0
Thursday 17 Mar 2016 00:35

روس کا مشرق وسطٰی میں کردار

روس کا مشرق وسطٰی میں کردار
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

افغانستان میں صورتحال غیر مستحکم ہے اور وسط ایشیائی ممالک کو جو چیلنج درپیش ہیں، وہ مشرق وسطٰی کی ریاستوں کو درپیش چیلنجوں سے زیادہ مختلف نہیں، روس کے پاس سیاسی اور عسکری لحاظ سے دونوں خطوں میں فعال رہنے کی خاطر خواہ وجوہات موجود ہیں۔ روس کو شام میں فوجی مداخلت کے لئے نو ماہ لگے، جبکہ کسی جنگ میں داخل ہونا، جنگ میں داخل ہو کر باہر نکلنے سے کہیں آسان ہے۔ روس کو کئی چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہے۔ یوکرائن میں روس کی فوجی حکمت عملی شام میں سیاسی حکمت عملی اور خطے میں سفارتی حکمت عملی کے درمیان مطابقت قائم رکھنا از بس ضروری ہے، ہر تین لحاظ سے اپنی مہارت بڑھانے اور اپنے روابط وسیع کرنے کی ضرورت مزید بڑھ رہی ہے، تاکہ جہاں وہ کام کر رہا ہے، وہاں تیزی سے بدلتے ماحول کو بہتر انداز میں سمجھ سکے۔ سب سے بڑھ کر اپنے ملک میں لوگوں اور اثاثوں کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے، جبکہ ابھی جب روسی ہوائی جہاز شام میں اہداف کو نشانہ بنا ہی رہے تھے کہ ایک طالبان گروہ نے قندوز کا قبضہ حاصل کر لیا، جو تاجک سرحد سے کوئی 60 میل دور افغانستان کا صوبائی دارالحکومت ہے۔ روس کا تاجکستان میں ایک فوجی اڈہ ہے اور وہ جہادیوں کے وسط ایشیا کی طرف آگے بڑھنے کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔

شام کے میدانِ جنگ سے ہٹ کر روس اور چین کے مابین تزویراتی روابط اور دونوں ممالک کے رہنمائوں کا دنیا کے بارے میں نظریہ یکساں ہے۔ وہ امریکا کے ساتھ مخاصمتی رویہ رکھتے ہیں اور بہت سے سلامتی اور دیگر مفادات میں بھی دونوں کا اشتراک ہے۔ تکفیری انتہا پسند خاص طور پر روس اور چین دونوں کے لئے خطرہ ہیں۔ مشرق وسطٰی اور افغانستان میں امریکی فوجی مہمات کی ناکامی کے باعث ماسکو اور بیجنگ اپنے قومی مفاد کے لئے ان اہم خطوں میں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جنجال کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تکفیری انتہا پسندوں سے نمٹنے اور خطے کے معاملات سلجھانے، ان دونوں کاموں کے لئے سلامتی معاملات سنبھالنے میں روس کی صورتحال بہتر ہے، کیونکہ اس کے پاس علاقائی تجربہ، فوجی صلاحیت اور خطرات مول لینے کا حوصلہ ہے۔ مگر چین روس کے اقدامات کا قریبی مشاہدہ کر رہا ہے۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ 2015ء کے آغاز میں جبکہ شام میں مداخلت کا فیصلہ یقیناً ماسکو میں کیا جاچکا ہوگا، چینی اور روسی بحری افواج نے مشرقی بحرِ روم میں مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا۔ اب بھی ایک چینی طیارہ بردار بحری جہاز شام کے ساحل پر روسی بیڑے کے ساتھ موجود ہے۔ اب جبکہ واشنگٹن اور نیٹو ماسکو کی سلامتی کے شراکت دار نہیں بلکہ مشکلات کے ایجاد کر رہے ہیں، تو نئے یوریشیائی سلامتی انتظامات دو طرفہ کی بجائے سہ طرفہ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر ہو رہے ہیں، جن میں روس، چین، ایران، بھارت اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔

ان وسیع تر انتظامات کے تناظر میں اور روس کے اپنے علاقوں میں موجود مسلمان نسلی گروہوں کی سیاسی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، پوٹن نے اسلامی شعائر کے لئے احترام پر زور دینے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ شام پر حملوں کے موقع پر انہوں نے ماسکو کی مسجد کا افتتاح کیا، جو پورے روس میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ ترکی کے رجب طیب ایردوان اور فلسطین کے محمود عباس کے علاوہ روس کے تمام سیاسی اور مذہبی مسلمان رہنمائوں نے جن میں چیچنیا کے رمضان قادروف بھی شامل ہیں، ان کے اقدام کو سراہا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ کریملن اور روس مذموم، غیر اسلامی مقاصد کے لئے اسلام کو استعمال کرنے والوں کے خلاف اچھے مسلمانوں کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اب تک یہ پیغام کسی ردعمل کا موجب نہیں بنا ہے۔ مگر روس کے اندر انتہا پسند اور بنیاد پرست روسی مداخلت کو اسلام کے خلاف ’’صلیبی‘‘ جارحیت کے طور پر پیش کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یہ تاثر روس کے غیر دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے مضبوط ہوسکتا ہے، جو اپنی حب الوطنی کے جوش میں شام کو تکفیری دہشت گردوں کیخلاف استعمال کرنے کے لئے ہتھیاروں سے نواز رہا ہے۔

وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو شام میں روسی مداخلت نے روسی معاشرے میں ملے جلے تاثرات کو جنم دیا ہے۔ کسی کو نئے افغانستان میں پھنسنے کا خوف ہے، تو کوئی روسی طاقت کی نمائش کی وجہ سے مطمئن ہے۔ اکثریت جنگ جاری رکھنے پہ راضی ہے۔ لیکن شام میں زمینی افواج، کو اتارنے اور ہلاکتوں کو برداشت کرنے کے لئے عوام تیار نہیں، چاہے وہ شام کے میدانِ جنگ میں ہوں یا دہشت گردوں کے روس میں حملوں کے نتیجے میں۔ روسی مداخلت کا اقتصادی بوجھ کساد بازاری کے موجودہ حالات میں بھی اب تک نسبتاً قابل برداشت ہے۔ اسوقت جب افغانستان میں ملا عمر کی باقیات پاکستانی حکومت کا ساتھ دینے میں پس و پیش کا شکار ہیں، لیکن مذاکراتی عمل بھی جاری ہے، جس کی بدولت یہ کہنا مشکل ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر و رسوخ اور موثر کردار ختم ہونے کی حد تک محدود ہوگیا ہے، ایسے ہی یہ سمجھنا بھی قبل از وقت ہے کہ مشرق وسطٰی میں روس نے اپنا کردار محدود کر لیا ہے، جبکہ شام میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل ابھی بے نتیجہ ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مشرق وسطٰی میں جس حد تک امریکہ اپنے مفادات کی بدولت موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ روس کی موجودگی بھی ظاہر ہے۔

شام میں روس نے ایک ایسے فریق کا انتخاب کیا، جس کے پاس فوج بھی ہے اور حزب اللہ جیسے اتحادی بھی۔ روس نے شام میں اتنی فوجی قوت کا استعمال کیا، جتنی اس کو ضرورت تھی۔ فوجی طاقت کے استعمال کے اثرات ظاہر ہونے میں وقت تو ضرور لگا، لیکن اب نتائج بالکل واضح ہیں۔ روس نے صدر بشار الاسد کو افواج کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کی، تاکہ وہ ملک کے تمام حصوں پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھ سکے۔ اس ہدف کے حصول کے لئے اس نے ترکی اور مشرق وسطٰی کی مدد سے زندہ رہنے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا، لیکن اب وہ واضح طور پر جیت رہا ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک اپنے تضادات میں جکڑے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے گروہوں کی مدد کر رہے ہیں، جو ان کی نظر میں معتدل ہیں، لیکن کیا وہ واقعی معتدل ہیں، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ سب سے بڑا تضاد تو یہ ہے کہ شام میں امریکہ اور القاعدہ ایک طرف ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مغرب داعش کا خاتمہ چاہتا ہے، لیکن کیا اس کے علاقائی اتحادی، ترکی اور سعودی عرب بھی ایسا ہی چاہتے ہیں؟  صورتحال جو بھی رخ اختیار کرے، یہ واضح ہے کہ حزب اللہ اور اسلامی جمہوری ایران کو فتح یابی کے لئے بیرونی سہاروں کی ضرورت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 527960
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش