1
1
Monday 15 Jun 2020 19:54

کیا نئے انتفاضہ کا آغاز ہو رہا ہے؟

کیا نئے انتفاضہ کا آغاز ہو رہا ہے؟
تحریر: محمود حکیمی

20 مارچ کے انتخابات میں بنجمن نیتن یاہو کا سب سے بڑا نعرہ مغربی کنارے اور دریائے اردن کے درے کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ملحق کرنے پر مبنی تھا۔ اسی نعرے کی بدولت اس نے انتخابات میں یقینی شکست سے بھی نجات حاصل کی اور کرپشن سے متعلق عدالت میں اپنے کیس کو بھی کسی نہ کسی طرح نمٹانے میں کامیاب رہا۔ مذکورہ بالا علاقے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ملحق کرنے کا منصوبہ بنجمن نیتن یاہو کی نجات کی چابی ہے اور اب وہ اپنے اصلی حریف بنی گانز کے ساتھ مشترکہ کابینہ تشکیل دینے کے بعد اس چابی کو اپنے ذاتی اثرورسوخ میں اضافے اور سیاست کے میدان میں باقی رہنے کیلئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یکم جولائی کی تاریخ کا اعلان کر رکھا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وہ اور بنی گانتز نے مل کر یکم جولائی تک باقی بچ جانے والی مدت میں اس منصوبے کے مقدمات فراہم کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف بعض دیگر آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کیلئے ضروری مقدماتی اقدامات کا پہلا مرحلہ غاصب صہیونی رژیم کے سیاسی، فوجی اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ مک مکا ہے۔

بنجمن نیتن یاہو یہ مرحلہ بنی گانتز کے ساتھ مل آگے بڑھا رہا ہے۔ بنی گانتز شروع میں الحاق کے اس منصوبے کی مخالفت کا اظہار کر رہا تھا لیکن اب جبکہ بنجمن نیتن یاہو نے اسے بھے حکومت میں اپنا حصہ دار بنا لیا ہے وہ مخالفت بھی ختم ہو چکی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے گویا فلسطینی سرزمینوں پر زیادہ سے زیادہ قبضہ اسرائیل کی تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ مقصد ہے۔ اسرائیل کے سیاسی حلقوں میں اختلاف صرف اس بات پر پایا جاتا ہے کہ اس ناجائز قبضے اور غصب کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا۔ دریائے اردن اور مغربی کنارے کی زمینوں پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے منصوبے نے ایک اور حقیقت سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے اور وہ مغربی ممالک کی منافقانہ سیاست ہے۔ یورپی یونین نے سرکاری طور پر اس منصوبے کی مخالفت کی ہے اور حتی اسرائیل کو اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں اقتصادی پابندیوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ لیکن ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ محض ایک ڈرامہ بازی کی حد تک ہے۔ بعض رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم درپردہ مغربی اور عرب حکمرانوں سے رابطہ قائم رکھے ہوئے ہے اور اپنے اس منحوس منصوبے کیلئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

بنجمن نیتن یاہو نے اپنے ٹویٹر پیغام میں امریکہ کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ، کینیڈا کے وزیراعظم، جرمنی کے وزیر خارجہ اور یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ کے ساتھ خفیہ رابطوں اور ان خفیہ رابطوں کے ذریعے ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی کی خبر دی ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صہیونی رژیم پوری سنجیدگی سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کا ایک پہلو مختلف عرب ممالک کی جانب سے سامنے آنے والا ردعمل ہے۔ جیسا کہ اب تک دیکھنے میں آیا ہے توقع کی جا رہی ہے کہ عرب دنیا میں دو متضاد قسم کے ردعمل سامنے آئیں گے۔ ایک قسم کا ردعمل عرب حکومتوں خاص طور پر کچھ خاص عرب حکومتوں کا ہے جبکہ دوسری قسم کا ردعمل عرب عوام خاص طور پر فلسطینی عوام کا ہے۔ عرب حکومتوں کا ردعمل ماضی کی طرح منافقت اور سازباز پر مبنی ہے۔ یہ حکومتیں بظاہر تو اس منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن درپردہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ تعاون کرنے میں مصروف ہیں۔ اسرائیلی اخبار "یسرائیل ہیوم" نے اپنی 27 مئی کی اشاعت میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں تفصیل سے عرب حکومتوں کے ردعمل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں اردن اور مصر کے خبری ذرائع کے بقول کہا گیا ہے: "الحاق کے اس منصوبے کی عرب حکومتوں کی جانب سے مخالفت حقیقی نہیں۔ اس مخالفت کے نتیجے میں اردن اور مصر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح یہ مخالفت بعض خلیجی ریاستوں کو اسرائیل کے خلاف اقدام کرنے پر مجبور بھی نہیں کر پائے گی۔" لہذا بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صہیونی حکمران عرب حکومتوں کی جانب سے آسودہ خیال ہیں۔ ان کے عرب حکمرانوں کے ساتھ گہرے تعلقات ان حکومتوں کی جانب سے موثر ردعمل سامنے نہ آنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ انہیں صرف اس بات کی پریشانی ہے کہ فلسطینی عوام اور عرب دنیا کی رائے عامہ کیا ردعمل ظاہر کرے گی؟ امریکہ میں "فلسطین واپسی کا حق" نامی اتحاد نے اپنا نام تبدیل کر کے "عوامی غیض و غضب" رکھ دیا ہے۔ اس اتحاد نے دنیا والوں کو اسرائیل کے اس منحوس منصوبے کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے بھی خبردار کیا ہے کہ الحاق پر مبنی منصوبے پر عمل ایک نیا انتفاضہ جنم لینے کا باعث بنے گا۔ مغربی اور عرب حکومتوں کی درپردہ اسرائیل سے سازباز کے پیش نظر فلسطینیوں کے پاس اپنے جائز حقوق کے حصول کا واحد راستہ انتفاضہ اور مزاحمت ہے۔
خبر کا کوڈ : 868790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنے کا منصوبہ،
اس منصوبہ کے خلاف تمام مسلمان اور خاص کر فلسطینوں کے وفدوں کو تمام اسلامی ممالک خاص کر پاکستان میں تمام تنظیموں اور حکومت کے ساتھ اعلانیہ ملاقاتوں میڈیا کے سامنے کرنی چاہیئے اور خفیہ بھی۔۔۔!
ہماری پیشکش