0
Wednesday 28 Jun 2017 23:16

لہو لہو پاراچنار، لہو لہو پاکستان

لہو لہو پاراچنار، لہو لہو پاکستان
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاراچنار کو غیور پاکستانی مسلمانوں اور شہداء کی سرزمین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس سرزمین پر بسنے والے مکتب اہلبیت (ع) کے پیروکاروں نے اب تک اپنی مادر وطن اور مذہب کیلئے 7 ہزار سے زائد جانیں قربان کی ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وطن دوستوں کا وہ خطہ ہے جہاں کے طوری بنگش قبائل نے قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ قیام پاکستان کی کوششیں جاری رکھیں، ہم ہر اول دستے میں شمار ہوں گے۔ اسی وجہ سے بانی پاکستان نے اس علاقہ کے قبائل کو پاکستان کا بغیر تنخواہ کا سپاہی قرار دیا تھا۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک یہاں بسنے والوں نے اپنی وطن دوستی کا ایسا ثبوت دیا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں کے مکینوں نے ہزاروں جنازے اٹھائے، ملک دشمن طالبان کا مقابلہ کیا، افغانستان سے آنے والے دہشتگردوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئے، دہشتگردوں کا محاصرہ برداشت کیا، غذائی اجناس، ادویات کی قلت سہی، حتیٰ کہ ایف سی کی گولیوں کا بے گناہ مظاہرین نشانہ بھی بنے، لیکن مادر وطن سے غداری کا سوچا تک نہیں۔

پاراچنار میں دہشتگردی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ 1981ء میں شروع ہوا، جبکہ خودکش بم دھماکوں کا ایک نہ تھمنے والی داستان کا آغاز 2007ء میں ہوا۔ جب 7 اگست کو پاراچنار شہر کے بس اسٹینڈ میں ہونے والے دھماکے میں 9 افراد شہید جبکہ 43 زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد 16 فروری 2008ء کو پاراچنار میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر سید ریاض حسین شاہ کے الیکشن آفس پر خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے 68 افراد شہید جبکہ 109 زخمی ہوگئے۔ 7 فروری 2012ء کو پاراچنار شہر کے کرمی بازار دھماکہ کیا گیا، جس میں 46 افراد شہید اور 24 زخمی ہوئے۔ 10 دسمبر 2012ء کو کشمیر چوک پاراچنار میں کار بم دھماکہ ہوا، جس میں 16 شہری شہید جبکہ 40 زخمی ہوگئے۔ 26 جولائی 2013ء بمطابق 16 رمضان المبارک کو پاراچنار شہر کے مسجد چوک اور سکول روڈ میں یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے۔ جس میں 62 افراد شہید180 اور زخمی ہوگئے۔ 13 دسمبر 2015ء کو پاراچنار کے لنڈا بازار میں دھماکا ہوا۔ جس میں 48 افراد شہید اور 62 زخمی ہوگئے۔  21 جنوری 2017ء کو پاراچنار کی سبزی منڈی ميں ہونے والے دھماکے میں 26 افراد جاں بحق اور 86 زخمی ہوگئے۔

31 مارچ 2017ء کو پاراچنار میں مرکزی امام بارگاہ کے قریب کار بم دھماکا ہوا۔ جس میں 30 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد پاراچنار کو ایک بار پھر تکفیری دہشتگردوں نے نشانہ بنایا اور 25 اپریل 2017ء کو سینٹرل کرم کے علاقے گوادر میں دھماکا ہوا۔ جس میں 14 افراد شہید اور 9 زخمی ہوگئے۔ جس کے بعد حالیہ دنوں میں ایک اور انتہائی افسوس ناک واقعہ ہوا، 23 جون 2017ء بمطابق 27 رمضان کو یوم القدس کے جلوس کے ختم ہونے کے بعد طوری مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے۔ جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 100 سے زائد افراد شہید جبکہ 250 زخمی ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ٹل، پشاور اور ملک کے دیگر مقامات پر پاراچنار کے لوگوں کو سڑک کنارے نصب بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں درجنوں افراد شہید ہوئے۔ یہ سلسلہ کب رکے گا اور کب تلک پاکستان سے محبت کی سزا پاراچنار کے باسیوں کو ملتی رہے گی، یہ سوال اب تک جواب طلب ہے۔ لیکن اس بار پاراچنار کے بعض نوجوانوں کی جانب سے شروع کئے جانے والے احتجاج کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پاراچنار کے باسیوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دہشتگردی اب مزید نہیں چلے گی۔

جس روز پاراچنار میں دھماکہ ہوا اور پرامن مظاہرین پر ایف سی کمانڈنٹ کرنل ملک عمر کے حکم پر فائرنگ کی گئی، اس کے بعد وہاں کے نوجوانوں نے احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کرلیا، یہ فیصلہ اس قدر مضبوط تھا کہ کوئی طاقت ان نوجوانوں کو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا سکی، دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پاراچنار بلکہ پورے ملک سے اس دھرنے کی حمایت میں آواز بلند ہونا شروع ہوگئی، آج اس دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ یہ دھرنا جاری ہے اور مظلومین کا موقف ہے کہ ہم مطالبات کی منظوری اور عملدرآمد سے پہلے نہیں اٹھیں گے۔ گذشتہ روز مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی اس دھرنے میں پہنچے، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ آج میری آرمی چیف سے میری ملاقات ہوئی، میں نے انہیں کہا کہ ہمیں ہر جگہ نشانہ بنایا جاتا ہے، اسکا حل کیا ہے، یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان میں شیعہ، سنی لڑائی ہے۔؟ پاکستان میں ہرگز شیعہ، سنی لڑائی نہیں، ہمارا قاتل تکفیری ٹولہ ہے، ان کا بیس کیمپ انڈیا میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم باشعور اور سمجھدار ہے، ہمارا دشمن چاہتا ہے کہ ہم ڈر کر گھروں میں بیٹھ جائیں، یہ ہمیں خوف کے زندان کا قیدی بنانا چاہتے ہیں، ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم اکٹھے ہو رہے ہیں، ہم ظلم پر گھروں میں نہیں بیٹھیں گے۔ مطالبات منظور نہ ہوئے تو ہم پورے ملک میں باقاعدہ احتجاجی دھرنوں کا اعلان کردیں گے۔
خبر کا کوڈ : 648973
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش