4
0
Tuesday 28 Apr 2020 16:38

دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں(3)

دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں(3)
تحریر: ساجد محمود
جامعة المصطفیٰ العالمیه قم
Sajjidali3512@gmail.com
 

قبولیت دعا کی شرائط
4۔ دعا جائز ہو:
دعا کی شرائط میں سے چوتھی شرط یہ ہے کہ دعا جائز کام کے لیے ہو۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی ناجائز کام لئے دعا کرے گا، تو اسکی دعا قبول نہیں ہو گی، مثلاً اگر کوئی خداوند متعال سے رزق مانگے لیکن اس لیے مانگےکہ اس رزق کے ساتھ حرام کام انجام دے، تو چونکہ خداوند متعال کی ذات ہمارے باطن سے آگاہ ہے لہٰذا دعا قبول نہیں کرے گا اس لیے کہ مقصد حرام کام ہے۔ بسا اوقات انسان دعا کرتا ہے، لیکن دعا کی شرائط کو فراہم نہیں کرتا جس کی وجہ سے اسکی دعا رد ہو جاتی ہے. پھر انسان شکوے خدا سے کرتا ہے، کہ ہم دعا تو کرتے ہیں لیکن خدا ہماری دعا سنتا نہیں، حالانکہ بالکل بھی ایسا نہیں ہے، وہ تو خود فرماتا ہے، کہ مجھ سے مانگو تاکہ تمہیں عطا کروں، اس کے خزانے تمام ہونے والے ہیں ہی نہیں، بس کوتاهی ہمارے مانگنے میں ہے، نہ کہ اس رحمان و رحیم کے عطا کرنے میں۔

5۔ دعا قبول ہونے پر یقین:
دعا کی شرایط میں سے پانچویں شرط دعا کے قبول ہونے پر یقین رکھنا ہے۔ انسان دعا کرنے سے پہلے یقین رکھے کہ خداوند متعال ہر چیز پر قادر ہے، ہماری کسی بھی حاجت کو پورا کرنا اس کے لیے ناممکن نہیں ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ادْعُوا اَللَّهَ وَ أَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ؛" خدا سے دعا کریں درحالانکہ آپ کو دعا کے قبول ہونے پر یقین ہو۔1 یعنی اس یقین کے ساتھ دعا کریں کہ خداوند متعال ہماری دعا کو قبول کرے گا۔ اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے چند مراتب ہیں، بسا اوقات خداوند متعال ہماری دعا کو قبول کر لیتا ہے، لیکن ہمیں خبر نہیں ہوتی، اس لیے کہ ہم تمام امور کے مصالح اور مفاسد سے آشنا نہیں ہوتے اور دعا خود خداوند متعال کی عبادات میں سے ایک عبادت اور خداوند متعال کے سامنے اظهار تواضع ہے۔ خداوند متعال کی رحمت واسعه کا تقاضا یہ ہے کہ اس اظہار تواضع اور عبادت کا اجر ملے، لہٰذا اس اعتبار سے ہر دعا کی قبولیت حتمی ہے۔

امام سجاد علیہ السلام نے دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرمایا :"اللهُمَّ إِنِّی أَجِدُ سُبُلَ الْمَطَالِبِ إِلَیْکَ مُشْرَعَةً وَ مَنَاهِلَ الرَّجَاءِ إِلَیْکَ [لَدَیْکَ‏] مُتْرَعَةً وَ الاسْتِعَانَةَ بِفَضْلِکَ لِمَنْ أَمَّلَکَ مُبَاحَةً وَ أَبْوَابَ الدُّعَاءِ إِلَیْکَ لِلصَّارِخِینَ مَفْتُوحَةً وَ أَعْلَمُ أَنَّکَ لِلرَّاجِی (لِلرَّاجِینَ‏) بِمَوْضِعِ إِجَابَةٍ؛"۔ اے معبود! میں اپنے مقاصد کی راہیں تیری طرف کھلی ہوئی پاتا ہوں اور امیدوں کے چشمے تیرے ہاں بھرے پڑے ہیں ہر امید وار کے لئے تیرے فضل سے مدد چاہنا آزاد و روا ہے اور فریاد کرنے والوں کی دعاؤں کیلئے تیرے دروازے کھلے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ تو  امیدوار کی جائے قبولیت ہے۔ 2 اسی دعا میں ہی دوبارہ ارشاد فرمایا: "ولیس من صفاتک ان تامر بالسؤال وتمنع العطیة؛"۔ اے میرے سردار! یہ بات تیری شان سے بعید ہے کہ تو مانگنے کا حکم دے تو عطا نہ فرمائے۔3 امام سجاد علیہ السلام کی اس پربرکت دعا کے جملات سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت حتمی ہے، البتہ قبولیت کے مراتب ہیں، ممکن ہے ہم ان تمام مراتب سے آشنا نہ ہوں۔

6۔ محرمات کو ترک کرنا:
دعا کی شرایط میں سے چھٹی شرط محرمات کو ترک کرنا ہے۔ اس لیے کہ جو بھی اپنی مالک سے کسی چیز کی حاجت رکھتا ہو، اور اسکا محتاج ہو، اسے چاہیئے کہ ایسے کاموں کو انجام نہ دے جو اسکے مالک کی ناراضگی کا سبب بنیں. ہم چونکہ ہر ہر سانس پر اس مالک حقیقی کے محتاج ہیں، اپنی حاجات کو اس کی بارگاہِ میں پیش کرنا ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں  چاہیئے کہ ہم ایسے کام (محرمات) کو انجام نہ دیں جس کی وجہ سے ہمارا مالک حقیقی ہم سے ناراض ہو جائے، اور ہماری حاجات کو پورا نہ کرے. وہ محرمات کہ جن کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی، ان میں سے رزق حرام سے بچنے کی معصومین علیهم السلام نے بہت تاکید فرمائی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "إِنَّ اَللَّهَ لاَ يُرْفَعُ إِلَيْهِ دُعَاءُ عَبْدٍ وَ فِي بَطْنِهِ حَرَامٌ"  خدا اس بندے کی دعا قبول نہیں کرتا جس کے شکم میں حرام ہو۔ 4 معلوم ہوا دعا کی قبولیت کے لیے محرمات سے اجتناب ضروری ہے، اور بالخصوص رزق حرام سے اجتناب۔ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: یا رسول اللہ! میں چاہتا ہوں میری دعا قبول ہو کیا کروں؟ رسول خدا صلی نے فرمایا: "طَهّرْ مَأکَلَکَ وَ لا تُدْخِلْ بَطْنَکَ الْحَرَامَ"؛ اپنی روزی کو پاک رکھ، ہر گز حرام کو شکم میں داخل نہ کر۔5
ایک اور مقام پر رسول اللہ نے فرمایا: "مَن أحبَّ أن یُستجابَ دعاءُهُ فَلیطیِّبْ مطعَمَهُ و مکسَبَهُ؛" جو بھی چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو، وہ اپنے کسب اور روزی کو پاک رکھے۔ 6

7۔ صدقہ اور مسجد:
دعا کی شرایط میں سے ساتویں شرط یہ ہے کہ دعا سے پہلے صدقہ دیا جائے اور دعا مسجد میں کی جائے۔ جہاں پر اور بہت سی شرائط قبولیت دعا کے لیے مہم ہیں، وہاں پر مکان دعا بھی خاص اہمیت کا حامل ہے، کہ انسان دعا کے لیے کونسے مکان کا انتخاب کرے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد فرمایا: "كَانَ أَبِي إِذَا طَلَبَ اَلْحَاجَةَ طَلَبَهَا عِنْدَ زَوَالِ اَلشَّمْسِ فَإِذَا أَرَادَ ذَلِكَ قَدَّمَ شَيْئاً فَتَصَدَّقَ بِهِ وَ شَمَّ شَيْئاً مِنْ طِيبٍ وَ رَاحَ إِلَى اَلْمَسْجِدِ وَ دَعَا فِي حَاجَتِهِ بِمَا شَاءَ اَللَّهُ؛" میرے والد گرامی جب چاہتے تھے کہ خدا سے حاجت طلب کریں، تو ظہر کے وقت طلب کرتے تھے، جیسے ہی دعا کا اردہ کرتے، ایک چیز پہلے لاتے اور صدقہ دیتے، اور تھوڑی سی عطر لگاتے، اور مسجد چلے جاتے تھے، وہاں جا کر اپنی حاجت کے لیے دعا کرتے۔ 7 اس حدیث میں امام علیہ السلام نے بطور نمونہ ہمارے لیے ایک معصوم کی سیرت کو نقل کیا کہ امام معصوم جب بھی دعا کرنا چاہتے تھے، خدا سے اپنی حاجت کو طلب کرنا چاہتے تھے، تو صدقہ دیتے، عطر لگاتے، مسجد جاتے، اور ظہر کے وقت دعا کرتے۔

8۔ عقیق اور فیروزہ پہننا:
دعا کی شرایط میں سے آٹھویں شرط ہے ہاتھ میں عقیق اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔ رسول خدا صلی نے ارشاد فرمایا: "قالَ اَللَّهُ سُبْحَانَهُ لَأَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدٍ يَرْفَعُ يَدَهُ وَ فِيهَا خَاتَمُ فِضَّةٍ[فَصُّهُ]فَيْرُوزَجٌ فَأَرُدُّهَا خَائِبَةً"؛.خدا فرماتا ہے مجھے شرم آتی ہے، میں اس بندے کی دعا کو رد کروں، جس کا ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اور اس میں فیروزہ کی انگوٹھی ہو۔ عقیق کی انگوٹھی کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "اَلشَّيْبَانِيِّ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: مَا رُفِعَتْ كَفٌّ إِلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ كَفٍّ فِيهَا عَقِيقٌ؛"۔ خدا کے طرف اٹھنے والے ہاتھوں میں سے، خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہاتھ ہے جس میں عقیق ہو۔ 9

9۔ حمد خدا اور صلوات:
دعا کی شرایط میں سے نویں شرط یہ ہے کہ دعا سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثنا، اور محمد و آل محمد پر صلوات بھیجی جائے۔ خدا کی حمد اور محمد و آل محمد پر صلوات یہ دو ایسی مہم شرطیں ہیں جو دعا کو شرف قبولیت تک پہچانے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "إِيَّاكُمْ إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَسْأَلَ مِنْ رَبِّهِ شَيْئاً مِنْ حَوَائِجِ اَلدُّنْيَا وَ اَلْآخِرَةِ حَتَّى يَبْدَأَ بِالثَّنَاءِ عَلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ اَلْمَدْحِ لَهُ وَ اَلصَّلاَةِ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ ثُمَّ يَسْأَلَ اَللَّهَ حَوَائِجَهُ؛"۔ ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی خداوند متعال سے  دنیا و آخرت کی حاجات میں سے کوئی چیز مانگے، پہلے خدا کی حمد و ثنا، خدا کی مدح، نبی کریم پر صلوات پڑھے، پھر خدا سے اپنے حاجت کا سوال کرے۔ محمد بن مسلم کہتا ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "إِنَّ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَّ اَلْمِدْحَةَ قَبْلَ اَلْمَسْأَلَةِ فَإِذَا دَعَوْتُمُ اَللَّهَ فَمَجِّدُوهُ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ نُمَجِّدُهُ قَالَ تَقُولُ يَا مَنْ هُوَ أَقْرَبُ إِلَيَّ مِنْ حَبْلِ اَلْوَرِيدِ يَا مَنْ يَحُولُ بَيْنَ اَلْمَرْءِ ؛"... حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں سے لکھی  کتاب میں آیا ہے کہ حاجت طلب کرنے سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثنا کرنی چاہیئے، بس جو چاہتا ہے کہ خدا سے حاجت طلب کرے وہ پہلے اس کی حمد کرے۔"

مسلم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا حمد کیسے کریں؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے وہ خدا کہ جو میری شہ رگ سے زیادہ میرے قریب ہے، اے وہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے، اے وہ کہ جس کا مقام بلند ہے، اے وہ کہ جس کی مثل کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ 11 ایک مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: "لاَ يَزَالُ اَلدُّعَاءُ مَحْجُوباً حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ؛" دعا  کا اس وقت تک حجاب زائل نہیں ہوتا، جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ بھیجی جائے۔ 12 اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:"إِنَّمَا هِيَ اَلْمِدْحَةُ ثُمَّ اَلثَّنَاءُ ثُمَّ اَلْإِقْرَارُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ اَلْمَسْأَلَةُ إِنَّهُ وَ اَللَّهِ مَا خَرَجَ عَبْدٌ مِنْ ذَنْبٍ إِلاَّ بِالْإِقْرَارِ؛" باتحقیق (دعا کے وقت) پہلے مدح (خداوند متعال کی صفات) پھر ثنا (اس کی نعمتوں کا اعتراف اور شکر) پھر گناہوں سے خروج و اقرار، اس کے بعد دعا۔ 13 اس حدیث میں مدح و ثنا کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کا ذکر بھی ہوا ہے، وہ ہے انسان کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا۔ یعنی جب انسان خدا سے کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے کہ خدایا گنہگار ہوں مگر تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوں۔

10۔ دل میں خضوع اور رقت طاری کرنا:
جب انسان اپنی دعا مستجاب کرانے کا ارادہ کرے تو اس کے لئے قلب پر رقت طاری کرنا ضروری ہے اور انسان اپنے دل پر رقت طاری کرنے کی کو شش کرے اس لئے کہ جب دل پر رقت طاری ہو جاتی ہے تو وہ صاف و شفاف ہو جاتا ہے، الله اور اس بندے کے درمیان سے مانع ہونے والی چیزیں ہٹ جاتی ہیں اور بندہ الله سے قریب ہو جاتا ہے۔ دعا اور سوال کرنے کے طریقوں میں دل پر رقت طاری ہونا موٴثر ہے اور روایات میں دعا کرتے وقت اپنے کو اسکی بارگاہ میں ذلیل و خوار کر کے پیش کرنا وارد ہوا ہے۔ احمد بن فہد حلی نے کتاب (عدةالداعی) میں نقل کیا ہے: "انّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اذا ابتہل و دعا کان کما یستطعم المسکین"۔ 14 جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گریہ و زاری فرماتے تھے تو آپ کی وہی حالت ہوتی تھی جو مسکین کی کھانا طلب کرتے وقت ہوتی ہے۔ روایت کی گئی ہے کہ ب الله نے جناب مو سٰی علیہ السلام پر وحی نازل فرجمائی: "اٴلق کفیک ذُلّابین یدیّ کفعل العُبید المستصرخ الی سیّدہ، فاذا فعلت ذالک رحمت، و اٴنا اکرم الاٴکرمین القادرین"۔ 15 میرے سامنے تم اُس ذلیل و خوار غلام کی طرح آؤ جو اپنے آقا کے سامنے بالکل ذلیل وخوار ہوتا ہے اس لئے کہ جب وہ غلام ایسا کرتا ہے تو آقا اس پر رحم کرتا ہے اور میں سب سے زیادہ اکرام کرنے اور قدرت رکھنے والا ہوں۔

11۔ معصوم علیہ السلام کی ولایت پر اعتقاد اور انہیں شفيع ماننا:

قال اللہ تعالیٰ: "فَمَنْ سَأَلَنِیْ بِھِمْ عَارِفَاً بِحَقِّھِمْ وَ مَقَامِھِمْ اَوْجَبْتَ لَہ مِنِّی اَلْاِجَابَةَ؛" خدا فرماتا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرم ﷺ اور آئمہ معصومین کا واسطہ دے کر مجھ سے سوال کرے اور دعا مانگے جبکہ وہ ان کے حق اور مقام کو پہچانتا ہو تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ 16 امام محمد باقر فرماتے ہیں: "مَنْ دَعَا اﷲ بِنَا اَفْلَحَ" یعنی جو شخص ہم اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرے تو وہ شخص کامیاب و کامران ہے۔ 17 جناب یوسف کے واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ جناب جبرائیل حضرت یعقوب کے پاس آئے اور عرض کی، کیا میں آپ کو ایسی دعا بتاؤں کہ جس کی وجہ سے خدا آپ کی بینائی اور آپ کے دونوں بیٹے (یوسف و بنیامین) آپکو واپس لوٹا دے حضرت یعقوب نے کہا وہ کون سی دعا ہے۔ فقال جبرائیل" "قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِّیٍ وَ فَاطِمَةَ وَالْحَسنِ وَالْحُسَین اَنْ تَأتِیْنیْ بِیوْسُفَ وَ بُنْیامِیْنَ جَمِعیاً وَ تُرَدُّ عَلیَّ عَیْنیِ" حضرت جبرائیل نے حضرت یعقوب سے کہا کہ یوں دعا مانگو خدایا میں تجھے محمد ۖ، علی، فاطمہ، حسن و حسین کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میرے دونوں بیٹوں (یوسف اور بنیامین) کو اور میری بینائی کو واپس لوٹا دے۔

جناب یعقوب کی یہ دعا ابھی تمام ہی ہوئی تھی کہ قاصد (بشیر) نے آکر جناب یوسف کی قمیص حضرت یعقوب پر ڈال دی تو آپ کی آنکھیں بینا ہو گئیں۔ 18 حدیث قدسی میں ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے چالیس شب عبادت کرنے کے بعد دعا کی لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوئی، تو اس نے حضرت عیسٰی کے پاس شکایت کی، حضرت عیسٰی نے بارگاہ خداوندی سے سوال کیا تو جواب ملا کہ اس نے دعا کا صحیح راستہ اختیار نہیں کیا: "اِنَّہُ دُعَانِیْ وَ فِیْ قَلْبِہ شَک مِنْکَ" کیوںکہ وہ مجھ سے تو دعا کرتا ہے اور حاجت طلب کرتا ہے لیکن اسکے دل میں تیری نبوت کے بارے میں شک ہے (یعنی تیری نبوت کا معتقد نہیں ہے)۔ 19 لہٰذا وہ اگر اس (شک اور عدم اعتقاد کی) حالت میں اتنی دعا کرے کہ اس کا سانس ختم ہو جائے اور اس کی انگلیاں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تب بھی میں اس کی دعا قبول نہیں کروں گا۔

12۔ سب کے لیے دعا کرنا:
"قال رسول اللہ ۖ: اِذا دَعَا اَحَدَکُمْ فَلْےُعِمَّ فَاِنَّہُ اَوْجَبَ لِلدُّعَائِ پیغمبر اکرم ﷺفرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو اسے چاہیئے کہ اپنی دعا کو عمومیت دے یعنی دوسروں کو بھی دعا میں شریک کرے کیونکہ ایسی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ 20 قال الامام الصادق "مَنْ قَدَّمَ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعَاہ اَسْتُجِیبُ لَہُ" جو شخص پہلے چالیس مومنین کے لئے دعا کرے اور پھر اپنے لئے دعا مانگے تو اس کی دعا قبول ہوگی۔21

13۔ دعا کے ساتھ کوشش:
یعنی دعا کا معنی یہ نہیں ہے کہ انسان کام و سعی اور کوشش چھوڑ دے اور گھر بیٹھ کر فقط دعا کرتا رہے۔ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: "ثَلَاثَة تُرَدُّ عَلَیْھُمْ دَعْوَتُھُمْ: رَجُل جَلَسَ فِیْ بَیتِہ وَ قَال یا رَبِّ اُرْزُقِیِ فَےُ قَالُ لَہُ اَلَمْ اَجْعَلْ لَکَ السَّبِیْلَ اِلیٰ طَلَبِ الرَّزْق" تین قسم کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہو گی (ان میں سے) ایک وہ شخص ہے جو فقط گھر میں بیٹھ کر یہ دعا کرتا رہے کہ خداوندا مجھے روزی عطا فرما اسے جواب دیا جائے گا۔ کیا میں نے تیرے لئے روزی کمانے کا ذریعہ اور وسیلہ قرار نہیں دیا۔ دوسرے لفظوں میں حصول رزق کیلئے تلاش و کوشش کرنا، کام کرنا ایک چیز ہے لیکن روزی کا نصیب ہونا اس کا بابرکت ہونا توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا دوسرا مطلب ہے جس میں دعا بہت مؤثر ہے۔ 22 بسا اوقات ہم عملی طور پر کرتے کچھ بھی نہیں ہیں۔ فقط دعا کے ذریعے معجزے کے انتظار میں ہوتے ہیں، حالانکہ ایسا کبھی بھی نہیں ہے۔ معصومین علیهم السلام نے ہمیں یہ درس دیا کہ پہلے روزی کے مقدمات فراہم کرو، پھر دعا تمہارے لیے مؤثر ثابت ہو گی۔ جس طرح ایک انسان مریض ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے. یہاں ڈاکٹر کے پاس جانا ایک چیز ہے، دوائی سے شفا ملنا یہ دوسری چیز ہے، اس میں دعا بہت مؤثر ہوتی ہے۔
یعنی مریض پہلے ڈاکٹر کے پاس جائے گا صحت کے مقدمات فراہم کرے گا پھر اس کے لیے دعا مؤثر ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع و مآخذ:

1۔ عدة الداعي و نجاح الساعي، جلد 1، صفحه 144
2۔ مفاتیح الجنان، دعای ابو حمزه ثمالی
3۔ مفاتیح الجنان، دعای ابو حمزه ثمالی
4۔ بحار الأنوار، ج 90، ص 321
5۔ وسایل الشیعه، ج14، باب 467
6۔ بحارالانوار، ج 93، ص 372
7۔ الکافي، ج 2، ص 477
8۔ مهج الدعوات، ج 1، ص 359
9۔ ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ج 1، ص 174
10۔ الکافی، ج 2، ص 484
11۔  فلاح السائل، ج 1، ص 35
12۔ مکارم الأخلاق، ج 1، ص 274
13۔ الکافي، ج 2، ص 484
14، عدة الداعی صفحہ / ۱۳۹، والجالس للمفید صفحہ/ ۲۲۔
15۔ عدة الد اعی صفحہ / ۱۳۹۔
16۔ وسائل الشیعہ، باب دعا، حدیث 37۔
17۔ وسائل الشیعہ، باب دعا، حدیث 12۔
18۔ وسائل الشیعہ، باب دعا۔
19۔ میزان الحکمة، حدیث 5648
20۔ میزان الحکمة۔ حدیث نمبر 5630
21۔ میزان الحکمة، حدیث نمبر 5632،
22۔ وسایل الشیعہ، باب. دعا. حدیث 50۔
خبر کا کوڈ : 859550
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Misbah
Pakistan
This article is very impressfull and knowledge full Mola mazeed himat taqat di or kamyabi 🌹
فاطمہ زہرا
Iran, Islamic Republic of
بہت بہترین عالی
جزاک اللہ
کاظمی
Iran, Islamic Republic of
زبردست
خداوند توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے اور ھمیشہ سلامت رھیں، آمین
اور سب کو دوسروں کے حق میں بھی دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد سجاد
Iran, Islamic Republic of
بہت اعلٰی
ہماری پیشکش