0
Thursday 24 Sep 2020 17:30

یہ ٹرمپ کی خلافت کا دور ہے

اے گرفتار ابو بکر و علی ہشیار باش
یہ ٹرمپ کی خلافت کا دور ہے
تحریر: ثاقب اکبر

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ امام علیؑ خلیفہ بلافصل ہیں اور دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ خلیفہ بلا فصل ہیں۔ دونوں گروہ تاریخ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے اور کسی کے مقام و مرتبہ کو بھی تبدیل نہیں کرسکتے اور شاید ایک دوسرے کی آراء کو بھی نہیں بدل سکتے لیکن مختلف آراء کی بنیاد پر جنگ و جدل کرسکتے ہیں اور تاریخ میں کرتے چلے آرہے ہیں، جبکہ کئی صدیوں سے دونوں گروہوں پر مشترکہ طور پر غیر مسلم حکومت کر رہے ہیں۔ عصر حاضر میں ”خلیفہ ٹرمپ“ کی حکومت ہے۔ یہ خلافت انھیں 21 مئی 2017ء کو ریاض میں 54 مسلمان ممالک نے مل کر پیش کی۔  اس موقع پر ووٹ کو عزت دو والے معزز پاکستانی وزیراعظم بھی تشریف فرما تھے، البتہ مہر بہ لب۔ پھر اس کے بعد شاہان، صدور، وزرائے اعظم، امراء اور دیگر عالی رتبہ نمائندے ان کے حضور آداب بجا لائے بلکہ کورنش بجا لائے۔ خلیفہ ٹرمپ کے حضور تلواریں اٹھا کر رقص پیش کیے گئے، بیش بہا تحائف، ہیرے جواہرات اور ناجانے کیا کیا ان پر نچھاور کیے گئے۔ خلیفہ صاحب بھی شاہوں اور امراء کی پیٹھ تھپتھپاتے رہے اور انھیں کہتے رہے کہ امریکہ کے ہتھیار بڑے خوبصورت ہیں۔ شہزادوں نے، جن کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، ٹرمپ کی شہزادی کے ساتھ یادگار تصویریں کھنچوائیں۔

یہاں سے خلیفہ ٹرمپ سیدھا اسرائیل روانہ ہوئے، جہاں پہنچ کر انھوں نے فرمایا کہ فلسطین کے دو ریاستی نظریے کے بجائے ایک ریاستی نظریے پر بھی بات کی جاسکتی ہے یعنی فلسطین کا قصہ پاک، عربوں کا حساب بے باق اور اسرائیل کی توسیع کے نئے پروگرام کا آغاز۔ خلیفہ جی اپنے اس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں اور ہم ابھی تک خلیفہ بلا فصل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عمل کرنے والے ایک ایک کرکے اسرائیل کے سامنے سر جھکاتے چلے جا رہے، فلسطینی فریاد کر رہے ہیں اور اسرائیل کی غلامی قبول کرنے والوں کے کان بہت بھاری ہوچکے ہیں، انھیں یہ فریادیں سنائی نہیں دے رہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے جب سے یہ کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتے، اس وقت سے پاکستان کی گوشمالی کا پروگرام کچھ تیز کر دیا گیا ہے۔ ایک نہایت اہم اور قابل وثوق ریاستی ذریعے کے مطابق پاکستان کو اپنی منشاء کے راستے پر ڈالنے کے لیے خلیفہ حاضر کی حکومت نے ایک سو ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔

مودی اور اسرائیلی یہودی خلیفہ جی کے دست و بازو ہیں۔ مودی کی حکومت کے اہلکار اب لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے منصوبوں کو ظاہر کر رہے ہیں، جن میں ایک منصوبہ پاکستان میں فرقہ واریت کا فروغ ہے اور یہ فرقہ واریت خلیفہ بلافصل کی جنگ کے عنوان سے آسانی سے برپا کی جا سکتی ہے۔ خلیفہ ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک یہ منصوبہ ”کم خرچ بالا نشیں“ کا مصداق ہے۔ مسلمان سنی ہیں یا شیعہ، ایک گروہ حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ بلا فصل کہہ کر باہر نکل آئے اور دوسرا حضرت علیؑ کو خلیفہ بلا فصل کہہ کر باہر نکل آئے تو پھر پاکستان کی حالت شام، عراق، لیبیا، افغانستان اور یمن سے بدتر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ مفتیان کرام جو آج سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان رہے نہ رہے، ان کی پسند کا خلیفہ بلافصل قرار پا جائے، آنے والی نسلوں کے سامنے رسوا چہروں کے ساتھ پیش کیے جائیں گے، لیکن اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکے گا۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس پر حوصلے کا مظاہرہ کر لیں کہ ماضی میں جو جس کو خلیفہ بلافصل مانتا ہے، مانتا رہے، آج ٹرمپ کی خلافت کا انکار کر دیا جائے۔ آج ٹرمپ کی حکمرانی کو نہ کہہ دی جائے، آج ٹرمپ کو عصر حاضر کا یزید قرار دے دیا جائے اور امام حسینؑ کی طرح اس کی بیعت کا انکار کرکے سب کو ایک پرچم کے نیچے جمع کر لیا جائے۔ البتہ یہ بات ان سے کیسے کی جائے، جو یزید زندہ باد اور یزید رحمۃ اللہ علیہ کہہ کر اپنے ایمانیات کا اظہار کر رہے ہیں۔ انھیں کیسے سمجھایا جائے کہ ٹرمپ ظالم ہے، ٹرمپ وحشی ہے، ٹرمپ معصوم انسانوں کا قاتل ہے، ٹرمپ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والوں کا سرپرست ہے، ٹرمپ یمن کے انسانی المیے کا حقیقی ذمہ دار ہے اور ٹرمپ بدکردار شاہوں اور امراء کا سرپرست ہے، جنھیں وہ دودھ دینے والی گائے قرار دے چکا ہے۔ اس نے جو حال مذکورہ بالا مسلمان ملکوں کا کیا ہے، وہ یہی حال اب باقی ماندہ مسلمان ملکوں کا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پاکستان، ترکی، ایران اور ملائیشیا جیسے ممالک اس کی نظروں میں بہت کھٹکتے ہیں۔ وہ تو اپنے فرمانبردارں پر بھی رحم کھانے والا نہیں، جب اس کے مفادات پورے ہو جائیں گے تو وہ گائے کو دودھ نہ دینے کے جرم میں ذبح کرے گا اور اس کا گوشت کھا جائے گا۔ یہ باتیں ہم نے فرض نہیں کیں، خلیفہ ٹرمپ یہ باتیں خود کہہ چکا ہے۔ خلیفہ بلافصل کی جنگ میں مبتلا دونوں گروہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں، حضرت محمدؐ کو اللہ کا آخری نبی اور رسول مانتے ہیں، قرآن کو غیر محرف آخری آسمانی کتاب مانتے ہیں، کعبہ کو قبلہ مانتے ہیں اور ایسی کئی بنیادی باتوں میں مشترک ہیں۔ کیا یہ باتیں اتفاق اور اتحاد سے جینے کے لیے کافی نہیں؟ کیا یہ مشترکات مشترکہ اور بے رحم دشمن کے خلاف اکٹھا ہونے کی بنیاد فراہم نہیں کرتے؟ اگر آج بعض ملا اور مفتی اپنے محدود مقاصد اور مفادات کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوئے تو وہ سب کچھ برباد کر دیں گے اور جس کو بچانا چاہتے ہیں، وہ بھی نہیں بچ پائے گا۔ وہی ہوگا جو عمر ابن سعد، عبیداللہ ابن زیاد اور یزید ابن معاویہ کے ساتھ ہوا۔ یعنی "خسرالدنیا والآخرۃ" نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
خبر کا کوڈ : 888172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش