق بھی تھے کیونکہ ہمارے سفارت کاروں نے اس ایشو پر بہت محنت بھی کی تھی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سفارت کاروں کو ڈرون حملے صرف اس وجہ سے نامنظور ہیں کہ اس میں بیگناہ عام شہری جاں بحق ہوتے ہیں جبکہ انہیں اس بات کا کوئی افسوس نہیں کہ پاکستان کی حدود کے اندر کوئی دوسرا ملک اور وہ بھی زبردستی ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں گھس بیٹھنے والا امریکہ کوئی کارروائی کرکے ہماری جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اگر واقعی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو پاکستان کی آزادی و خود مختاری کی خلاف ورزی پر امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل سے رجوع کیا جاتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ ویٹو کر دیتا، لیکن ہم کہہ سکتے تھے کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا!

بہرحال اس حد تک بھی سفارتکاروں نے کوئی کارنامہ انجام دیا، تو نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہی تصور کیا جانا چاہئے۔ اصل مسئلہ تو ہمارے حکمرانوں کا ہے، اگر وہ دفتر خارجہ اور دنیا بھر میں اور خاص طور پر اقوام متحدہ میں موجود پاکستانی سفارتکاروں کو یہ کام سونپ دیتے کہ سلامتی کونسل میں قرارداد لانے کے لئے پیش رفت کریں تو وہ بھی اس ہدف کے حصول کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرتے۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے دیگر ممالک کی حدود کے اندر کسی غیر ملک کے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین اور متعلقہ ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خلاف حکمت عملی بنانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ وہ اگر پاکستان کی مجوزہ قرارداد کی حمایت کرتے تو بھی امریکہ کو مجبور کیا جاسکتا تھا، لیکن یورپی یونین کی اس قرارداد کے باوجود یورپی یونین کے اہم ترین ملک برطانیہ کی منصوبہ بندی یہ ہے کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد ڈرون ریپر طیاروں کا اسکواڈرن برطانیہ واپس بھجوانے کے بجائے انہیں یمن یا صومالیہ بھجوا دیا جائے۔

سلامتی کونسل میں قرارداد لانے کی ہماری اس تجویز سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ڈرون حملوں میں مرنے والے دہشت گردوں سے کوئی ہمدردی رکھتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں لیکن یہ پاکستان کی افواج کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کے سرحدی علاقوں میں ریاست پاکستان کی رٹ قائم کریں نہ کہ امریکہ کی۔ جس کا یہ کام ہے اسے تو نواز لیگی حکومت نے اس کام سے روک دیا ہے اور دہشت گردوں سے مذاکرات میں مصروف ہے، تو ایسی حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ بن ایمرسن کی رپورٹ کے خلاف برطانیہ کے ادارہ برائے تحقیقاتی صحافت کی وہ اسٹڈی بھی ریکارڈ پر رہے کہ ڈرون حملوں میں پچھلے سال کم از کم چار یا اس سے کچھ زیادہ عام شہری ڈرون حملوں میں مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ میں بھی امریکی ڈرون حملوں کی تعداد 27 بیان کی گئی ہے۔

کیا پاکستانی حدود میں کوئی عام شہری ڈرون حملوں میں مارا گیا۔؟ اگر مارا گیا تو اس کی تفصیلات کس کے پاس ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے صحافی کیوں یہ تفصیلات خبروں کی صورت میں قوم کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ افغانستان میں عام شہری امریکی فضائی حملوں میں شہید ہوتے ہیں تو ان کی تفصیلات بھی دنیا بھر میں نشر کر دی جاتی ہیں۔ یمن میں شہید ہونے والے عام شہریوں کی شناخت خود امریکی ایوانوں کے نمائندگان کے پاس ہوتی ہے اور ان شہداء کے لواحقین امریکہ میں شکایت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ آج 13 مارچ کو جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، اسی دن نیویارک ٹائمز میں امریکی حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے کیلی فورنیا سے منتخب ڈیموکریٹک رکن ایوان نمائندگان ایڈم بی اسکف کا مقالہ شایع ہوا ہے، جس میں نام لے کر بتایا گیا ہے کہ یمن میں دہشت گردوں کے مخالف فلاں فلاں شخصیات کو ڈرون حملوں میں شہید کیا گیا ہے۔

اسی لئے اس تحریر کے آغاز میں بندہ نے ایک اہم سوال اٹھایا تھا کہ کیا واقعی گذشتہ سال یعنی 2013ء میں کوئی عام پاکستانی شہری ڈرون حملے میں نہیں مارا گیا؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ پچھلے سال کے ڈرون حملوں میں بھی عام شہریوں کے مارے جانے کی خبریں دے چکے ہیں۔ سیاستدان بھی اس موضوع پر پورا سال کچھ نہ کچھ بولتے رہے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے سال ڈرون حملوں کا بے گناہ پاکستانی شہید کون ہے؟ کیا کسی کو اس کا نام پتہ معلوم ہے۔ کم از چار کے بارے میں تو برطانوی ادارہ برائے تحقیقاتی صحافت نے بھی انکشاف کر دیا ہے۔

منگل کے روز یہ رپورٹ جاری ہوئی، لیکن پاکستان میں سب خاموش ہیں۔ آج جمعرات کو دفتر خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ ہوئی، لیکن نہ کسی نے اس موضوع پر سوال کیا نہ ہی ترجمان تسنیم اسلم خان صاحبہ کو خود سے یہ اہم ترین ایشو یاد آیا۔ بن ایمرسن کی یہ رپورٹ اگر جھوٹ پر مبنی ہے تو دفتر خارجہ سمیت پاکستان کے متعلقہ سرکاری حکام اور وہ سیاستدان کیوں خاموش ہیں جو کہتے رہے ہیں کہ پچھلے سال بھی عام شہری مارے گئے تھے۔ انہوں نے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر کیوں نہیں کیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت اور وہاں کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا اس رپورٹ کے بارے میں کیا موقف ہے۔ یہ ہر طرف خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے! کچھ تو فرمایئے حضور!
خبر کا کوڈ : 361459
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Masha Allah Bar Waqt reporting aur comment par apka shukriya.
Pakistan
Thanks. Very much informative. Hope this trend will continue.
Pakistan
Pakistan ki hukoomat aur imran khan jawab daen ab koi radd-e-amal kyoon nahee, kyoon sb ko sanp soongh gaya hay.
Pakistan
Shabash meray bhai. qalmi jihad pr kKhuda ap ko apnay hifz aur aman mae rakhay. Ham in be his hukmarano aur siyasatdano sy waqif haen.
Pakistan
Thank u the team Islam Times. Very much informative article on current affairs. Keep it up.
سلام۔ حضور لاجواب معلوماتی کالم لکھنے پر آپ کے شکر گذار ہیں۔
ہماری پیشکش