0
Sunday 18 Oct 2015 16:57

فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ ۔۔۔ انتفاضہ الاقصٰی

فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ ۔۔۔ انتفاضہ الاقصٰی
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان


یکم اکتوبر سے فلسطین کے شہر مشرقی القدس میں فلسطینیوں نے غاصب اسرائیلی ریاست کے خلاف ایسی حالت میں مظاہروں کا آغاز کیا کہ جب گذشتہ ماہ ستمبر کے آخری ایام میں غاصب صیہونی افواج اور صیہونی آباد کاروں کی جانب سے مسجد اقصٰی (قبلہ اول) کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا، متعدد مرتبہ مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا، مسجد میں نمازیوں کو داخلے سے روک دیا گیا، خواتین اور بچوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معصوم اور کم عمر بچوں کو گرفتار کرکے صیہونی جیلوں کی نذر کیا جانے لگا۔ غرض یہ کہ اس مرتبہ قبلہ اول کے خلاف صیہونیوں نے منظم اور خطرناک حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، تاہم ایسے حالات میں کس طرح ممکن تھا کہ صیہونیوں کے خلاف مزاحمت نہ کی جاتی۔ بہرحال ان مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور پورے مغربی کنارے کے عوام اپنے حقوق کے دفاع اور قبلہ اول کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جواب میں صیہونی افواج نے ہمیشہ کی طرح ان مظلوم نہتے فلسطینیوں کو اپنے خطرناک ہتھیاروں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس تمام تر صورتحال میں یکم اکتوبر سے 13 اکتوبر تک صیہونی غاصب افواج نے تیس سے زائد معصوم فلسطینیوں کو جن میں معصوم بچے، نوجوان، خواتین، انسانی حقوق کے اداروں کے کارکنان، طلباء اور بچے شامل تھے، کو اپنی سفاکانہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔

انہی مظاہروں میں ایک ایسی خاتون کو بھی اسرائیلی افواج نے اپنے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، جس کا تعلق عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق ''ہیومن رائٹس واچ'' سے تھا، اس خاتون کا قصور یہ تھا کہ وہ مظاہرین کے درمیان موجود تھی اور مظاہرین کی فوٹیج کوریج کر رہی تھی۔ اسی طرح غاصب اسرائیلیوں نے القدس کی ایک جامعہ کے طلباء پر عین اس وقت تشدد کیا، جب وہ ہندوستانی اعلٰی عہدیداروں کے ایک وفد کے ممکنہ اسرائیلی دورے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے، اس حملے میں نہ صرف طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یونیورسٹی کے اندر شدید توڑ پھوڑ کی گئی اور جامعہ کی املاک کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا گیا۔ فلسطین کے اندر رونما ہونے والے حالات و واقعات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ غاصب اسرائیلی افواج کے مظالم کی دل ہلا دینے والی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف مظلوم ملت فلسطین نے اس بات کا عہد کر لیا ہے کہ وہ غاصب صیہونیوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ اب نوجوانوں نے اسرائیلی افواج اور صیہونی آباد کاروں کو مسلح انداز میں جوابی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے، البتہ یہ کارروائیاں چھاپہ مار کارروائیوں کی حد تک محدود ہیں، لیکن غاصب اسرائیلی انتظامیہ اور اپوزیشن سمیت صیہونی، فلسطینیوں کی ان جوابی کارروائیوں سے شدید خوفزدہ ہیں۔

مظلوم اور نہتے فلسطینیوں نے غاصب اسرائیل کے قبلہ اول کے خلاف جاری اقدامات اور مظلوم فلسطینیوں پر جارحیت کے خلاف اپنی جدوجہد کو ''تیسرے انتفاضہ'' کا نام دیا ہے اور اس تحریک انتفاضہ کو ''انتفاضہ الاقصٰی'' یعنی قبلہ اول پر صیہونی غاصبانہ تسلط سے آزاد کروانے کا عنوان دیا ہے۔ اس حوالے سے یکم اکتوبر سے 13 اکتوبر تک تیس سے زائد مظلوم فلسطینیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے، پندرہ سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، لیکن اس تحریک میں کسی صورت کمی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ انتفاضہ کی یہ تحریک ماضی میں بھی چل چکی ہے اور اسرائیل اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ کے سامنے اسرائیل زیادہ دیر ٹک نہیں سکے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب فلسطین کے اندر جب تحریک انتفاضہ کا آغاز ہوچکا ہے تو فلسطین کے باہر بھی دنیا کے باضمیر انسانوں، حکمرانوں اور عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حماس کے رہنما نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کا تیسرا انتفاضہ بعنوان انتفاضہ الاقصٰی صیہونی توسیع پسندی کے کینسر کا خاتمہ کر دے گا۔ دوسری طرف فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے بھی صیہونی غاصب ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم سے باز رہے، بصورت دیگر اسرائیل کے یہ عزائم فلسطینیوں میں تیسری تحریک انتفاضہ کے شعلوں کو جنم دیں گے، جس کے بعد اسرائیل خود بھی ان شعلوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔

فلسطین کی موجودہ صورتحال میں جہاں فلسطین کے عوام اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں اور اپنے خون سے نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، وہاں فلسطین کے باہر عالمی برادری اور باضمیر حکومتوں اور حکمرانوں سمیت عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اور تیسری تحریک انتفاضہ کی کامیابی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ آج اگر پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفٰی (ص) ہمارے درمیان بنفس نفیس موجود ہوتے تو کیا وہ فلسطینیوں کی مدد نہ کرتے؟ یا فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرتے؟ یقیناً آپ (ص) فلسطینیوں کی ہر حوالے سے نصرت و مدد فرماتے اور سب سے پہلے اور ترجیحاً فلسطین کے مظلومین کے لئے جدوجہد کرتے۔ ماہ محرم الحرام  میں دنیا بھر میں کروڑوں اربوں انسان نواسہ رسول اکرم (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اہل و عیال کی قربانی کی یاد مناتے ہیں، تو اگر آج امام حسین علیہ السلام ہمارے درمیان ہوتے تو وہ فلسطین کی موجود ہ صورتحال کے لئے قیام نہ کرتے؟ یقیناً فلسطین کے مظلومین کو صیہونزم سے نجات دلانے کے لئے کہ جو وقت کی یزیدیت ہے، کے خلاف قیام کرتے اور مظلومین کو ان کا حق پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے۔

عالم اسلام کے ان تمام حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئیے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ کا اہم ترین اور اولین مسئلہ ہے، اس مسئلہ سے صرف نظر کرنے والے ہر حکمران کو خائن امت تصور کیا جائے گا، قیامت کے روز اور قبر میں سب سے پہلے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ ہم نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کیا کام انجام دیا؟ پس فلسطینی عوام فلسطین کے اندر تیسری تحریک انتفاضہ کا آغاز کرچکے ہیں، اب فلسطین سے باہر پوری مسلمان امت کو چاہئیے کہ فلسطینیوں کی پشت پناہی کریں، عوام فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کریں، حکومتوں کو چاہئیے کہ وہ اگر عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرسکتی ہیں تو کریں، جو حکومتیں فلسطینیوں کی مالی مدد کرسکتی ہیں آگے بڑھیں، جو حکومتیں فلسطینیوں کو اسلحہ فراہم کرسکتی ہیں، بسم اللہ، آئیں فلسطین کے مظلومین کو طاقتور کریں، جو حکومتیں بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے کچھ بھی خدمت انجام دے سکتی ہیں، بسم اللہ کیجئے کہ یہی وقت ہے، اب کہ عالم اسلام و انسانیت کے دشمن غاصب اسرائیل کو نابود کرنے کے لئے متحد ہو کر مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی جائے۔ اگر چند ایک اسلامی ممالک بھی آگے بڑھیں اور پہلے مرحلے میں اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیں، دوسرے مرحلے میں عرب ممالک اسرائیل کو تیل کی فراہمی بند کر دیں، تیسرے مرحلے میں فلسطینی عوام کی جدوجہد کی مالی و مسلح معاونت کریں اور اسی طرح بین الاقوامی پلٹ فارم پر فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کریں تو وہ وقت دور نہیں جب قبلہ اول آزاد ہوگا اور غاصب اسرائیل کا وجود نابود ہو جائے گا۔

مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ کو بھی چاہئیے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو بنیادی ترجیحات میں شمار کریں اور فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ میں اپنا کردار ادا کریں، غاصب اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری ان مظالم کی تصاویر ہمیں کسی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ادارے کی ویب سائٹ یا ٹی وی چینل یا پھر کسی اخبار میں نہیں ملیں گی، کیونکہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ تو شاید یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ زمین کے ایک حصے میں فلسطین نامی علاقہ بھی موجود ہے اور وہاں بھی انسانوں کی آبادی ہے، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان عالمی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو شاید یہ بتایا گیا ہے کہ زمین پر فلسطین نامی ملک واقع ہی نہیں ہے اور وہاں پر انسان آباد نہیں ہیں، کیونکہ اگر عالمی برادری اور بالخصوص عالمی ذرائع ابلاغ کے اداروں نے فلسطین کے اندر بسنے والوں کو انسان سمجھا ہوتا تو آج یقیناً بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر فلسطینیوں کی مظلومیت بیان کی جا رہی ہوتی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج عالم مغرب میں کسی ایک کتے یا کسی جانور کو نقصان پہنچے تو پورا عالمی میڈیا اس واقعہ کو بریکنگ نیوز کی شکل دے کر پوری دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کروا لیتا ہے، لیکن فلسطین میں غاصب اسرائیلی افواج کے ہاتھوں روزانہ کی بنیادوں پر قتل ہونے والے مظلوم فلسطینیوں کو شاید کسی نے انسان تو کیا جانور بھی نہیں سمجھا ہے، کیا یہی عالمی ضمیر کا انصاف ہے؟
خبر کا کوڈ : 491991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش