0
Friday 21 Aug 2015 17:46

فتح مبین

فتح مبین
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان

بوڑھا استعمار برطانیہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کچھ ایسے مسائل کو پیدا کرنے میں کامیاب رہا کہ جس کے باعث دنیا کے متعدد خطے مسائل کا شکار ہیں اور ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ امن و امان کا ہے۔ برطانوی سامراج کی جانب سے پیدا کردہ مسائل میں اہم ترین مسائل میں مسئلہ فلسطین ہے کہ جس کی بنیاد برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے اعلان جو کہ 1916ء میں منظر عام پر آیا اور اسی طرح 1925ء میں خلافت عثمانیہ کا زوال بھی برطانوی سامراج کی بڑی سازشوں میں سے ایک سازش تھی۔ بہر حال اس طرح کی متعدد سازشوں کے باعث ایشیاء میں جو واقعات رونما ہوئے، ان میں پاکستان اور بھارت کی آزادی کے دوران مسئلہ کشمیر کو پیدا کرنا، اسی طرح 1948ء میں فلسطین پر غاصب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لانا برطانوی بوڑھے استعمار کے کارناموں میں نمایاں ترین کارنامے ہیں۔ اسرائیل جو برطانوی ایماء پر سرزمین فلسطین پر وجود میں آیا اور پہلے روز سے ہی فلسطینیوں پر اپنے مظالم کا سلسلہ اس طرح شروع کیا کہ فلسطینیوں کو گاجر اور مولی کی طرح کاٹا جاتا رہا، لیکن مظلوموں کی مدد کرنے والا کوئی نہ رہا، عربوں نے اس دور میں اسرائیل سے جنگیں تو لڑیں، لیکن عرب خائن حکمرانوں کی خیانت کاریوں کے باعث جہاں یہ لوگ فلسطین کو صیہونی شکنجہ سے آزاد نہ کروا سکے، وہاں اپنے ممالک کی زمینوں کے ٹکڑے بھی اسرائیل کو دے بیٹھے۔

اسرائیل کے قیام سے قبل ہی صیہونی نظریہ کے بانی اور صیہونی تحریک کے سرکردہ تھیوڈر ہرٹزل نے صیہونیوں کے لئے ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کر دیا تھا کہ جس کی سرحدوں کو نیل سے فرات تک بیان کیا گیا تھا، اپنے اس صیہونی شدت پسند نظریئے کو مستحکم کرنے کے لئے صیہونیوں نے تحریف شدہ تورات میں اپنی من پسند آیات نکال کر بیان کیں اور دنیا بھر میں شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں) کو قائل کیا کہ فلسطین پر ان کا حق ہے اور ان کی ریاست کی سرحدین نیل سے فرات اور مکہ مکرمہ تک جا پہنچتی ہیں۔ اب ذرا حالات کا جائزہ لیجئے تو 1916ء کے اعلان بالفور میں کہا گیا کہ فلسطین پر صیہونیوں کا حق ہے، اسی طرح خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ مکہ مکرمہ یعنی حجاز میں آل سعود کی حکمرانی کو قائم کیا گیا، یقینا دونوں واقعات باہم ربط رکھتے تھے، جس کا دنیا آج کے دور میں مشاہدہ کر رہی ہے اور ماضی میں بھی عرب اسرائیل جنگوں میں اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس خاندان کی حکمرانی کے قیام کے پیچھے بھی وہی عناصر سر فہرست رہے، جو فلسطین میں غاصب اسرائیلی ریاست کے قیام کے لئے سرگرم عمل تھے۔ بہرحال اسرائیل اپنے \'\'اسرائیل کبریٰ\'\' کہ جس کی سرحدیں نیل سے فرات اور مکہ مکرمہ تک جا پہنچتی ہیں، کا خواب لئے خطے میں کشت و خون کا بازار گرم کرتا رہا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ماضی میں عرب افواج کے ساتھ متعدد معرکہ آرائیوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وہ خطے میں براہ راست فوجی مداخلت کے ساتھ داخل ہوگا اور اس طرح پورے غرب ایشیا پر اپنی ریاست قائم کر لے گا۔

اپنے اسی ناپاک عزائم کو لئے اسرائیل نے 1976ء تک کی عربوں سے لڑی جانے والی جنگوں کے بعد 1978ء میں فلسطین کی زمینی سرحدوں کے ساتھ موجود ممالک میں سے لبنان کا انتخاب کیا اور یہاں پر اپنی افواج کو چڑھائی کا عندیہ دے دیا، 1982ء یعنی چار سال کے عرصے میں صیہونی افواج لبنان کے قلب یعنی دارالحکومت بیروت تک قابض ہونے میں کامیاب ہوگئیں۔ اب یہاں لبنانی حکومت صرف نام کی رہ چکی تھی، جبکہ اصل حکمرانی اسرائیل کی تھی، اس منصوبہ بندی میں لبنان کے بعد شام اور عراق اور اسی طرح پھر افغانستان اور پاکستان تک آنا تھا جبکہ دوسرے زمینی راستوں کے ذریعے ایران، کویت اور مکہ مکرمہ صیہونیوں کا اصلی ہدف تھے۔ واضح رہے کہ 1948ء سے 1976ء تک ہونے والی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل پہلے ہی مصر، شام اور اردن کے متعدد علاقوں پر فوجی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ حتٰی 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں تو مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس بھی صیہونی شکنجہ میں چلا گیا۔ 1982ء میں اسرائیل پورے لبنان پر قابض ہوچکا تھا، اب انتظار تھا کہ شام کی طرف پیش قدمی کی جائے، لیکن اس راستے میں ایک رکاوٹ پیدا ہوئی اور یہ رکاوٹ اسلامی مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی، جو لبنان کی سرزمین سے اٹھی اور نوجوانوں نے اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کے خلاف مورچہ بند ہو کر کارروائیاں شروع کر دیں۔

شروع شروع میں یہ کاروائیاں محدود رہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمت نے مزید کامیابیاں حاصل کیں اور لبنان کے مختلف علاقوں میں صیہونی افواج کو ہزیمت اٹھانا پڑی، اوائل میں اسلامی مزاحمت منتشر کارروائیاں کر رہی تھی، لیکن بعد میں اس اسلامی مزاحمت کو حزب اللہ لبنان کا نام دیا گیا اور اس گروہ نے اسرائیل کے ساتھ اٹھارہ برس تک زبردست جنگ لڑی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25 مئی 2000ء کو غاصب اسرائیل کی صیہونی افواج کو شکست اور ہزیمت کے ساتھ لبنان سے فرار ہونا پڑا اور ان کے وہ تمام منصوبے کہ جن میں شام، عراق، افغانستان، پاکستان سمیت ایران اور کویت اور مکہ مکرمہ تک اپنی سرحدوں کو پھیلانا تھا، لبنان کی سرزمین پر اسلامی مزاحمت کے سامنے دم توڑ گئے۔ 2000ء میں لبنان اسرائیلی شکنجہ سے آزاد ہوگیا، اس آزادی کے لئے لبنان نے ہزاروں جوانوں کی قربانی دی، جو صیہونی افواج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو باقی رہ گئے، انہوں نے عزت و سربلندی کے ساتھ اپنا سر فخر سے بلند کیا اور آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔

اسرائیل نے اپنی اس ہزیمت کا انتقام لینے کے لئے 2000ء کے بعد مختلف کارروائیاں کیں، جن میں لبنان پر چھوٹے چھوٹے حملے اور حزب اللہ کے جوانوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر بزدلانہ کارروائیاں شامل ہیں، اسرائیل اپنی ماضی کی شکست کے انتقام اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بے تاب رہا اور بالآخر ایک مرتبہ پھر 2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کر دی اور بڑے پیمانے پر زمین، فضا اور سمندر سے لبنان پر گولہ باری شروع کر دی، جس کے نتیجہ میں لبنان کا پورا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد کر دیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمت حزب اللہ کہ جو نہ صرف لبنان کا دفاع کر رہی ہے، بلکہ فلسطین میں سرحد پار صیہونی مخالف کارروائیوں میں بھی شریک ہے، اس گروہ کا خاتمہ کہا جائے۔ یہ جنگ 33 روز تک جاری رہنے کے بعد اسرائیل کی درخواست پر عالمی برادری کی جانب سے دبائو کے تحت بند ہوگئی، اس جنگ میں اسرائیل کو ماضی کی نسبت دس گنا زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور جنگ بندی کے دو روز بعد اسرائیل کے وزیر جنگ شمعون پیریز نے اعتراف کیا کہ وہ اس جنگ کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، اس طرح حزب اللہ کو ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے مقابلے میں فتح مبین کا اعزاز حاصل ہوا اور اس طرح 14 اگست 2006ء کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد پورے لبنان اور شام میں جشن منائے گئے۔

یہ دوسرا موقع تھا کہ جب اسرائیل کے \'\'اسرائیل کبریٰ\'\' کے خواب کو اسلامی مزاحمت حزب اللہ نے ناکام بنا دیا تھا اور لبنان کا دفاع اس طرح کیا کہ آج نو برس بیت جانے کے بعد اسرائیل کی دوبارہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ لبنان پر میلی آنکھ رکھے، البتہ اب اسرائیل کی جانب سے داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اسلامی مزاحمت کی فتح مبین ان تمام سازشوں کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے۔ کچھ دن قبل ہی لبنان میں فتح کے نویں سال کے موقع پر عظیم الشان اجتماع منعقد ہوئے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور لبنان کی فضائیں امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس موقع پر شہدائے اسلامی مزاحمت کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کی توسیع کے ناپاک منصوبوں میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے، لیکن شام، عراق اور دیگر عرب ممالک کے اندر داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرکے لبنان کی اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے، تاکہ اپنے اسرائیل کبریٰ کے خواب کی تکمیل کی راہ میں اسلامی مزاحمت کو راستے سے ہٹایا جائے، لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں، اللہ ان کی مدد کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 481150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش