1
0
Sunday 8 Feb 2015 16:23

سید حسین بدر الدین الحوثی فرزند قرآن

سید حسین بدر الدین الحوثی فرزند قرآن
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
گذشتہ جمعہ بروز 6 فروری 2015ء یمن کی انقلابی کمیٹی نے ملک میں دو سال کے لئے صدارتی کونسل اور عبوری پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ صدارتی کونسل اور پارلیمنٹ، عبوری دور میں ملک کا انتظام و انصرام چلائے گی جبکہ ملک کا آئین بدستور نافذ رہے گا، مبادا یہ کہ وہ انقلابی کمیٹی کی قرارداد سے براہ راست طور پر متصادم نہ ہو۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ شخصی آزادی اور حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اچھے ہمسائے کے اصول پر عمل درآمد کرتے ہوئے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوگی۔ قوم کی آزادی، حق خود ارادی اور اہم مفادات کے حصول کو ہر پرامن ذریعہ کو بروئے کار لاتے ہوئے یقینی بنایا جائے گا اور داخلی اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔

پانچ سو اکیاون اراکین پر مشتمل ایک عبوری پارلیمنٹ تشکیل دی جائے گی جو کہ معطل ہونے والی پارلیمنٹ کی جگہ کام کرے گی۔ ملک کی صدارت عبوری دور میں پانچ اراکین پر مشتمل صدارتی کونسل کے پاس ہوگی، پارلیمنٹ ان افراد کا انتخاب کرے گی اور انقلابی کمیٹیاں ان افراد کی توثیق کریں گی۔ یہ کونسل جسے بھی چاہے گی حکومت کا حصہ بنائے گی۔ انقلابی کمیٹیاں مملکت کی خود مختاری، امن و امان اور عوام کی آزادیوں کے لئے مناسب اقدامات اٹھانے کی ذمہ دار ہوں گی۔ عبوری حکام بشمول پارلیمنٹ ملک کے نئے آئین کے مسودے کا ازسر نو جائزہ لینے نیز دو سال کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کروانے کے ذمہ دار ہوں گے، تاکہ ملک اس عبوری حالت سے نکل سکے۔ انقلابی کمیٹیوں کی قرارداد کے منظر عام پر آتے ہی یمن میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

یمن کے اہم راہنما اور انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے اس اعلان کو نہایت خوش آئند قرار دیا۔ انھوں نے اپنے ٹی وی خطاب میں کہا کہ اس عمل سے قیادت کے فقدان کی سازش کا قلع قمع ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے سابق صدر اور وزیراعظم نے استعفٰی دے کر ملک کو تقریباً تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ سید عبدالملک الحوثی کا کہنا تھا کہ انقلابی کمیٹیوں کا اقدام نہایت احسن ہے اور یہ اقدام تمام یمنیوں کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یمن کے تمام گروہوں کے ساتھ اس وقت تک کام کرنے کے لئے آمادہ ہیں، جب تک وہ ملک کو متحد رکھنے کے لئے سرگرم ہیں۔

انھوں نے غیر ملکی قوتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو یمن کا مفاد عزیز ہے تو انقلابی کمیٹیوں کی قراردار انہی مقاصد کے لئے ہے۔ اس قرارداد کے حوالے سے امریکی نمائندے کا ردعمل بھی قابل غور ہے۔ یہ ردعمل جان کیری کی خلیجی ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ حل قبول نہیں اور نہ ہی انھیں یعنی عربوں کو یہ حل قبول ہے۔ امریکی نمائندے کا کہنا تھا کہ جان کیری نے عرب راہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ یمن میں اپنے روابط کو استعمال کریں اور اس حوالے سے اقدام کریں۔ امریکا کی خواہش تھی کہ یمن کے مسائل کے حل کے لئے سعودیہ اہم کردار ادا کرے، کیونکہ وہ یمن کو سب سے زیادہ مدد فراہم کرنے والا ملک ہے۔

قارئین کرام! اس موضوع پر لکھنے کا فیصلہ میں نے دو وجوہات کی بنا پر کیا۔ پہلی وجہ تو یمن کا امت مسلمہ کا ایک حصہ ہونا اور وہاں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ ہونا ہے۔ دوسری وجہ یمن کے بارے میں لکھے گئے مختلف مضامین ہیں جو میری نظر سے گذرے۔ گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کے خارجہ امور کے ذمہ دار نے ’’سقوط یمن‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا، جس میں وہ یمن میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "حالیہ 21 ستمبر (2014) ان جنگوں کا عروج تھا۔ اس روز عبدالملک الحوثی کی سرپرستی میں خلیجی ممالک کی ایک قدرے نئی مسلح تنظیم انصار اللہ نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر دارالحکومت صنعاء کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ عالم عرب کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی، اور کہا جا رہا ہے کہ آج سقوط یمن کا سانحہ ہوگیا۔
اسی شام قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال معمر (مشکوک ماضی رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی عبوری صدر عبد ربہ ھادی منصور، حوثی نمایندوں اور دیگر یمنی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو اتفاقی السلم والشراک (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور اب چند روز میں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونا ہے، جس کا وزیراعظم حوثی ہوگا۔"

علی گڑھ کے عالم فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی اپنے مضمون ’’یمن میں حوثی شیعوں کی فساد انگیزی‘‘ جو انھوں نے 2013ء میں سپرد قلم کیا، تحریر کرتے ہیں کہ "ایران نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ اس نے یمن میں اپنے نمائندے تیار کئے۔ اس نے حسین بدرالدین حوثی کو یمن میں شیعہ گردی کی مہم سونپی۔ حسین ایک زبردست کامیاب خطیب تھا اور اس پر مستزاد تشیع کا تبرائی و عزائی جذبات انگیز لہجہ۔ یہ شخص بھیڑ جمع کرنے اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ پھر انہیں "امامی" شیعی دینیات پڑھنے کے لئے تیار کیا اور اس کے لئے ایک انجمن بنائی۔ اس کام کے لئے اس نے سینکڑوں شیعہ نوجوانوں کو تیار کرلیا، یمن میں ان کے لئے امامی شیعہ دینیات کے پڑھنے پڑھانے کا انتظام کیا۔ ایرانی یونیورسٹیوں میں انہیں داخلہ دلوایا۔ ایرانی اسپتالوں میں اپنے چاہنے والوں کا علاج کرایا۔ ایران سے ان کو مالی تعاون دلوایا۔ انہیں ایران میں عسکری تربیت ملی، ہمدردی اور ہدایت بھی اور انہیں یمن میں شیعی انقلاب کا سپاہی بنا دیا گیا۔ حسین نے اپنی خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں سے زیدی شیعی قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا اور بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے شیشے میں اتار لیا۔"

ان تحریروں کے مطالعہ کے بعد حوثیوں کا جو تصور انسانی ذہن میں ابھرتا ہے، یہی ہے کہ جنگجوؤں کا یہ گروہ شیعوں میں طالبان کی کوئی قسم ہے، جو مختلف علاقوں کو اسلحہ اور طاقت کے زور پر فتح کرتی چلی جا رہی ہے، نیز یہ کہ یہ گروہ کسی پراکسی وار کا جزو ہے، جو ایران اور سعودیہ کے مابین لڑی جا رہی ہے، جس کا مقصد عالم اسلام میں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کو مزید گہرا کرنا ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کی مانند میرا بھی حوثیوں کے بارے میں یہی نظریہ رہتا، تاہم گذشتہ دنوں یمن کے ایک ٹی وی چینل پر مجھے سید حسین بدر الدین الحوثی (انصاراللہ) کے بانی کے حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اس انٹرویو کے لئے مجھے یمن کی تاریخ کے گہرے مطالعہ اور وہاں کے حقیقی حالات سے آگاہی کی ضرورت تھی۔ میں نے پہلے پہل تو اردو، فارسی اور انگریزی معلومات پر اکتفا کیا، تاہم ان منابع میں مجھے کہیں بھی سید حسین بدر الدین الحوثی کے ذاتی موقف سے آگاہی نہ ہوئی۔ مذکورہ بالا ہر زبان میں حوثیوں کو ایک مخصوص عینک سے دیکھا گیا تھا۔

انگریزی اخبارات اور تجزیات کے مطالعہ کے بعد مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ حوثی کوئی باغی گروہ ہے، جو ملک میں جمہوریت کے خلاف ہے اور حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ اردو منابع پر حوثیوں سے متعلق معلومات دو قسم کی ہیں، ایک قسم کا کچھ حوالہ میں نے پیش کیا، دوسری قسم کی معلومات فارسی موقف کا اردو ترجمہ ہے۔ فارسی نقطہ نظر کو دیکھا تو ’’اویس خمینی‘‘ اور بسیج یمنی جیسی اصطلاحات نظر سے گزرتی ہیں، جن کا مطالعہ کرنے کے بعد کوئی بھی قاری خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتب سے ہو محترم عبدالغفار عزیز کے اس نقطہ نظر کو درست مانے گا کہ
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یمن میں "انصاراللہ" اور حوثیوں کا اقتدار بنیادی طور پر ایران کا اقتدار ہے۔

ایرانی اخبارات ہی نہیں، ذمہ داران بھی اس کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں۔ تہران سے منتخب رکن اسمبلی علی رضا زاکانی کا یہ بیان عالم عرب میں بہت نمایاں ہو رہا ہے کہ ’’ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔ بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعاء۔‘‘ اگر یہ بیان حکومتی کارپردازان کے دل کی آواز سمجھا جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ تمام خلیجی ریاستیں تین اطراف سے ایرانی گھیرے میں آگئی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نفوذ کی اس لڑائی پر فرقہ وارانہ تیل کی بارش بھی کی جا رہی ہے۔ طرفین کے ذرائع ابلاغ اشتعال انگیز سرخیاں جما رہے ہیں: ’’انقلابیونِ یمن پاکسازی تکفیری ھا را آغاز کردند‘‘ (ایرانی روزنامہ کیہان)، یمنی انقلابیوں نے تکفیریوں کا صفایا شروع کر دیا۔ ’’حوثیوں کی صفوی یلغار کو ناکام کرنا، یمن کا ہی نہیں، مکہ اور مدینہ کا دفاع ہے۔‘‘ (معروف کویتی دانشور ڈاکٹر عبداللہ نفیسی)۔

خداوند کریم کا شکر ہے کہ میں نے ان تمام منابع پر اکتفا نہ کیا، بلکہ حوثیوں کے موقف کو خود سید حسین بدر الدین الحوثی اور ان کے بھائی سید عبدالملک الحوثی کی زبانی سنا، جس سے مجھے حقیقت حال کو سمجھنے کا موقع ملا۔ سید حسین بدر الدین الحوثی، یمن کے زیدی عالم دین سید بدرالدین الحوثی بن سید امیر الحوثی کے بڑے فرزند ہیں۔ سید حسین نے سوڈان سے شریعہ میں ماسٹرز کیا، آپ کا خاندان یمن کے علمی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کا تعلق امام حسن بن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسل سے ہے۔ آپ کے جد سید یحییٰ بن حسین بن قاسم رسی جو کہ حسن مثنٰی کے فرزندوں میں سے ہیں، اہل یمن کی دعوت پر 284ھ میں یمن آئے، سید یحییٰ نے یمن میں زیدی مسلک کی بنیاد رکھی اور حکومت قائم کی۔ سید یحییٰ یمن میں الھادی الی الحق کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔

284ھ سے 1962ء تک یمن میں الھادی الی الحق کی اولاد میں سے مختلف افراد نے یمن پر حکومت کی۔ امامت کا یہ سلسلہ وراثتی نہیں بلکہ عقیدتی تھا۔ زیدی عقیدے کے مطابق اولاد علی و بتول علیہم السلام میں سے کوئی بھی شخص جو عالم ہو، موجودہ سیاسی حالات پر دسترس رکھتا ہو اور مبارز ہو، امام بن سکتا ہے۔ زیدی فقہی لحاظ سے امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں اور عقیدتی لحاظ سے ان کا مسلک کم از کم امامت کے مسئلے پر شیعہ اثنا عشری سے جدا ہے۔ بعض ادوار میں زیدی اماموں کی حکومت مکہ تک وسیع تھی۔ شریف مکہ زیدی اماموں کی جانب سے متعین کردہ فرمانروا تھا۔ زیدیوں کی امامت کا دور عدل و انصاف کی حکومت اور علم دوست قیادت کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بہت سے علمی کارنامے منصہ شہود پر آئے، جن کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ سید حسین بدر الدین الحوثی اور ان کے والد سید بدر الدین الحوثی نے شروع کیا ہے۔

یمن میں سلفی افکار کی ترویج اور سرایت نیز ہمسایہ ملک سعودیہ کی جانب سے مالی اور فکری معاونت کو دیکھتے ہوئے سید بدر الدین الحوثی اور ان کے ایک ساتھی عالم دین نے زیدی افکار کے تحفظ کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک میں انہوں نے یمن کے مختلف علاقوں میں مدارس، ثمر کیمپس اور ثقافتی اداروں کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کا سیاسی ونگ حزب حق کے نام سے جانا جاتا تھا۔ سید بدر الدین الحوثی نہایت سادہ طبیعت اور زہد کے حامل عالم دین تھے، ان کی آواز نے زیدی نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچا، یوں لاکھوں زیدی نوجوان اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ اس تحریک میں نوجوانوں کو زیدی مکتب کے عقائد، اخلاق اسلامی، علمی سرمایہ سے آگاہی دی جاتی تھی، ساتھ ساتھ انھیں عملی جدوجہد کی جانب بھی راغب کیا جاتا تھا۔ یمن کا سابقہ صدر علی عبد اللہ صالح جس نے تقریباً 33 سال یمن پر حکومت کی زیدی مسلک سے ہی تھا۔ یمنی افواج اور حکومتی اداروں میں زیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک ہی مسلک سے تعلق کے سبب ابتدا حکومت اور اس تحریک کے تعلقات دوستانہ تھے۔ حزب حق کے پلیٹ فارم سے بہت سے زیدی ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے، سید حسین بدر الدین الحوثی بھی ان میں سے ایک ہیں۔

معاملات اس وقت دگر گوں ہوئے جب علی عبداللہ صالح نے عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اتحادی افواج کا ساتھ دیا۔ سیاسی طور پر سید حسین بدر الدین الحوثی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے رہے۔ سید حسین نے حزب حق کو شباب المومن کا نام دیا اور اس تحریک کو ایک شعار بھی دیا۔ اس شعار کو عربی زبان میں الصرخہ فی وجہ المستکبرین بھی کہتے ہیں۔ سید حسین بدر الدین الحوثی ایک بلیغ خطیب تھے، دھیمے لہجے میں بات کرتے ہوئے آپ اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ مطالعے کے دوران میں مجھے احساس ہوا کہ سید حسین بدر الدین الحوثی کے خطابات فقط لفاظی نہ تھے بلکہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر ایمان رکھتے تھے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی بات لوگوں کے دلوں میں اترتی تھی۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کی عوامی پذیرائی میں یقیناً زیدیوں میں تصور امامت کا بھی عمل دخل ہے۔

سید حسین بدر الدین الحوثی عالم اسلام کی تاریخ اور اس کے مسائل کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے، وہ عالم اسلام کے مسائل اور یمن کے داخلی مسائل سب سے واقف تھے۔ ان کا خطاب قرآن کی آیات پر مشتمل ہوتا تھا۔ وہ آیات قرآنی کو عالم اسلام کے موجودہ حالات سے مطابقت دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمارے مسائل کا حل قرآن پڑھنے میں نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے میں ہے۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کہنا تھا کہ اگر یہ قرآن چودہ سو سال پہلے کے عرب معاشرے کے اندر حرکت پیدا کرسکتا ہے تو ہمارے اندر یہ حرکت کیوں پیدا نہیں کرتا۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے دشمن کا درست اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خطابات میں صہیونی ریاست اور اس کے منصوبوں کی جانب بار بار اشارہ کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ قرآن کریم ہمیں یہود سے کیسا رویہ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ عرب حکمرانوں کو بھی کہتے تھے کہ قرآن تمہیں جس چیز سے منع کرتا ہے، تم عملی طور پر وہی کام کر رہے ہو۔

سید حسین بدر الدین نے یمن میں ایک قرآنی ثقافت کی بنیاد رکھی۔ آپ نے نوجوانوں کو تلقین کی کہ قرآن کو پڑھیں مت اس کے احکامات پر عمل کریں، تاکہ آپ کی زندگیوں میں قرآنی اخلاق، قرآنی ثقافت اور قرآنی بصیرت کو فروغ ملے۔ وہ امت کے افتراق کو سب سے بڑی مصیبت کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن ہمیں امت واحدہ کہتا ہے اور ہم نے اپنے آپ کو طائفوں، مسالک اور مکاتب میں تقسیم کر لیا ہے۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا کلام نوجوانوں کے دل و دماغ میں یوں اثر کرتا کہ ان کی زندگیاں بدل جاتیں۔ آپ نوجوانوں کو دیئے گئے شعار پر بہت زور دیتے اور کہتے کہ حکم قرآن ہے کہ ہم استکبار کے خلاف آواز بلند کریں اور حالات سے اس شعار کو یوں تطبیق دیتے کہ اگر آپ نے اس شعار کو بلند کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ نہ کیا تو سمندر کی جانب دیکھو، آپ تھوڑی دیر ہی سمندر پر غور کریں گے تو آپ وہاں امریکیوں، فرانسیوں، برطانویوں اور جرمنوں کو دیکھیں گے، جو آپ کے ملکی یعنی دیار عرب میں گھسنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ تم مردہ باد ہو، وہ تمہیں حقیقت میں مار دیں گے۔ وہ تمہارے شرف، کرامت، عزت، دین اور روح کو فنا کر دیں گے۔ وہ تمہارے بیٹوں اور بیٹیوں کے کردار کو برباد کر دیں گے اور تم اپنے آپ کو ذلت کی گہرائیوں میں پاؤ گے۔

انھوں نے اپنے نوجوانوں کو بتایا کہ سیدنا حسین فرماتے تھے کہ ’’ذلت ہم سے دور ہے۔‘‘ آج یمن کے ہر جوان کی زبان پر یہ نعرہ گونجتا ہے کہ ھیھات من الذلۃ یمنی نوجوان جب یہ نعرہ بلند کرتا ہے تو وہ اس کا گہرا ادراک رکھتا ہے۔ اس نے اپنے قائد کو اس راہ میں جان قربان کرتے دیکھا ہے۔ آج سید حسین بدر الدین الحوثی یمن میں حسین العصر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انصار اللہ سید حسین بدر الدین الحوثی کے تیار کردہ نوجوانوں کی تحریک ہے، جن کے ذہن فکر قرآنی سے منور ہیں۔ سید کے جملے آج لوگوں کی زبانوں پر ہیں اور عالم اسلام میں ہونے والے واقعات اور ان میں مغرب کی دخالت سید کے جملوں پر دلیل ہے۔ یمن کے نوجوان جب لیبیا، شام، عراق، افغانستان، مصر، تیونس کے حالات کو دیکھتے ہیں تو انھیں سید حسین بدر الدین کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ سید فرماتے تھے، اصل ارہاب یا دہشتگرد یہ ہیں، جنھوں نے پوری دنیا میں آگ لگائی ہوئی ہے۔ یہ منبع ارہاب ہیں، یہ منبع فساد ہیں، انھوں نے اللہ کی مخلوق پر ظلم کیا ہے۔ انھوں نے ان کی معیشت، سیاست، اخلاق اور کردار کو تباہ کیا ہے۔ عربوں کو امت قرآن ہونے کے ناطے ان کے خلاف قیام کرنا ہے۔

قارئین کرام! سید حسین بدر الدین الحوثی ایک مستقل شخصیت کا نام ہے۔ سید حسین کے نظریات کا عالم اسلام کے کسی اور خطے میں پایا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہر وہ قوم اور شخص جو پیغام قرآن کو اس کے حقیقی معنی میں پڑھے گا اور اس پر عمل کرے گی، اس کے نظریات ویسے ہی ہوں گے جیسے سید حسین بدر الدین الحوثی کے تھے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کون پہلے تھا اور کون بعد میں۔ سید حسین بدر الدین الحوثی کا پیغام آج یمن میں گونج رہا ہے۔ علی عبد اللہ صالح کی استبدادی حکومت کے خاتمے کے بعد آج کا یمن ایک آزاد اور خود مختار عرب ریاست کی جانب گامزن ہے۔ جہاں تک فرقہ وارنہ جنگ کا سوال ہے تو یہ نظریہ ایک مخصوص فکری وابستگی کے سوا کچھ نہیں۔

سید حسین بدر الدین الحوثی اور ان کی تنظیم انصاراللہ اگر شیعہ ہے، جو کہ نہیں ہے، تو علی عبداللہ صالح کونسا سنی تھا۔ ان دونوں کا فقہی اور عقیدتی مسلک ایک ہی تھا، تاہم ان کی افکار مختلف تھیں۔ سعودیہ کے حاکم علی عبداللہ صالح کے سب سے بڑے حامی تھے اور سید حسین بدر الدین الحوثی کے سب سے بڑے مخالف۔ حماس کا مسلک مالکی ہے، اگر یہ مسلکی جنگ ہے تو ایران کو کبھی بھی غیر مسلک کا ساتھ نہیں دینا چاہیے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سعودیہ حماس کو دہشت گرد کہتا ہے اور ایران اس کی مدد کرتا ہے۔ سوڈان اور الجزائر کی تحریکیں شیعہ تحریکیں نہ تھیں، اس کے باوجود ان تحریکوں کو عرب حکمرانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہوا جبکہ ایران نے ان تحریکوں کی حمایت کی۔ دور کیوں جاتے ہیں مصر میں اخوان کی حکومت شیعہ حکومت نہ تھی، اس کے باوجود سعودیہ اور دیگر عرب حکمرانوں نے اس کے خاتمے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا جبکہ ایران اس کا حامی تھا۔ مسئلہ اگر شیعہ سنی کا ہی تھا تو سعودیہ موجودہ ایرانی حکومت کی طرح شاہ ایران کی بھی مخالفت کرتا اور اس کے خلاف بھی اعلان جنگ کرتا۔ لہذا مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں بلکہ حق و باطل کا ہے۔ اگر ہم عالم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان مسائل کو عینکیں اتار کر دیکھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 438524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

amjad ali
Pakistan
mashallah agha jan Allah ap ki tofiqat ma azafa farmaya
ہماری پیشکش