1
Saturday 4 Jul 2020 17:03

فلسطین کاز سے متحدہ عرب امارات کی غداری

فلسطین کاز سے متحدہ عرب امارات کی غداری
تحریر: جمال زحالقہ (اسرائیلی کنیسٹ کا عرب رکن)

متحدہ عرب امارات نے 6 جون 2020ء کے دن سرکاری سطح پر اعلان کیا تھا کہ اس نے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے میڈیکل کے شعبے میں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے درمیان دوستانہ تعلقات اور باہمی تعاون صرف کرونا وائرس سے مقابلے تک محدود نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا شدہ موجودہ صورتحال نے متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے قربتیں بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیدا ہونے والی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کے ساتھ اپنے دیرینہ دوستانہ تعلقات کو عیاں کرنا چاہتا ہے اور اس بہانے اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ طور پر اتحاد تشکیل دینے کے درپے ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی کمپنی 42 G اور اسرائیل کی فوجی مصنوعات بنانے والی کمپنی رافائل اور اسرائیل کی فضائی مصنوعات بنانے والی کمپنی کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پانے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ یہ خبر دراصل مظلوم فلسطینی قوم کی پشت میں خنجر گھونپے جانے کے برابر ہے۔

ان دنوں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے اور سینچری ڈیل جیسے خطرناک منصوبے پیش کئے جا چکے ہیں اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ منصوبے پوری تاریخ میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سب سے زیادہ خطرناک اور وحشت ناک منصوبے تصور کئے جاتے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عرب ملک پوری بے شرمی سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی باتیں کرتا ہے اور سرکاری طور پر اس بات کا اعلان بھی کرتا ہے۔ یہ ملک کھلم کھلا بنجمن نیتن یاہو کی حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے جو فلسطینی قوم کی نسل کشی اور ان کے حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے۔ پوری دنیا نے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کے منصوبے پر بنجمن نیتن یاہو کی مذمت کی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور بنجمن نیتن یاہو کو یہ دعوی کرنے کی جرات فراہم کر دی ہے کہ: "ہم جس قدر بڑے اور طاقتور ہوں گے اپنے دشمنوں کو کنٹرول کر سکیں گے اور اپنے دوستوں کو قریب لا سکیں گے۔"

کیا ایسے حالات میں یہ کہنا حماقت نہیں ہو گا کہ متحدہ عرب امارات الحاق منصوبے کا مخالف ہے اور اس بارے میں امریکی حکومت کو خط لکھ چکا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور کچھ دیگر عرب ممالک سینچری ڈیل کو فلسطینی رہنماوں پر تھونپنا چاہتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ سینچری ڈیل کا ایک حصہ ہونے کے ناطے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کا اسرائیلی منصوبہ تمام عرب رہنماوں کی مرضی سے انجام پانا چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو سینچری ڈیل خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہذا متحدہ عرب امارات اور اس کے ہمسو دیگر عرب ممالک کے حکمران امریکی حکمرانوں کو اس بات کی یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ ان سے زیادہ امریکی ہیں۔ ان عرب حکمرانوں نے امریکی حکومت کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ فلسطینی رہنماوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں سینچری ڈیل قبول کرنے پر مجبور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان عرب حکمرانوں کے بقول وہ یہ کام فلسطینی رہنماوں کو مالی پیکجز کا لالچ دے کر اور اقتصادی پابندیوں سے خوفزدہ کر کے انجام دیں گے۔ متحدہ عرب امارات نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر فلسطین اتھارٹی اس بات پر راضی نہ ہوئی تو اسے معزول کر کے نئی انتظامیہ برسراقتدار لے آئیں گے۔

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کی فوجی اور سکیورٹی کمپنیوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے انجام دینا اس لحاظ سے بہت زیادہ خطرناک ہیں کہ ان سے متحدہ عرب امارات کی آئندہ پالیسی ظاہر ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب ملک اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ اتحاد تشکیل دینے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کا لازمی نتیجہ فلسطینی قوم سے دشمنی اور فلسطین کے خلاف اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور ظالمانہ اقدامات کی حمایت ہے۔ ہم اس سے پہلے بنجمن نیتن یاہو کو لگام دینے کیلئے فلسطینی قوم اور عالمی برادری کی جانب سے موثر اقدامات انجام دینے کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں اور اب متحدہ عرب امارات کی اس سازش کو ناکام بنانے پر تاکید کرتے ہیں۔ یہ سازش امریکہ اور بعض خلیجی ریاستوں کی حمات اور شہہ پر انجام پا رہی ہے۔ ہمیں اس وقت عرب ممالک کی جانب سے دوٹوک موقف کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کو اس گھناونی سازش سے باز رکھا جا سکے۔ اگر متحدہ عرب امارات مظلوم فلسطینیوں کی حمایت نہیں کر سکتا تو کم از کم اسے ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کا اتحادی بننے سے گریز کرنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 872484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش