0
Monday 11 Jan 2021 04:50

سانحہ مچھ اور طالبان و داعش کا وجود

سانحہ مچھ اور طالبان و داعش کا وجود
تحریر: ارشاد حسین ناصر

بلوچستان کے شہر مچھ میں شیعہ ہزارہ کان کنوں کی سفاکانہ انداز میں شہادتیں اور اس پر دنیا بھر میں ہمارے ملک کی رسوائی کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے، اس کا فیصلہ وقت پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بہ ظاہر اس سانحہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، داعش وہ سفاک دہشت گرد گروہ ہے، جس نے عراق و شام میں اپنی سفاکیت اور بے رحمی کے باعث اپنا نام بنایا اور یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس گروہ کو بنانے، اسے مضبوط کرنے، جدید اسلحہ سے لیس کرنے اور دنیا بھر سے اس کے لئے لڑنے والے نام نہاد مجاہدین کو امریکہ اور اس کے اتحادی عرب ممالک بشمول سعودیہ اور ترکی کا تعاون و مدد حاصل رہی ہے۔ عراق میں حشد الشعبی کی شکل میں اور شام میں حزب اللہ و اسد کی عرب افواج نے اس گروہ اور ان سے منسلک دیگر گروہوں کو جو سبق سکھایا، اسے بھلائے نہیں بھلایا جا سکتا۔

ایران کی قدس فورس کے کمانڈر انچیف شہید جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور مسلسل محنت سے ان مقدس ممالک یعنی انبیاء کی سرزمین شام و عراق سے ان کو بھاگنے پہ مجبور کیا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ شام و عراق میں مقدس مقامات کے دفاع اور تحفظ کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے پاکستان، افغانستان اور دنیا کے کئی ممالک سے نوجوانوں نے اپنے نام لکھوائے اور رضا کارانہ طور پر ان مقدس مقامات کے تحفظ کیلئے پہنچے، جنہیں ان سفاک و بے رحم دہشت گردوں نے گرانے کا اعلان کیا تھا اور بعض مقدس مقامات جن میں جلیل اقدر صحابہ کے مرقد اور تاریخی و اسلامی آثار کا گرانبہا نمونے تھے، ان کو تہس نہس کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

پاکستان میں داعش کا وجود اگرچہ نیا نہیں ہے، یہ اسی وقت سے وجود میں آگئی تھی، جب عراق و شام میں اپنی نام نہاد حکومت کا اعلان کر رہے تھے تو پاکستان سے ان کیلئے نیک خواہشات کا پیغام بھیجا گیا، ان کی غائبانہ بیعت کا اعلان کیا گیا اور اس کے بعد تو باقاعدہ یہاں سے داعش کیلئے مرد و زنان بھرتی ہو کر ترکی کے راستے عراق و شام بھی پہنچے۔ بعض نوجوان لڑکیوں نے بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر داعش میں شمولیت اور شام جا کر جہاد میں حصہ لینے کی کوشش کی، جو بے نقاب بھی ہوگئی۔ اس حوالے سے ہی لاہور، سیالکوٹ، ڈسکہ، کراچی، پشاور اور کئی ایک دیگر علاقوں میں گرفتاریاں بھی ہوئیں، مگر نہایت افسوس کہ ہمارے حکمران اس وقت داعش کے وجود سے انکاری رہے اور جھوٹی تسلیاں دیتے نظر آئے کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے۔ ہمارے نامور سپہ سالار جناب راحیل شریف کا ایک بیان آج بھی یاد ہے کہ ہم اس ملک پر داعش کا سایہ نہیں پڑنے دیں گے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان میں تحریک طالبان کے نام سے کام کرنے والے دہشت گرد گروہ میں سے کچھ گروپس نے طالبان سے علیحدگی اختیار کی اور داعش میں شمولیت کرنے کا اعلان کیا۔ یہ گروہ چونکہ پاکستان اور افغانستان کے بارڈر ایریاز میں اپنے مراکز اور طاقت و قوت رکھتے تھے، لہذا ان کا وجود دونوں ممالک پاک افغان کیلئے کسی نئی خطرے سے کم نہ تھا، مگر افسوس کہ انسانیت سے عاری دونوں ممالک کے ارباب اقتدار اور ذمہ دار قوتیں اپنے ملک و انسانیت کے تحفظ کیلئے مخلصانہ طور پہ جمع ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ایسے عناصر کو استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج داعش افغانستان کے کئی اضلاع میں اپنی طاقت پکڑ چکی ہے اور افغان طالبان کے خلاف بھی بر سر پیکار ہے، مگر اس کی زیادہ تر کارروائیاں ہزارہ شیعوں کے خلاف دیکھی گئی ہیں، جن میں افغان ہزاروں کے آبادی والے علاقوں میں ان کے مدرسے، سکول، کالج اور کئی ایک بار سیاسی و مذہبی اجتماع نشانہ بن چکے ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں افغان شیعہ شہید ہوچکے ہیں۔

افغان طالبان نے ایسے کئی حملوں کی باقاعدہ مذمت کی ہے، ویسے بھی واقفان حال جانتے ہیں کہ افغان طالبان نے اپنی سابق پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو نارمل کیا ہوا ہے اور وہ ایران کی مدد سے اپنے ملک سے   امریکہ کو نکال باہر کرنے کی جدوجہد میں ہم فکر پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی وقت پہلے ایران کے ایٹمی سائنسدان جناب محسن فخری زادہ کی المناک شہادت پر افغان طالبان کے قطر دفتر نے باقاعدہ اہل ایران سے تعزیت کی جبکہ افغان طالبان تہران کے کئی دورے بھی کرچکے ہیں۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ افغان طالبان جو ماضی میں شیعہ دشمنی میں معروف تھے اور جن کی چھتری ایسے لوگ استعمال کرتے تھے، جو دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے پاکستان میں شیعوں کے خلاف بدترین دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھے، اب کسی حد تک ان کی پالیسی تبدیل ہوچکی ہے۔ اب افغان طالبان، ایران اور اہل تشیع کا ایک اور دشمن سامنے آچکا ہے، جسے داعش کے نام سے پلانٹ کیا گیا تھا۔

ہمارے صاحبان فکر و نظر بھی اس سفاک گروہ کی افغانستان میں پاکستان سے ملحقہ اضلاع میں موجودگی کو کسی بڑے خطرے سے ہی تعبیر کرتے آرہے ہیں اور اس کے سامنے پل باندھنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ افغانستان کے بارڈر کیساتھ خار دار تار کی دیواریں قائم کرنا بھی ایسے ہی خطرے کا تدارک کرنا اور رکاوٹ بننا ہے۔ سانحہ مچھ سے قبل بھی کوئٹہ و بلوچستان میں داعش نے کئی کارروائیاں کی ہیں اور انہیں اسے اکائونٹ یا ویب سے تسلیم کیا ہے، جس سے یہ حالیہ سانحہ مچھ تسلیم کیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی داعش نے ان کارعوائیوں کی تصویریں یا ویڈیوز ریلیز کیں اور اب بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ آج کے دور میں اس کا سراغ لگانا اور دہشت گردوں کو پکڑنا کسی بھی طور مشکل کام نہیں رہا، پاکستان کے جس بھی علاقے سے اس کارروائی کی تصویر یا ویڈیو بھیجی گئی ہے، اس کے ذریعے اس گروہ تک پہنچنا کوئی راکٹ سائنس نہیں، یہ تو اب بہت ہی عام ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ چھ روز تک مسلسل جنازے پڑے رہے، مگر ہمارے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کو پکڑنے یا ان کو تلاش کرنے کی کوئی خبر نہیں دی۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ تو سکیورٹی ادارے ہی بہتر جانتے ہیں۔

مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ دہشت گردوں کی سفاکیت سے بڑھ کر سفاکیت ہے کہ اس ٹولے کو کھلا چھوڑ دیا جائے، جس نے پاک دھرتی کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جس نے بے گناہوں کی آہوں اور بے کس و نادار لوگوں کی سسکیوں سے آسمان کو ہلا دیا ہے۔ اّخر وہ کونسا منظر ہوگا، جس پر ہمارے ذمہ دار ادارے، ہماری سکیورٹی پر مامور فورسز کے ذمہ دار اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ان سفاک، ملک و مسلم دشمنوں کو کٹہرے میں لا کر ان کے ساتھ بے رحمی سے حساب چکائیں گے۔ آج یہ سوال ہر ایک کی زبان پر ہے کہ آخر کب تک ایسا ہوتا رہیگا، کیا ان ہزارہ قوم اور اہل پاکستان کے حالات تبدیل ہونگے، کیا دہشت گردوں کو چھتری فراہم کرنے والے کردار سامنے لائے جائیں گے یا پھر ماضی کی طرح ہی دلاسوں سے کام چلایا جائے گا۔ ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی جائے گی اور میتوں کو دفن کروا کر سب کچھ بھول جائیں گے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی درد کو اتنا نہ بڑھنے دیا جائے کہ وہ لاوا ہو جائے۔ شیعہ و ہزارہ کلنگ سے اس ملک کی بنیادوں کو ہلانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ افسوس ہمارے ملک کے ذمہ داران اور صاحبان اختیار اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، یہ رویہ کسی بھی طور ملکی سلامتی و استحکام کیلئے مناسب نہیں۔ اسے بدلنا ہوگا، وگرنہ ایسا حشر بپا ہوگا کہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 909433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش