0
Thursday 11 Feb 2016 20:44

کشمکش کا شکار مشرق وسطٰی اور پاکستان

کشمکش کا شکار مشرق وسطٰی اور پاکستان
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

کیا ایران پاکستان کی ثالثی پر اعتماد کرسکے گا؟
ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت کے لئے پاکستان حالیہ دنوں بڑی گرمجوشی سے سفارتی منظر نامے پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے دورے سے کئی روز پہلے ہی میڈیا میں اس سفارتی کوشش کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔ پاکستان کے اعلٰی حکام کی طرف سے یہ مصالحتی کوشش عین اس وقت شروع کی گئی جب چین کے صدر شی جن پنگ مشرق وسطٰی کے اپنے پہلے دورے پر روانہ ہونے والے تھے۔ چین کے صدر جس وقت ریاض پہنچے پاکستانی وفد ریاض کا ایک روزہ دورہ مکمل کرکے تہران روانہ ہو رہا تھا، جہاں چینی صدر دو روز بعد پہنچنے والے تھے۔ حالیہ دنوں شدت اختیار کر جانے والی سعودی ایران کشیدگی کا خاتمہ چین کی شدید خواہش ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اور ایران چین کی بہت بڑی برآمدی منڈی ہیں۔ دونوں ملک چین کے لئے تیل کے بڑے سپلائر ہیں اور دونوں ممالک کی پیٹرو کیمیکل صنعت میں چین کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ چنانچہ دونوں ممالک کی کشیدگی سے چین کی معیشت پر بھی خاصا منفی اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ چین کی وزارت خارجہ کے نائب سربراہ زہانگ من نے صدر کے دورے کے ضمن میں کہا تھا کہ فریقین سب کے لئے قابل قبول تزویری شراکت کاری سے متعلق ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو ایران سعودی معاملے میں پاکستان کی مصالحتی کوششوں کے محرک کو سمجھنا مشکل نہیں۔ دونوں ممالک کی کشیدگی کے خاتمے میں چین کے مفادات کے علاوہ پاکستان کے مفادات بھی ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں جب سعودی عرب نے اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ یمن پر چڑھائی کی، اب تک کئی مواقع پر سعودی عرب نے پاکستان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے ہیں، جب پاکستان کو سفارتی سطح کے مشکل ترین فیصلے کرنے پڑے۔ مشکل یہ ہے کہ سعودی عرب پہلے خود سفارتی اور دفاعی میدان میں غیر دانشمندانہ قدم اٹھاتا ہے، پھر اپنے دم بھرنے والوں کو اپنی پیروی پر مجبور کرتا ہے۔ یمن پر سعودی حملے کے پہلے دن سے دفاعی ماہرین اسے تباہ کن اقدام قرار دے رہے تھے، جس کا حاصل صفر اور منفی اثرات لامتناہی ہوں گے۔ قریب ایک برس کی جنگ اور ہزاروں انسانوں کی ہلاکت، یمن کے ملکی ڈھانچے کی مکمل تباہی اور بے بہا دفاعی، مالی اور جانی نقصان کروانے کے بعد اب سعودی عرب اسی نتیجے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ شام کے معاملے میں معاملہ تباہی کے کئی سالوں پر محیط ہے، لیکن وہاں بھی بازی سعودی عرب کو الٹی پڑ رہی ہے۔

ایک طرف سعودی اتحاد مشرق وسطٰی میں جگہ جگہ تزویراتی ہزیمت اٹھا رہا تھا، دوسری طرف ایران نے بروقت اقدام کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملے کا معاہدہ طے کر لیا۔ سعودی عرب اور اسرائیل خطے کے ایسے دو بڑے ممالک تھے، جنہوں نے ایرانی فوبیا اور ایرانی جوہری طاقت کے خوف کے پروپیگنڈے کو پوری کوشش سے پھیلایا اور واشنگٹن اور یورپی دار الحکومتوں میں اپنے حلقہ اثر کو متحرک کرکے ایرانی جوہری ڈیل کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی۔ یہ معاہدہ طے پا گیا اور لازمی شرائط کی تکمیل کے بعد جنوری کے دوسرے ہفتے امریکہ اور یورپی یونین نے ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لی ہیں، نتیجے میں ایران کے دسیوں ارب ڈالر کے منجمد اثاثے واپس ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایران عالمی مارکیٹ میں تیل فروخت کرنے کے قابل ہوگیا ہے اور غیر ملکی اداروں کو بھی ایران میں کاروبار کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی ہے۔ ایک طرح سے یہ عالمی سطح پر ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔ چین جیسا دور اندیش اور معاشی مفادات کو سمجھنے والا ملک اس موقعے کو معاشی فائدے میں بدلنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں خوش قسمتی سے پاکستان رجعت پسند اور حقائق سے منہ موڑ کر کھڑے ہوئے دھڑے کے بجائے اُبھرتے ہوئے چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کا اپنا فائدہ اسی روشن مستقبل کے ساتھ وابستہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا کانسپٹ چین سے پاکستان تک محدود نہیں، سرحد پار ایران اور افغانستان کو بھی اصولی طور پر اس میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں گوادر کو ریل کے ذریعے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ساتھ ملانے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ زمینی رابطے اقتصادی مواقع کی ڈور ہیں، جن میں مستقبل کے امکانات پروئے جائیں گے۔

اس دوران سعودی حکومت نے اپنی روایتی ’’سرگرمی‘‘ کے ساتھ کئی مواقع پر پاکستان کے لئے ناقابل عمل فیصلوں کی صورت پیدا کر دی تھی۔ کچھ عرصہ پیشتر سعودی عرب نے ایک اتحاد تشکیل دیا، جس میں پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک کے نام بغیر پوچھے ڈال دیئے گئے۔ یہ اتحاد بھی سعودی عرب کے نو عمر وزیر دفاع کی ناتجربہ کاری اور معاملات سے بے خبری کی علامت کے طور پر سامنے آیا۔ اتحاد میں جن ملکوں کو اپنے بغل بچے سمجھتے ہوئے نام ڈالے گئے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اتحاد کیا تھا ایران کے مقابلے میں سعودی بڑھک تھی۔ خوش قسمتی سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں دیئے گئے اپنے پالیسی بیان میں واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت میں ایران مخالف فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کرے گا۔ اپنی بیس منٹ کی تقریر میں انھوں نے کئی بار یہ واضح کیا کہ پاکستان اپنی فوج کو کسی دوسرے اسلامی ملک کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان کو اس سعودی افتاد سے بچانے میں روس اور چین کا اہم کردار ہے۔ دسمبر کے آخر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی روس اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان آئے۔ مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو صدر پوتن کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان سعودی عرب کے اتحاد میں شرکت کے ضمن میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

عالمی سیاسی اور سفارتی معاملات میں یہ موقع پاکستان سے کمال احتیاط اور دانشمندی کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ جون میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے، اس علاقائی تنظیم میں شامل ہونا پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سمٹ میں پاکستان اور بھارت کو بطور مکمل رکن لئے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کا عبوری مرحلے کا دورانیہ پاکستان نے نہایت عقلمندی سے گزارا ہے اور سعودی دباؤ کے باوجود خود کو یمن اور شام کے جھگڑوں میں جانبداری سے دور رکھا ہے۔ چین اور روس اس اہم علاقائی تنظیم کے دو پائے ہیں، روس بھارت کو اس تنظیم میں لئے جانے کی حمایت کرتا ہے جبکہ چین پاکستان کی۔ اس موقع پر جب روس شام کے معاملے میں اہم فریق ہے، پاکستان کے لئے سودمند نہیں کہ وہ سعودی اشارے پر کوئی ایسا اقدام کر بیٹھے جو ایک طرف اپنے ساتھ ملے ہوئے ہمسائے یعنی ایران کے ساتھ کشیدگی اور عدم اعتماد کا باعث بنے اور دوسری طرف علاقائی سطح پر روس شنگھائی تنظیم میں پاکستان کی راہ روکنے کے لئے زور لگانا شروع کردے۔

سعودی عرب کیلئے ممکنہ نقصانات اور مشکلات:

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایران سعودی مصالحت کے لئے جو وقت چنا ہے، وہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں اٹھنے کی وجہ سے ایران میں سفارتی کامیابیوں کے جشن کا ماحول ہے۔ ان حالات میں ایرانیوں کے لئے سعودی تنازعے سے بڑھ کر ان معاشی امکانات کی اہمیت ہے، جو پابندیوں کے اٹھنے کے ساتھ انہیں حاصل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کے لئے یمن اور شام کے تنازعات کے نتائج حسب توقع نہیں آرہے، جس کے باعث سعودی عسکری قیادت آئے روز نیا تجربہ کرتی اور اپنے لئے مشکلات بڑھاتی نظر آتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی کا منفی اثر اس کے علاوہ ہے، جس کے باعث اس سال سعودی عرب کی قومی آمدنی میں 162 ارب ڈالر کمی کا امکان ہے۔ سعودی عرب کی مجموعی آمدن کا 77 فیصد تیل کی برآمد سے حاصل ہوتا ہے، تاہم خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے 2015ء میں سعودی عرب کی آمدن 23 فیصد کم ہوئی ہے۔ کھپت کے مقابلے میں وافر فراہمی کو تیل کی قیمتوں کی گراوٹ کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کا تیل بھی مارکیٹ میں آئے گا، ایران نے ابتدائی طور پر پانچ لاکھ بیرل یومیہ تیل نکالنے کا عندیہ دیا ہے، ایرانی تیل کی فراہمی شروع ہونے کے بعد تیل کی قیمتیں مزید گریں گی۔ ایران سے پابندیاں اٹھتے ہی تیل کی قیمت بارہ سال کی کم ترین سطح یعنی اٹھائیس ڈالر فی بیرل پر آگئی۔ تیل کی معیشت کے ماہرین کے مطابق ایرانی تیل کی فراہمی کے بعد تیل دس ڈالر فی بیرل تک گر سکتا ہے۔ تیل کی سپلائی میں کمی نہ کرکے سعودی عرب نے ایران، روس اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ملکوں کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کرنا چاہا تھا، لیکن یہ چال بھی الٹی سعودی عرب کو پڑ گئی۔ اب سعودی عرب اگر ایران کے ساتھ مخاصمت برقرار رکھتا ہے تو ایران تیل کا یہی ہتھیار سعودی عرب کے خلاف استعمال کرتا چلا جائے گا۔

اس صورت میں سعودی عرب کو ایران کے مقابلے میں زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا، کیونکہ ایران فی الوقت تیل کی آمدنی سے محروم ہے، علاوہ ازیں اس کے منجمد اثاثوں کی صورت میں کثیر سرمایہ میسر آرہا ہے، اس کے مقابلے میں سعودی عرب کے محفوظ اثاثے تیل کی گراوٹ کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ دسمبر میں منظور کئے گئے 2016ء کے بجٹ میں خسارے کو پورا کرنے کے لئے سعودی عرب میں توانائی پر سبسڈی ختم کرنے سے پیڑول کی قیمت میں 50 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا جبکہ ڈیزل، بجلی اور پانی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر سعودی حکومت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے چند ممالک کے خلاف بے رحمانہ پالیسی برقرار رکھتی ہے تو دفاعی اخراجات بھی انتہائی سطح پر رہیں گے۔ سعودی عرب کے محفوظ مالی ذخائر اس دباؤ کو کب تک برداشت کر پائیں گے، دوسری جانب عوام کو مطمئن رکھنے کے لئے سبسڈیز کی مد میں بھی سالانہ اربوں ڈالر چاہئیں۔ چنانچہ سعودی عرب کی حکومت کے لئے اپنی پالیسز کے موجودہ ماڈل کو لے کر چلنا بہت دیر تک ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورت میں اگر سعودی حکمران جوش کی بجائے ہوش سے حالات کا جائزہ لیں گے تو انہیں ایران کے ساتھ مقابلہ بازی کو ختم کرکے تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ چین کی حمایت سے پاکستان نے مصالحت کی پیش کش کرکے دونوں ملکوں کے لئے آسانی کی راہ پیدا کر دی ہے۔ خطے کی صورتحال کے پیش نظر دونوں ملک ایک دوسرے کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔ پچھلے کئی سال سے کشیدگی، مداخلت اور تباہی کی صورتحال سے اب تک جو نتائج نکلے ہیں، ان کو سمجھنا سعودی عرب اور ایران دونوں کے لئے ناگزیر ہے۔

پاکستان کا سعودی عرب کیلئے آلہ کار بننے سے انکار:
سعودی عرب بڑی مستقل مزاجی سے پاکستان کو مستقبل کا اتحادی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ اس طرح کی کاوشوں کی اس سے قبل کوئی نظیر نہیں ملتی، روایتی طور پر معاملہ ہمیشہ الٹ رہا ہے۔ پاکستان عاجز طلب کنندہ اور سعودی عرب شاہی سرپرست بنا رہا ہے۔ ان تعلقات میں آنے والی کیمیائی تبدیلی خطے کی سیاست میں آنے والی ساختیاتی تبدیلی کی علامت ہے اور اس کی بڑی وجہ یہاں ایران اور امریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی قربت ہے۔ خطے اور دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے معاشرتی ماحول میں سعودی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ان پر غیر یقینی کی کیفیت طاری ہے، دوسری جانب پاکستان کے پاس یہ انتخاب موجود ہے کہ وہ پرانے اتحادوں کی افادیت اور نئے اتحادوں میں شمولیت کے فوائد میں سے کسی ایک شے کا انتخاب کرسکے۔ خطے میں سعودی حکمت عملی کی کامیابی کے لئے پاکستان کی ہمرکابی سعودیوں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلام آباد میں چھ گھنٹے کے قیام کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف (ملک میں طاقت کا اصل منبع)، وزیراعظم نواز شریف اور خارجہ امور کے لئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز سے اس مقصد کے حصول کے لئے ملاقاتیں کیں۔ جبیر نے ریاض کے تہران کے ساتھ تناؤ کے بارے میں تگڑی بریفنگ دی، انہوں نے اس دوران اس بات پر زور دیا کہ تہران سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔

یہ بات انہوں نے شیخ نمر ال نمر کی سزا کے تناظر میں کہی۔ سعودی نژاد شیعہ عالم جنہیں مبینہ بغاوت کے الزامات میں سزائے موت دی گئی، جبیر نے اس امر پر زور دیا کہ معاملہ جو بھی ہو، شیخ نمر سعودی شہری تھے۔ جبیر کے دورے کا بنیادی مقصد اتوار کو ہونے والے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان کے دورے کے لئے زمین ہموار کرنا تھا، محمد بن سلمان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی حکومت کی اصل قوت انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات کے بڑے واضح اشارے مل رہے تھے کہ سلمان اس دورے کے دوران سعودی عرب کی جانب سے نو تشکیل شدہ چونتیس رکنی ’’دہشت گردی کے خلاف اسلامی اتحاد‘‘ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ سلمان ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ نامی اپنے اس ذہنی بچے کے بارے میں بہت سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے، بظاہر انہوں نے اس اتحاد کے بارے میں تفصیلات بتائیں، جس کے بارے میں مغرب کے کچھ نامعقول لوگوں نے ’’اسلامی ناٹو‘‘ کی پھبتی بھی کسی تھی۔ یقیناً ایک سنی مسلمان ریاست اور بے حد پروفیشنل فوج کے ساتھ جس کی تعداد دس لاکھ، جن میں سے نصف فعال اور اتنے ہی ریزرو میں موجود ہیں، پاکستان کے لئے اس اسلامی اتحاد میں ایک نمایاں جگہ موجود تھی، اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان جوہری طاقت کا حامل بھی ہے۔ ریاض کو توقع تھی کہ سنی پاکستان کے ساتھ بننے والا اتحاد تکمیلی صورت بن سکتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس پیسہ اور جدید ترین ہتھیار ہیں، جن کا پاکستان کے پاس کال ہے، ان دونوں چیزوں کے بدلے میں پاکستان اپنی عسکری مہارت اور زمینی فوج مہیا کرسکتا ہے۔

حقیقت بھی کچھ ایسے ہی ہے کہ اس صورت میں دونوں فریقین کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اگر یہ منزل حاصل کر جائے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے جبیر کے دورے کے بعد ایک بیان جاری کیا، جس میں بڑے پرجوش انداز میں سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ برادرانہ رشتوں کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن اس بیان میں اصل مدعے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ پاکستان اس نام نہاد ’’اسلامی ناٹو‘‘ کے بارے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اب یہ اتحاد خطے میں موجود سعودی عرب اور ایران کے باہمی مناقشے کی صورت اختیار کرچکا ہے، اگرچہ ریاض اس کا بلند آہنگ میں انکار کرتا ہے اور پاکستان فرقہ وارانہ فسادات کی ایک خونی تاریخ رکھتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی شیعہ تنظیموں نے جبیر کے دورے کے دوران احتجاجی جلوس بھی نکالے۔ سرتاج عزیز نے پارلیمان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان ایران اور سعودیہ کے مابین تنازعے کی شدت کو کم کرنے کے لئے کوشش کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم امہ کے ’’اتحاد‘‘ کے لئے بھی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ پارلیمان میں جاری بحث کے تناظر میں ’’ڈان‘‘ اخبار نے، جو ایک نمایاں اخبار ہے، لکھا کہ ’’جغرافیائی، جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامکس وجوہات کے پیش نظر، اس کے ساتھ ساتھ مذہبی حساس معاملات بھی موجود ہیں، پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ (سعودی عرب اور ایران کے مابین) اس تنازعے میں غیر جانبدار رہے۔

یقیناً یہ بات کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی اب اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ ان کی ’’نوازشات‘‘ کے جواب میں انہیں بھی فائدہ پہنچایا جائے۔ پاکستانی اشرافیہ بھی یہ سوچ رکھتی ہے کہ ایران کی دشمنی مول لینا بھی کوئی عقل مندانہ قدم نہیں…کچھ حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ اسلام آباد تہران سے اپنے سفارتی تعلقات کو کم تر سطح پر لے جاسکتا ہے۔ اگر اس بات میں کوئی حقیقت ہے تو اس تجویز کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ جبیر کے دورے کے بعد ’’ڈان‘‘ نے اس موضوع پر ایک دوسرا اداریہ لکھا کہ شاید ریاض اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ ’’بے ضرر‘‘ سے بیان سے دل برداشتہ ہوا ہے۔ ،’’یہ بات درست ہے کہ پاکستان نے جدت پسندی کی راہ اپنائی ہے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی روزنامے نے سعودی عرب کی جانے سے گردن کاٹنے والی سزاؤں اور خصوصاً حالیہ دنوں میں دی جانے والی ’’بڑی تعداد میں سزاؤں‘‘ پر تنقید بھی کی۔ اخبار نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ریاض ’’اس تباہ کن تنازعے کی جانب نہ بڑھے۔‘‘ روایتی طور پر پاکستانی بیانیے میں سعودی عرب کو ایک مقدس گائے کی سی اہمیت حاصل رہی ہے, لیکن اب مزید یہ صورت حال نہیں ہے۔ مسئلے کا ست یہ ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی باریک لکیر پر چلنا ہے, جس سے حالیہ برسوں میں ایران کے ساتھ اس کے تعلقات میں آنے والی باہمی اعتماد کی فضا میں مزید گرم جوشی آئے۔ اسلام آباد اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ ’’ایران ایک اہم ہمسایہ ہے, جہاں معاشی نمو کے بے حد امکانات موجود ہیں اور جو افغانستان میں بھی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔‘‘

اگر ریاض کو اس بات کی تصدیق کرنی مقصود تھی کہ امریکہ نے اب خلیجی خطے میں اپنی پالیسی میں توازن لانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اب وہ اپنے تمام انڈے سعودی ٹوکری میں نہیں ڈالے گا تو یہ ثبوت اس وقت دستیاب ہے۔ سعودیوں کی نگاہ سے یہ بات اوجھل نہیں ہے کہ امریکہ اب شام میں جاری تنازعے میں روس کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے اور یہ کسی اور کی زبانی نہیں خود جان کیری کی زبان سے نکلنے والے الفاظ ہیں۔ سب سے بڑھ کر، اگر سعودی راہ نما سعودی ایران تنازعے میں اوبامہ انتظامیہ کو اپنا ساتھ دینے کے لUے مجبور کرنے کی امید بھی رکھتے ہیں تو اس کے لUے راستہ یہ نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کا ناطقہ بند کرنے کی بات ماضی کا حصہ بن چکی۔ صدر اوبامہ کی جانب سے سعودیوں کو دیا جانے والا بہترین مشورہ یہ ہوگا کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا تنازعہ طے کر لیں۔ پاکستان، اتنا تیز فہم ضرور ہے کہ وہ معاملے کی نزاکت کو بھانپ لے۔ اسی لئے پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’’پاکستان کو (ایران اور سعودی عرب کے مابین) صورت حال پر شدید تشویش ہے۔ وزیراعظم نے پرامن ذرائع کے ساتھ تمام مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ ان مشکل حالات میں مسلم امہ کا اتحاد برقرار رہ سکے۔ یہ واضح ہے کہ عالم اسلام کی سلامتی اور استحکام کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کا وجود صحفہ ہستی سے نابود کر دیا جائے، اور یہ عمل اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سعودی رجیم زمیں بوس نہ ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 520101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش