0
Thursday 1 Mar 2018 13:56

مغربی ایشیا میں جاری اتحادوں کی جنگ

مغربی ایشیا میں جاری اتحادوں کی جنگ
تحریر: سہراب انعامی علمداری

اتحاد سازی اور اتحاد محوری کا عمل ہمیشہ سے طاقت کے حصول کا ایک ذریعہ اور عالمی سطح پر اور اسٹریٹجک امور میں توازنی عمل کے طور پر جانا گیا ہے۔ ایسے ممالک جو اپنے سکیورٹی کے امور میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا شکار ہوتے ہیں اتحاد محوری اور اتحاد سازی کے ذریعے اپنی قومی، علاقائی اور بین الاقوامی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس طرح علاقائی اور عالمی سطح پر موثر واقع ہونے کیلئے جائز اقتدار سے برخوردار ہو سکیں۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے شعبے میں معروف نظریہ ساز "رچرڈ روز کرانٹس" کہتے ہیں کہ جنگیں اس وقت شروع ہوتی ہیں جب توازن بگڑتے ہیں اور ممالک ضروری توازنوں کی جانب پلٹنے اور جنگ کے خاتمے کیلئے اتحاد سازی کرتے ہیں۔ مغربی ایشیائی خطہ اس وقت ایسے ہی بائیو اسٹریٹجکل اور جیوپولیٹیکل برتھ جیسے حالات سے روبرو ہے۔ ایسے حالات جن میں توازن بگڑ چکے ہیں اور اس کی سکیورٹی صورتحال میں جیواسٹریٹجکل توازن دکھائی نہیں دے رہا۔

ایسے حالات میں توازن اور اتحادوں کی نوعیت بھی اپنی ذات اور شکل میں دگرگوں ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2011ء سے ترکی شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانے میں سعودی عرب سے تعاون کر رہا تھا جبکہ مصر کے ساتھ اسلام پسند گروہوں سے متعلق اس کا تناو چل رہا تھا۔ مصر میں ایران اور ترکی کے مشترکہ مفادات تھے جبکہ شام میں دونوں ممالک کے مفادات میں تضاد پایا جاتا تھا۔ مصر کی فوجی حکومت عراق میں سیاسی استحکام کو اپنے مفادات کے حق میں تصور کرتی ہے لہذا اس پہلو سے ایران سے قریب ہے جبکہ سعودی عرب جو علاقائی سطح پر مصر کی موجودہ حکومت کا اصل اتحادی تصور کیا جاتا ہے عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے اصلی حامیوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن مغربی ایشیائی خطے کے بدامن ماحول میں رونما ہونے والی اسٹریٹجک تبدیلیوں نے ایسا رخ اختیار کیا کہ سکیورٹی توازن بگڑنے کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی سکیورٹی بحران کی لپیٹ میں آ کر وسیع اور ہمیشگی تبدیلیوں کا شکار ہو گئے۔ اس وقت مغربی ایشیا کا شدید بدامنی کا شکار سکیورٹی ماحول ہر روز نئی تبدیلیوں کا گہوارہ بنا دکھائی دیتا ہے۔

اس روز بروز بدلتی صورتحال کی پہلی علامت ایکدوسرے کے مقابلے میں توازن اور عدم توازن کے قیام کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب توازن کے ایک طرف ایران، ترکی اور روس ٹیکٹیکل
نہیں بلکہ اسٹریٹجک اتحاد تشکیل دیتے ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور بعض خلیجی عرب ریاستیں عدم توازن پیدا کر کے خطے کا تعادل بگاڑنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔ اسٹریٹجک اور نہ ٹیکٹیکل اتحاد تشکیل دینے پر تاکید خطے کی سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں ہے کیونکہ بدامنی اور انارکی کے ماحول میں حکومتوں کی جانب سے توازن اور نظم و نسق برقرار کرنے کی کوشش بنیادی طور پر اسٹریٹجک نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اس تناظر میں خطے میں موجود سکیورٹی بحران کے دوران حکومتوں کا باہمی اتحاد ایک اسٹریٹجک اتحاد قرار دیا جائے گا۔ شام میں علاقائی سطح پر موجود رقابتوں کے عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹریٹجک اتحاد بہت سی سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ہر اسٹریٹجک اتحاد طاقت اور خطرے کی ایک علامت کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے لہذا شام میں پائے جانے والے اسٹریٹجک اتحاد بھی طاقت، خطرے اور تکثیریت کے تابع ہیں۔ اس تناظر میں ایران، سعودی عرب، صہیونی رژیم، ترکی، روس اور امریکہ جیسے کھلاڑیوں کے عملی اقدامات اور فیصلوں کی نوعیت مرحلہ وار اتحادوں کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کا سکیورٹی بحران اسٹرکچرل اور اسٹریٹجک علامات کا مجموعہ ہے۔ لہذا شام سے متعلق اتحاد بھی اسٹرکچرل اور اسٹریٹجک نوعیت کے ہیں۔ تمام علاقائی کھلاڑی اور بڑی طاقتیں پر آشوب ماحول خاص طور پر شام کے بحران سے ہی اتحاد اور توازن کا معنی اخذ کرتی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران روس، ایران اور ترکی کے درمیان توازن برقرار کرنے والے اتحاد اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کے خلاف آپریشنل کاروائی کا سہارا لیا ہے۔ ایسے اقدامات کو شام کے سیاسی مستقبل میں بحران اور توازن کے کنٹرول سے مربوط قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی کھلاڑیوں جیسے ایران، سعودی عرب، شام اور ترکی کے درمیان پائے جانے والے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور روس کی آپریشنل سرگرمیوں نے شام میں امریکہ کی پوزیشن بہت حد تک کمزور کر دی ہے اور اس کی جانب سے عدم توازن پیدا کرنے کی کوششوں کو شدید چیلنجز سے روبرو کیا ہے۔ ایسے میں روس کی بھی یہی کوشش رہی ہے کہ ایک طرف سے خطے کے ممالک خاص طور پر ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب
سے چند طرفہ تعلقات میں وسعت لائے اور دوسری طرف خطے میں موجود بحرانوں میں بھی موثر کردار ادا کرے۔ اس بنیاد پر ماسکو نے پہلے "مشرق وسطی کے ثالثی ادا کرنے والے گروپ فور" کی صورت میں بحرانوں کو کنٹرول کرنے اور خطے میں نظم و نسق برقرار کرنے کی کوشش کی۔ مشرق وسطی کے ثالثی ادا کرنے والے گروپ فور جو "کوارٹیٹ گروپ" کے طور پر معروف تھا میں روس، امریکہ، اقوام متحدہ اور یورپی یونین شامل تھے۔

شام میں بحران کی شدت میں اضافے اور مغربی ایشیائی خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے منظرعام پر آ جانے کے بعد ماسکو نے جیوپولیٹیکل نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا۔ روس کی نئی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ملک سنجیدگی سے مشرق وسطی سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی میں مصروف ہے۔ اس راستے میں روس نے امریکی پالیسیوں کے باعث خطے کو درپیش چیلنجز کے باعث پیدا ہونے والے طاقت کے خلاف کو بھانپتے ہوئے اس خلا کو پر کرنے اور نیا توازن ایجاد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماسکو شام میں فوجی موجودگی، اتحاد سازی اور چند طرفہ سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے توازن سازی اور محدود سازی کی اسٹریٹجی پر عمل پیرا ہے۔ اس اتحاد سازی کی ایک مثال قازقستان کے دارالحکومت "آستانہ" میں منعقد ہونے والی میٹنگز کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ اب تک آستانہ میں شام میں امن و امان کی بحالی کیلئے جاری مذاکرات کی 8 نشستیں منعقد ہو چکی ہیں جن میں روس، ایران اور ترکی کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار اور سربراہان مملکت شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد شام میں جاری سکیورٹی بحران کے زمینی حقائق میں اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل تبدیلیاں لانا ہے۔

زیادہ دقیق انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطی سے متعلق روس کی سرگرمیوں میں اضافے کے چار بنیادی اسباب ہیں؛ ایک امریکہ کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کا مقابلہ کرنا، دوسرا عالمی طاقت ہونے کے ناطے بین الاقوامی کردار پیدا کرنا، تیسرا خطے کے ممالک سے اقتصادی تعلقات میں وسعت لانا اور مشرق وسطی خطے کی مارکیٹ میں روس کا حصہ بڑھانا اور چوتھا دہشت گردی کو کنٹرول کرنا۔ دوسری طرف دو علاقائی طاقتیں یعنی ایران اور سعودی عرب بھی سفارتی جنگ کے میدان میں اتر چکی ہیں۔ سعودی حکام نے امریکہ میں نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آتے ہی مئی 2017ء میں امریکہ
اور عرب اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس "امریکہ عرب اسلامک کانفرنس" کے نام سے منعقد کیا۔ اس کانفرنس کا مقصد اتحاد سازی میں وسعت لانا اور مختلف جیوپولیٹیکل شعبوں میں مطلوبہ توازن سازی کی طاقت میں اضافہ کرنا تھا۔ یہ سلسلہ بعد میں خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں جاری رہا۔ لیکن امریکہ کی جانب سے شام سے متعلق واضح سکیورٹی اسٹریٹجی کے فقدان اور عرب ممالک کے درمیان اجتماعی خرد کے نہ ہونے کے باعث سعودی حکام اب تک اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکامی کا شکار رہے ہیں۔

اگر ہم بین الاقوامی تعلقات عامہ کے تناظر سے اتحاد سازی کی منطق کا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ مختلف ممالک اس وقت اتحاد سازی کی طرف آتے ہیں جب ان کی قومی سلامتی کسی قسم کے خطرے، عدم توازن یا بدامنی سے روبرو ہو۔ ایسے حالات میں بدامنی والے ماحول سے حاصل ہونے والا سکیورٹی علم اور سمجھ بوجھ انہیں اتحاد سازی اور توازن سازی کی جانب دھکیلتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی مغربی ایشیا کے پر آشوب ماحول میں جدید نقطہ نظرات کی بنیاد پر اتحاد سازی میں مشغول ہے۔ پر آشوب ماحول سے حاصل ہونے والے سکیورٹی فہم نے اسٹریٹجک شعبے کے پالیسی ساز افراد کیلئے واضح کر دیا ہے کہ بدامنی اور انارکی پر کنٹرول پانے کیلئے سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے طاقتور ہونے کی ضرورت ہے۔ ایران کی موجودہ حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے اقدامات انجام دیئے ہیں جن کا نتیجہ نرم طاقت میں اضافہ، اتحادوں کی تشکیل، توازن ایجاد ہونے اور اعتماد کی بحالی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

مغربی ایشیا میں اسٹریٹجک تبدیلیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں اور اس لحاظ سے یہ خطہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں سفارتی جنگ اور اتحادوں کا ٹکراو ہی فاتح میدان کا تعین کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے اسٹریٹجک ماہرین کیلئے ایسے بے شمار سوالات باقی ہیں جن کا جواب ابھی ان کے پاس نہیں۔ کیا خطے میں نئی جنگوں کا آغاز ہوا چاہتا ہے؟ اور کیا خطے کیلئے پر آشوب دور سے نکل کر پرامن دور میں داخل ہونا ممکن ہو گا؟ کون سا ملک یا کون سے ممالک خطے میں نئے آرڈر کی تشکیل میں موثر کردار ادا کر پائیں گے؟ اور ایسے ہی دسیوں اور سوال ہیں جن کا جواب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی واضح ہو سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 708317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش