3
Monday 14 Sep 2015 22:09

یمن کا حال اور مستقبل کا منظر نامہ(1)

یمن کا حال اور مستقبل کا منظر نامہ(1)
تحریر: عرفان علی

جب یہ سطور قلم بند کر رہا ہوں تو یمن کے دارالحکومت صنعا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے جارح غیر ملکی افواج اور ان کی نیابتی جنگ لڑنے والوں کے حملوں میں شدت آچکی ہے۔ جب پچھلے ہفتے میں نے یمن کی صورتحال پر خود کو اپ ڈیٹ کیا تھا تو اس وقت تک شمالی صوبہ ال حجہ سے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی فضائی حملے میں 36 عرب مسلمان شہری شہید ہوئے ہیں۔ ال حجہ صعدہ اور حدیدہ ک درمیان سعودی سرحد پر واقع یمنی صوبہ ہے۔ دوسری طرف غالباً سعودی صوبہ جزان ہے اور اس کے برابر میں سرحدی پٹی پر العسیر کا تھوڑا سا حصہ اور اس کے بعد نجران کا علاقہ ہے۔ یمن کے صوبے صوبہ الحجہ اور حدیدہ کا ایک سرا بحر قلزم یا بحیرہ الاسود (Red Sea) کے کنارے پر واقع ہے۔ خلیج عدن کی طرف سے جب سرخ سمندر کی جانب سفر ہوتا ہے تو لھج (لاھیج) اور اس کے بعد تعز صوبہ کا ایک سرا یہیں واقع ہے اور تعز ہی کے ساتھ حدیدہ صوبہ کا ایک سرا ملتا ہے۔

یمن کا محل وقوع سمجھ لیں کہ عمان (Oman) کی سمندری پٹی سے سفر کریں تو سمندر کنارے حضر موت صوبہ کا ایک سرا، ال مکلیٰ Mukalla بالکل کنارے پر، اس کے بعد ابیان کا علاقہ زنجبر اور اسی پٹی پر عدن واقع ہے۔ عدن کے ساتھ لھج ہے۔ سمندر کے دوسری طرف جبوتی اور اریٹیریا ہیں۔ یعنی یہ براعظم کا وہ سرا ہے، جو یمن کے عین سامنے واقع ہے۔ لیکن جبوتی سے بھی پہلے خلیج عدن کے سامنے صومالیہ واقع ہے۔ اریٹیریا کے ساتھ سرخ سمندر کے کنارے پر سوڈان اور اور اس کے بعد مصر کا ایک سرا واقع ہے۔ یعنی موخر الذکر دونوں ممالک بھی سعودی عرب کے عین سامنے واقع ہیں۔ اسی سمندر سے ایک راستہ بحر متوسط (بحیرہ روم) تک جاتا ہے اور وہاں اس کا نام نہر سوئز یا سوئز کینال ہوجاتا ہے۔ مصر اور سعودی عرب کے درمیان یہی سمندر جب فلسطین اور اردن کی جانب مڑتا ہے تو اسے خلیج عقبہ کہتے ہیں اور مقبوضہ فلسطین (یعنی جعلی ریاست اسرائیل) کی بندرگاہ اسی طرف واقع ہے۔

یہاں محل وقوع بیان کرنے کا مقصد یہ نکتہ واضح کرنا ہے کہ عرب لیگ او عربوں کی خلیج تعاون کاؤنسل نے مل جل کر ایک عرب مسلمان ملک پر جنگ مسلط کرکے ہنستے بستے علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا، لیکن جعلی ریاست اسرائیل کی سمندری ناکہ بندی جو اس سے بھی زیادہ آسان اور انتہائی کم بجٹ پر ممکن تھی، اس سے اجتناب کر رکھا ہے۔ یہیں سے ایک عام انسان، ایک عام مسلمان اور ایک عام عرب آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ عرب کے خائن حکمرانوں نے خائن حرمین بے شرمین کی محبت میں ایک ناقابل معافی انسانیت، اسلام اور عرب دشمن سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

ماضی میں یہ ناچیز اس موضوع پر مختلف زاویوں سے لکھ چکا ہے اور آج اس کی تکرار سے حتی الامکان گریز کو ترجیح دوں گا۔ آج بندہ آپ کو اپ ڈیٹ کرنا چاہتا ہے۔ اپ ڈیٹس یہ ہیں کہ یمن کے مستعفی صدر جو آج کل یمن سے باہر اپنے غیر ملکی آقاؤں کے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، وہ زیدی حوثی تحریک سے امن مذاکرات کے ذریعے نئی فریب کاری میں مصروف ہیں۔ چونکہ عمان اس جنگ میں اپنے خلیجی اتحادی عربوں کے ساتھ شریک نہیں ہوا، لہٰذا امن مذاکرات مسقط میں ہو رہے ہیں۔ امن عمل کے باوجود خائن عرب اتحاد اور ان کی نیابتی جنگ لڑنے والوں نے یمن کو جنگ اور دہشت گردی کی تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ جس تعز صوبے کی بات کی، اس میں مستعفی صدر منصور ہادی عبد ربہ کے وفادار دہشت گردوں نے شیخ سعود ال مخلفی (Mekhlafi) کی قیادت میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جون میں کوہ جرا میں حوثی تحریک سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اب اگست میں وہاں اس گروہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کا کنٹرول ہوچکا ہے اور اس پر جشن بھی منایا گیا ہے۔

یمن کے مستقبل کا تعین نومبر تک ہونے کا امکان ہے، کیونکہ حملہ آور جارحین اور ان کی نیابتی جنگ لڑنے والوں نے ایک فوجی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ یمن کے علاقائی جغرافیہ کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان کا اندرونی جغرافیہ بھی سمجھا جائے۔ حضر موت یمن کا صوبہ بلوچستان ہے۔ یہ صحرائی صوبہ سعودی عرب کی بین الاقوامی سرحد پر یمنی صوبہ ال جوف (جعف) کے ساتھ واقع ہے۔ اندرونی طور پر اس کا ایک سرا ال جوف (جعف)، اس کے برابر میں مآرب (معارب) اور شبوہ Shabwa صوبوں سے ملتا ہے تو دوسری طرف خشکی پر یہ سعودی عرب کی پٹی پر عمان کے ساتھ ملتا ہے، جبکہ عمان کے ساتھ بین الاقوامی طویل سرحد پر مھرا Mahra صوبہ بھی واقع ہے۔ حضر موت ہی کی حدود میں ال مکلٰی کی بندرگاہ آتی ہے۔ اس صوبہ کے علاقے ال عبر میں نیابتی جنگ لڑنے والے مسلح گروہوں کو فوجی تربیت دی جا رہی ہے۔ انہیں زمینی فوجی حملے میں استعمال کیا جائے گا۔ منصور ہادی نے اپنی فورسز یا مسلح باغی گروہ کو پاپولز ریزسٹنس کا جعلی نام بھی دے رکھا ہے۔ اس کی سربراہی بریگیڈیئر ہاشم الاحمر کر رہا ہے، جو حاشد قبیلے کے سربراہ عبد العزیز الغوی کا قریبی دوست ہے اور یہ قبائلی سردار بھی اس جنگ میں یمن کے عوام کے خلاف دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

اسی الغوی نے بتایا ہے کہ اگر امن عمل کے نتیجے میں کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو پھر صنعا پر قبضے کی جنگ لڑی جائے گی۔ ان کا زمینی فوجی حملے کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ صنعا پر تین اطراف سے حملے کئے جائیں۔ ایک معارب و ارھب کی طرف سے، دوسرا تعز کی جانب سے اور تیسرا حدیدہ کی طرف سے۔ یہاں یمن کے دارالحکومت کا محل وقوع دیکھنا ضروری ہے۔ صنعا اور تعز کے مابین ایک طرف سے دو صوبے درمیان میں پڑتے ہیں، یعنی اب Ibb اور ذمار Dhammar۔ اگر تعز سے حدیدہ کے راستے صنعا جائیں تو اس سے بھی زیادہ طویل مسافت ہوگی۔ مارب سے براہ راست صنعا صوبہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ حدیدہ کا ایک سرا سرخ سمندر پر ہے، جس کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے، یعنی سعودی و اتحادی خائن عرب افواج یہاں سے دہشت گردوں کی بحری مدد کرسکتی ہیں یا خود بھی داخل ہوسکتی ہیں۔ صوبہ جوف کا دارالحکومت ال حزم بھی صنعا صوبے سے نزدیک ہے۔ صوبہ العمران جس کا ایک سرا صعدہ و ال حجہ صوبوں سے ملتا ہے، وہ دوسرے سرے پر صنعا سے ملا ہوا ہے۔ ال مھوت Mahwit جو دیگر سروں پر ال عمران الحجہ اور حدیدہ سے ملتا ہے، اس کا بھی ایک ایک سرا صنعا سے ملتا ہے۔

جس خبر کا تذکرہ کیا وہ یمنی ذرائع ابلاغ سے آئی تھی، لیکن اس کے دو دن بعد یعنی 28 اگست کو مستعفی صدر کے نامزد وزیر خارجہ ریاض یاسین نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں رائٹر کے جیک ریش کو آن دی ریکارڈ بتایا کہ صنعا کے لئے لڑائی دو ماہ کے دوران ہی شروع کر دی جائے گی۔ انہوں نے’’آٹھ ہفتوں‘‘ میں صنعا پر قبضے کی لڑائی کی بات کی اور انہیں صنعا میں موجود افراد سے توقع ہے کہ وہ انکا ساتھ دیں گے۔ اس لئے میں نے فیصلہ کن مرحلے کی تکمیل کے لئے نومبر تک کی بات کی تھی۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حملوں کا ہدف پورا یمن ہے، خواہ وہ شمال ہو یا مرکز میں، مشرق ہو یا مغرب۔ صعدہ، صنعا، ال حجہ اور حدیدہ ہو ال بیضاء کا علاقہ کہ جہاں سعودی فضائیہ کی بمباری سے یمن کے نہتے اور بے قصور عرب مسلمان بے جرم و خطا قتل ہو رہے ہیں۔ اب Ibb میں بھی یمن کے فوجی افسر کے گھر پر سعودی فضائی بمباری کی گئی۔ حدیدہ صوبے کے ال ھوک Hawak ضلع میں بھی بمباری سے کئی نہتے شہری شہید ہوئے ہیں۔ 13 اگست 2013ء کو خبر آئی کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت نے اعداد و شمار جاری کئے ہیں کہ (سعودی جارحیت کی وجہ سے) یمن میں 4300 سے زائد شہری قتل اور 22000 زخمی ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوا ہو، لیکن متعصب و بیمار ذہنیت کے حامل افراد اس سے بھی کم اعداد و شمار کی بات کرتے ہیں۔

سمندری اور فضائی حدود پر سعودی اور اتحادی کنٹرول ہونے کے باوجود یمن کے خلاف یہ جنگ جیتی نہیں جاسکی۔ امریکی حکومتی اداروں کے لئے کام کرنے والے سابق سرکاری افسر اور موجودہ تجزیہ نگار بروس رڈل کی رائے یہ ہے کہ منصور ہادی کی حکومت بحال کرنے کا سعودی عرب کے پاس کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ سعودی و خلیجی نمک خوار اسی جھوٹ پر مصر رہیں کہ مقامات مقدسہ کو خطرات لاحق ہیں، لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ سعودی و اتحادی خائن عرب افواج اور ان کی نیابتی جنگ لڑنے والے غداروں نے خلیج عدن سے صعدہ تک ہر جگہ عرب مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن یمن کی فوج اور ان کے اتحادی حوثی جوان صرف اور صرف اپنی سرحدوں کا دفاع کر رہے ہیں اور ان سعودی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ جہاں سے یمن کے عوام پر شیلنگ اور فائرنگ کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے اتحادی برطانیہ کے دفتر خارجہ نے اپنے شہریوں کو سفر کرنے کا جو ہدایت نامہ جاری کیا، اس نے نقشے میں یمن کی سرحدی پٹی کے علاوہ پورا ملک محفوظ علاقہ قرار دیا ہے اور سرحدی پٹی پر نجران، جزان، العسیر کی چھوٹی سی سرحدی پٹی پر بھی صرف غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یعنی اس پٹی پر بھی ضروری سفر سے منع نہیں کیا گیا۔ کیا یمن میں کوئی سفر ممکن ہے۔؟

ایسا اس لئے ہے کہ ایک جانب اسلام کے حقیقی پیروکار ہیں، جو شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنا رہے، لیکن دوسری جانب وہ یعنی سعودی و اتحادی خائن عرب ہیں جو امریکا و جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ یہ وہ ہیں جو ایک جانب تو نسلی کدورت کی وجہ سے عالم اسلام کو عرب عجم میں تقسیم کرچکے ہیں اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی تقسیم کرچکے ہیں، لیکن جب بات فلسطین کی آزادی کی آتی ہے تو وہاں نہ یہ عرب ہوتے ہیں اور نہ ہی سنی بلکہ وہاں دائرہ انسانیت سے ہی خارج ہوکر بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ یہ عربوں کے خیرخواہ ہوتے تو کم ازکم لیبیا ہی میں امن قائم کر دیتے، جہاں انہوں نے خود جنگ کی آگ بھڑکائی تھی۔ یہ سنی عربوں کے ساتھ ہوتے تو اخوان المسلمین کی مرسی حکومت مصر میں ختم نہ ہونے دیتے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ ایسے کیوں ہوتے جبکہ یہ امریکی صہیونی صلیبی جنگوں میں اعلانیہ یا خفیہ طور پر شریک ہوتے رہتے ہیں؟ ان کی امریکہ دوستی کا تازہ ترین ثبوت 4 ستمبر 2015ء کو سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دورہ امریکہ ہے، جہاں انہوں نے صدر باراک اوبامہ سے ملاقات میں امریکہ دوستی اور عہد وفا کی تجدید کی ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 485628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش