0
Tuesday 5 Jan 2021 11:23

سانحہ مچھ، دہشتگردی کیخلاف حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی

سانحہ مچھ، دہشتگردی کیخلاف حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی
تحریر: تصور حسین شہزاد

کوئٹہ کی فضا ایک بار پھر سوگوار ہے۔ لاشیں ایک بار پھر اپنے بے گناہ خون کا حساب مانگ رہی ہیں۔ بیوہ اور یتیم ہونیوالیاں ایک بار پھر حسرت بھری نگاہوں سے عرش کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ دھاڑیں، سسکیوں اور سسکیاں آہوں میں بدل رہی ہیں اور آہ سیدھی عرش پر جاتی ہے۔ بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشتگردی کی حالیہ واردات پوری قوم کیلئے گہرے دکھ اور صدمے کا باعث ہے۔ دہشتگردی کی اس بزدلانہ واردات میں بظاہر ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو قتل کیا گیا، تاہم حقیقت یہی ہے کہ اس واقعے کی تکلیف قوم کا ہر فرد محسوس کر رہا ہے۔ بلوچستان میں احتجاج کرنیوالے بھی محض ہزارہ برادری کے افراد نہیں بلکہ وہ دہشتگردی کیخلاف پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی مجلس وحدت مسلمین اور آئی ایس او کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کئے جا رہے ہیں، دھرنے ہو رہے ہیں اور دہشتگردی کے اس اندوہناک سانحہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مظاہرین واقعہ میں ملوث دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں اس سے پہلے ایف سی کے اہلکاروں سمیت متعدد شہریوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ مطلب یہ کہ دشمن قوتیں ایک بار پھر پاکستان کے داخلی امن کو نشانہ بنانے کیلئے متحرک ہوچکی ہیں۔ کہنے کو تو داعش نے دہشتگردی کی تازہ ترین واردات کی ذمہ داری قبول کی ہے، البتہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بے گناہ انسانوں کے قتل میں ملوث عناصر کا کسی مذہب، فرقہ یا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انسانی اقدار سے نابلد یہ لوگ دراصل شیطان کے چیلے اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کا تعلق داعش سے ہو یا پھر کسی بھی نام نہاد تنظم سے، دراصل یہ راندہ درگاہ لوگ ہیں، جو امن دشمنی کے ذریعے پاکستان سمیت ہر امن پرست ریاست کو مشکلات کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔

داعش جیسی تنظیم کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ عراق، شام اور افغانستان میں انسانی خون بہانے کے بعد یہ پاکستان میں بھی خون ریزی کے ذریعے دہشت پھیلانا چاہ رہی ہے۔ یہ تنظیم اگرچہ ایک عرصے سے پاکستان میں خون ریز مداخلت کی کوشش میں ہے، البتہ سکیورٹی اداروں نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا تو پاک سرزمین داعش کیلئے تباہی و بربادی کا مقام ثابت ہوگی۔ اس سے پہلے جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی سے داعش عراق و شام میں جس تباہی سے دوچار ہوئی، وہ تصویر بھی ہمارے سامنے ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ فوج کی جانب سے شروع ہونیوالے ضرب عضب، ردالفساد سمیت دیگر آپریشنز سے دہشتگرد عناصر اپنے سہولت کاروں اور پشت پناہوں سمیت پاکستان سے فرار ہوگئے تھے مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ وہ واپس لوٹ رہے ہیں۔ اس کا ثبوت سی ٹی ڈی کا ریکارڈ بھی ہے کہ ماضی قریب میں سی ٹی ڈی نے داعش سے تعلق رکھنے والے متعدد دہشتگردوں کو گرفتار کیا ہے۔ اب بھی پنجاب کے جنوبی علاقے راجن پور اور نواح میں داعش کے سلیپنگ سیلز موجود ہیں، اسی طرح بلوچستان اور افغانستان میں ان کے ٹھکانے ہیں۔ بلوچستان میں داعش کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہے اور انڈیا ہی اسے پاکستان اور سی پیک کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔

جہاں تک بلوچستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھے والے کان کنوں کے قتل کا معاملہ ہے، تو اس کے پیچھے ملک میں رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول کو زک پہنچانے کی سازش کار فرما ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرکے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی بھیانک کوشش میں ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی فکر انگیز ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے فکری و عملی دونوں سطحوں پر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سانحہ مچھ میں ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ ملک کسی صورت میں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، صوبائی یا نسلی بنیادوں پر ہونیوالی شر انگیزی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے دشمن ہمیشہ سے مذہبی و فرقہ وارانہ حساسیت کا غلط استعمال کرکے ہمارے داخلی امن کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہے ہیں۔ الحمداللہ پاکستان کے عوام اس معاملے میں روادار اور روشن خیال واقع ہوئے ہیں، البتہ داخلی سطح پر بعض گمراہ عناصر دشمن قوتوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔

ماضی میں ایسا دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ مذہبی عدم برداشت اور فرقہ وارانہ اختلافات کا لبادہ اوڑھ کر امن دشمن قوتیں انسانی جانوں سے کھیلتی رہی ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ہمیشہ دہشتگردی کا نشانہ اہل تشیع ہی کیوں بنتے ہیں۔ کیا یہ قوم لاوارث ہے؟ تبلیغی جماعت پر تنقید ہوتی ہے تو حکومتی ذمہ دار حلقوں سے ایسے بیانات سامنے آتے ہیں کہ تبلیغی جماعت والے لاوارث نہیں، تو گذشتہ 30 برسوں سے پاکستان میں نشانہ بننے والے اہل تشیع کیا لاوارث ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اہل تشیع قیادتوں سے بھی پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ کیا صرف بندے مروانے کیلئے قیادتوں کے مناصب پر براجمان ہیں؟ وہ قوم کو تحفظ نہیں دے سکتے تو اس منصب سے اُتر کیوں نہیں جاتے۔ بہرحال، شیعہ قیادت، پاک فوج اور حکومت کو مشترکہ طور پر حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ یہ بات بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے سکیورٹی اداروں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، جو ان دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہیں، ان کالی بھیڑوں کے محاسبے کا بھی وقت آگیا ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کے بعد پاکستان کو چاروں اطراف سے طوفانوں کا سامنا ہے، ان کا مقابلہ ہم باہمی وحدت سے ہی کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے ملک کے اندر موجود چند شرپسند عناصر کا قلع قمع کرنا ہوگا اور قوم کو متحد کرنا ہوگا، تاکہ ہم دشمن کی سازشوں کا مقابلہ ڈٹ کرسکیں۔ بلوچستان میں رونما ہونیوالے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دشمن قوتیں مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشتگردی کی نئی لہر کو تقویت دینے کی سازش کر رہی ہیں۔ ہزارہ برادری کے افراد ہر ہونیوالے تازہ حملے کے پیچھے یہ عناصر کار فرما ہیں۔ اس صورتحال کو پوری توجہ اور سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ اور قومی سلامتی امور کے ذمہ داران کو اس ضمن میں ایسی حکمت عملی طے کرنا ہوگی کہ اس ناسور کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ پاکستان کے داخلی امن اور سلامتی کیخلاف جس کھیل کو شروع کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے، اسے قومی اتفاق رائے کی بنیادی پر آہنی ہاتھوں سے کچل ڈالا جائے۔
خبر کا کوڈ : 908169
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش