0
Sunday 28 Aug 2016 01:31

کوہساروں کی سرزمین افغانستان(2)

کوہساروں کی سرزمین افغانستان(2)
تحریر: سید اسد عباس

افغانستان سوویت یونین کے انخلاء کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی و مشرقی حواریوں کی جانب سے بھی لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران پاکستان افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا تھا، کیونکہ افغانستان میں برسر پیکار مجاہدین عملاً پاکستان اور افغانستان میں گہری جڑیں بنا چکے تھے۔ پاکستانی مدارس کے بہت سے طلاب اس جنگ میں عرب و عجم مجاہدین کے ہمراہ لڑتے رہے۔ پاکستان کی بہت سی جہادی تنظیمیں اسی عرصے میں معرض وجود میں آئیں۔ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد جیش، لشکر اور حزب کا لفظ پاکستان کے گلی کوچوں میں زبان زد عام رہا۔ اس دوران یہ مجاہدین کیا کرتے رہے ایک اہم سوال ہے۔ بہرحال افغانستان میں آنے والے اکثر جہادیوں کے لئے واپس اپنے اوطان میں پلٹ جانا عملاً ممکن نہ رہا تھا۔ افغانستان میں ہی مجاہدین کی Index یعنی القاعدہ تشکیل پائی۔ شیخ المجاہدین اور ان کے ساتھی سوویت یونین کے خلاف جہاد مکمل کرنے کے بعد ایک نئی سمت کو روانہ ہوگئے۔ کل تک جو ساتھی تھے آج ازلی دشمن بن گئے۔ اب مجاہدین کو عرب ممالک میں موجود ان کے اڈے نظر آنے لگے، حالانکہ یہ اڈے اس وقت بھی ان ممالک میں موجود تھے، جب ابھی افغان جہاد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ القاعدہ نے افغانستان کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مختلف مقامات پر مغربی قوتوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا، تاہم اس جہاد میں بھی اسرائیل کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ اس دوران افغانستان کے اندر طالبان کی تحریک معرض وجود میں آئی، جس نے افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کیا۔ طالبان نے اپنی امارت قائم کی تو وہ مجاہدین جو اپنے ملکوں کو لوٹ گئے تھے، واپس افغانستان کی جانب عازم سفر ہوئے۔ سرحدوں کے آر پار آنے جانے کا سلسلہ پھر سے اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ حتٰی کہ 9/11 کا واقعہ پیش آیا۔

اس وقوعہ کی آڑ میں امریکہ اپنے لاو لشکر کے ہمراہ ان پر ٹوٹ پڑا، جنہیں کل اس نے خود تراشا تھا۔ پاکستان عجیب سے مخمصے کا شکار ہوگیا، ایک جانب اس کا اسٹریٹجک ایسٹ تھا اور دوسری جانب دنیا کی سپر پاور عالمی سورماؤں کا ایک لشکر لئے دروازے پر کھڑی تھی۔ اگر پاکستان ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے تو انڈیا کو ان طاقتوں کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے اور اگر ساتھ دیتا ہے کہ اسٹریٹجک ایسیٹ کو زک پہنچتی ہے۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔۔۔۔نہ نگلی جاتی ہے نہ اگلی جاتی ہے۔۔۔ ایسی صورتحال میں پاکستان نے نہایت مشکل فیصلہ کیا اور اپنے اسٹریٹجک ایسیٹ کی قربانی دی اور امریکہ و مغربی لشکر کا حامی بن گیا۔ جس پر آج بھی اس وقت کی حکومت اور اس کے سربراہ کو کوسنے ملتے رہتے ہیں۔ بہرحال امریکی اور اتحادی افواج کی بمباری اور مسلسل حملوں کے سبب طالبان کی طاقت ٹوٹ گئی اور ان کا چار سالہ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا۔ دسیوں طالبان راہنماء پاکستان میں پناہ گزین ہوئے، القاعدہ کی مرکزی قیادت بھی بے پناہ بمباری سے بچتی بچاتی پاکستان آگئی۔ جب اتحادیوں کو اندازہ ہوا کہ رنگ لیڈر تو پاکستان میں محفوظ بیٹھے ہیں تو انہوں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے مختلف علاقوں تک بڑھایا۔ پاکستان سے طالبان اور القاعدہ کے کئی ایک مرکزی قائدین گرفتار ہوئے۔ کئی افراد ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ وہ جنہیں ہم نے خود تراش کر اپنا اسٹریٹجک ایسیٹ بنایا تھا، اب اپنے ہی اداروں کے خلاف جنگ آزما ہوگئے۔ وطن عزیز دوسروں کی آگ بجھاتے بجھاتے خود جلنے لگا۔

آئے روز دہشت گردی کے واقعات، بمب دھماکے، خودکش حملے ملک اور اس کے شہریوں کے لئے وبال جان بن گئے۔ مگر دوسری جانب افغان عوام بھی مشکلات سے دوچار تھی۔ جتنے دھماکے یہاں ہوتے تھے، اتنے ہی دھماکے افغانستان میں بھی ہو رہے تھے۔ یہ بات شاید کچھ لوگوں کو بری لگے، تاہم حق ہے، اس لئے کہنے سے نہیں رکوں گا کہ وہ لوگ جنہیں یہ نہیں اندازہ ہوا کہ جہاد کرنا کس کے خلاف ہے، ان سے کیسے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ یہ سوچتے کہ جہاد میں مارنا کس کس کو ہے۔ مرد و زن، بچے بوڑھے جوان، بلا تخصیص مذہب و مسلک اسلام کے نام لیواوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بننے لگے۔ نہیں معلوم کہ اتنے سارے زخم سہنے کے بعد اب بھی مسلمانوں کو اندازہ ہوا ہے کہ جہاد کسے کہتے ہیں اور جہاد کس کے خلاف ہوتا ہے کہ نہیں۔ بہرحال جس جہاد سے پاکستانی اور افغان قوم گزری ہے، الامان الحفیظ۔ شارع اسلام کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران میں غیر مسلموں کی املاک کو نقصان نہ پہنچاؤ، ان کے مویشیوں کو زبردستی نہ پکڑو، ان کے گرجے سلامت رہنے دو، درخت نہ اکھاڑو، کھیت تباہ نہ کرو، پانی کے ذخائر کو زہر آلود نہ کرو اور یہاں اس بات کی توجیہ کی جاتی ہے کہ جو مسلمان خودکش دھماکے کے دوران میں بے جرم و خطا مارے گئے، وہ بھی جنتی ہیں، السلام علی الاسلام۔

ہم تو پھر بھی کچھ دور ہیں، جہاں یہ الاؤ جل رہا تھا یعنی پہاڑوں سے اس پار افغانستان کی سرزمین پر کیا حالات ہوں گے، اس کا اندازہ فقط افغان شہریوں کو ہی ہوسکتا ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزین ہمسایہ ممالک میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔ عالمی طاقتوں نے جب جہاد افغانستان پر سرمایہ کاری کی تو انہوں نے ہر ہر شعبہ پر بھرپور توجہ دی۔ اسلحہ کی ترسیل ہو یا تربیت کا میدان، زخمیوں کی دیکھ بھال ہو یا مہاجرین کی آبادکاری و امداد ہر شعبہ میں کام ہوا۔ مگر جیسے ہی جنگ ختم ہوئی اور سوویت یونین ٹوٹ گیا تو سب عنایات کا سلسلہ یک دم سے تھم گیا۔ مہاجرین اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ نہ ملک رہنے کے قابل تھا اور نہ دیار غیر میں سر چھپانے کی جگہ۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کئی ایک علاقوں سے ان کا زور نہ ٹوٹا، اتحادی افواج اور طالبان کے مابین کئی مقامات پر گھمسان کے رن پڑے۔ اتحادی ملک کے دارالخلافہ یعنی کابل میں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب تو ہوگئے، لیکن انہیں معلوم تھا کہ اگر ہم نے اس کمزور حکومت کے سر پر سے ایک دن کے لئے بھی ہاتھ اٹھایا تو طالبان اسے لمحوں میں نگل جائیں گے۔ 2001ء سے 2016ء گذشتہ چار دہائیوں سے جنگ کا میدان بننے والی سرزمین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ نہ طالبان مکمل طور پر ختم ہوتے ہیں اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کا کوئی جواز پیدا ہوتا ہے۔ سول حکومتیں بھی اس قابل نہیں کہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ افغانستان میں قیام امن کی تمام تر کوششیں ہر صاحب نظر کے لئے عیاں ہیں، تاہم ابھی اصل حقائق تو باقی ہیں۔۔۔۔ان شاء اللہ اگلی قسط اس عنوان سے آپ کی زحمات کو تمام کر دے گی۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 563651
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش