0
Wednesday 10 Aug 2011 02:14

صومالیہ! عالمی لٹیروں کی تجربہ گاہ

صومالیہ! عالمی لٹیروں کی تجربہ گاہ
تحریر:سید اسد عباس تقوی
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی صومالی باشندوں کی قحط زدہ تصاویر دیکھ کر دل پھٹنے کو آتا تھا۔ کوئی ماں کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ اس کا لخت جگر بھوک کے سبب جاں بہ لب ہو، اور وہ اس قابل نہ ہو کہ اس کو گندم کا ایک دانہ یا دودھ کا ایک قطرہ دے سکے۔ انہی تصاویر میں سے ایک تصویر میں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر چڑھی جلد کی دبیز سی تہ میں لپٹا بچہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دنیا کے مقتدر انسانوں سے سوال کر رہا ہے کہ آیا خدا کی زمین پر میرا اتنا بھی حق نہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا رزق میری زندگی میں کچھ لمحوں کا اضافہ کر سکے۔ یہ تصاویر دیکھ کر اقبال کی معروف نظم ” اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو “ کا یہ شعر بار بار ذہن کے بام و در پر دستک دیتا ہے:
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والی مساجد اور سونے سے مزین گنبد ہم مسلمانوں کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، اے اہل ایمان! بہتر تھا کہ تم ہم کو کچے مٹی کے گھروندے ہی رہنے دیتے مگر انسان کو اس قدر بےتوقیر اور بے بس نہ ہونے دیتے۔ صومالیہ کے باسی مسلمان ہیں یا کسی اور دین کے پیروکار، انتہائی بھونڈا سوال ہے۔ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والا انسان جو محمد عربی کے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتا ہے، رمضان کے اس ماہ احساس میں بھی اگر ان قحط زدہ انسانوں کی بھوک اور پیاس کو محسوس کر کے ان کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکے تو حسین ابن علی ع کا یہ جملہ السلام علی الاسلام ہی میرے جذبات کی صحیح عکاسی کر سکتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صومالیہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ صومالیہ کی سرزمین مشرقی افریقا کی بڑی منڈی رہی ہے۔ اس کی صحرائی پٹی دنیا کی دوسری بڑی صحرائی پٹی ہے۔ اس سرزمین پر پائے جانے والے تیل، یورینیم، گیس اور سونے کے ذخائر جو ہنوز نکالے جانے کے منتظر ہیں اس کے باسیوں کی بربادی کا سامان بنے۔ مغربی طاقتیں ان ذخائر پر وحشی درندوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ان تمام وسائل کے ساتھ ساتھ صومالیہ ایک زرعی ملک بھی ہے۔ اس ملک کی 64فیصد آبادی زراعت سے متمسک تھی۔ اس زرخیز ملک کے باسیوں کو کیسے گندم کے ایک ایک دانے کا محتاج کیا گیا؟ یہ سوال اپنے اندر حقائق کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ جسے کا عندیہ اقبال نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا۔
برفتند تا روش رزم در این بزم کہن
دردمندان جہاں طرح نو انداختہ اند
من از ایں بیش نہ دانم کہ کفن دزدی چند
بھر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند

صومالیہ ہی وہ سرزمین ہے جس نے اسلام کے پہلے مہاجرین کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔ حبشہ کا ساحل جو آج صومالیہ کے ساحلی شہر زیلہ کا حصہ ہے، ہی وہ مقام تھا جو جعفر طیار اور ان کے انصار کی پناہ گاہ بنا۔ صومالیہ کا دارلخلافہ موگا دیشو مشرقی افریقا میں اسلام کا اہم مرکز بنا۔ مسلمان تاجروں نے موگا دیشو اور موزمبیک میں اپنی تجارتی منڈیاں قائم کیں اور اسی دور میں موزمبیک کی کانوں سے سونے کی تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ استعمار جب وسائل کی تلاش کے لیے دنیا پر تسلط کی غرض سے نکلا تو مشرقی افریقا کے اس ملک نے اسے ناکوں چنے جبوائے۔ درویشوں کے سربراہ محمد عبداللہ حسن نے صومالی قوم کو استعماری تسلط کے خلاف مجتمع کیا اور کالونیلیزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں سب سے بڑی جنگ لڑی۔ درویشوں کی حکومت نے بہت جلد صومالیہ کے تمام علاقوں پر اپنا کنڑول قائم کیا۔ تاہم برطانوی ہوائی حملوں کے سبب درویشوں کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر صومالیہ استعماری افواج کا میدان جنگ بن گیا۔ ایک حصہ برطانوی صومالی لینڈ جبکہ دوسرا اطالوی صومالی لینڈ اور تیسرا حصہ فرانسیسی صومالی لینڈ قرار پایا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ نے اٹلی کو یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور وہ خود 1960ء تک ان دونوں علاقوں پر مسلط رہا۔ جاتے ہوئے برطانیہ نے صومالیہ کے ساتھ بھی وہی کام کیا جو اس نے برصغیر کے مسلمانوں سے کیا تھا۔ برطانوی افواج نے صومالیہ کے دو اہم علاقے ایتھوپیا اور کینیا کو دے دیے، جن کا تصفیہ ہنوز باقی ہے۔
استعمار کے جانے کے بعد یہ خطہ کیمونسٹوں کی چراگاہ بنا۔ فوج اور پولیس کے سربراہوں نے مل کر سیاسی حکومت کا خاتمہ کیا اور سوشلسٹ پارٹی کے تحت کیمونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس حکومت نے صومالیہ میں بہت سے اہم ترقیاتی کام کیے۔ 1977ء میں ایتھوپیا اور صومالیہ کے مابین متنازعہ علاقے پر جنگ چھڑ گئی، جس میں روس نے ایتھوپیا کا ساتھ دیا، جس کے سبب اس وقت کے صومالی صدر باری نے مغرب میں نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں صومالیہ داخلی انتشار کی جانب چل پڑا۔ خانہ جنگی کا یہ سلسلہ آج بھی صومالیہ کی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے اور اس ملک کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ باری صومالیہ کے جنوبی علاقوں میں اپنے مسلح حواریوں کے ہمراہ اپنے تئیں صدر تھا جبکہ شمالی علاقے پر شمالی اور جنوبی قبائل کی حکومت تھی، جس کا سربراہ علی مہدی محمد کو بنایا گیا۔ 
اسی اثناء میں 1992ء میں صومالیہ میں پہلا قحط آیا، جس کے سبب تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ جبکہ عالمی برادری نے امداد اور امنیت کے نام پر صومالیہ میں اپنی افواج داخل کر دیں۔UNITAFامریکی افواج اور اس کے اتحادیوں کا پہلا دستہ تھا جو صومالیہ کے قحط زدہ جنوبی علاقوں میں امداد کے لیے پہنچا۔ 1993ء میں یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی، جو UNOSOM II کے عنوان سے صومالیہ میں سرگرم ہوئی۔ صومالیہ کے جنرل محمد فرح آیدید نے اس اتحاد کو اپنے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ جانتے ہوئے ان پر متعدد حملے کیے، جس کے سبب 1995ء میں اقوام متحدہ نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اپنے مشن کو ادھورا چھوڑتے ہوئے فرار کی راہ اختیار کی۔
آج صومالیہ کے جنوبی علاقوں پر القاعدہ سے متمسک جماعت الشباب کا کنٹرول ہے۔ جنوبی صومالیہ میں گزشتہ دو ماہ میں پیدا ہونے والی قحط کی نئی صورتحال نے عالمی امدادی اداروں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں کھلبلی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اگلے دو ماہ میں امدادی کام کا آغاز نہ کیا گیا تو یہ قحط پورے جنوبی صومالیہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ عالمی امدادی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی خشک سالی اور قحط کو گزشتہ نصف صدی کی سب سے بڑی آفت قرار دیا جا رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گیے تو ممکن ہے کہ یہ صورتحال کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے دے۔ 
دوسری جانب مغربی میڈیا اور امدادی ادارے صومالیہ میں الشباب کی جانب سے امدادی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی 2009ء کی پابندیوں کا واویلا کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ الشباب امدادی کاموں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کوئی بھی عالمی ادارہ ملک کی سیکورٹی صورتحال کے مدنظر اپنے وسائل کو داﺅ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس الشباب نے عالمی امدادی اداروں کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کو بھی امداد کرنے سے نہیں روک رہے، نہ ہی ہم نے دریاﺅں کے رخ بدلے ہیں اور نہ ہی ہم جنوبی صومالیہ کے باسیوں کو علاقہ چھوڑنے سے روک رہے ہیں۔ شنید یہ ہے کہ الشباب نے بھی جنوبی علاقوں کو خالی کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کی جگہ وفاقی حکومت کی افواج لے رہی ہیں، تاہم ابھی کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں الشباب کا مکمل کنٹرول ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 90579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش