0
Thursday 18 Aug 2011 16:08

فلسطین میں صہیونی حکومت کا قیام

فلسطین میں صہیونی حکومت کا قیام
تحریر:تصور حسین شہزاد
 اسرائیل وہ چھرا ہے جو استعمار نے انتہائی چالاکی کے ساتھ عربوں کی پیٹھ میں گھونپ دیا ہے، دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ بوڑھے سامراج کے زوال اور نوآبادیاتی علاقوں کی خودمختاری کی نوید لے کر آیا۔ برطانیہ نے صہیونی ریاست کے قیام کے لئے خود راہ ہموار کی۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کی سرپرستی سے ہاتھ اُٹھا لیا، اس کام کے لئے برطانیہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سہارا لیا۔
دوسری عالمی جنگ کی ابتداء تک فلسطین میں عوامی تحریکیں جاری رہیں اور ان میں بعض اوقات کچھ کامیاب بھی ہوئیں، لیکن عربوں کے محدود وسائل، برطانیہ کی فلسطینی عوام سے دشمنی اور مخالفانہ اقدامات اور فلسطینیوں کی غفلت کے باعث کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکل سکا۔ دوسری جنگ عظیم نے فلسطین کو بہت متاثر کیا، اس کے کئی عوامل کے باعث فلسطین میں انقلابی تحریک کچھ سست پڑگئی، کیوں کہ جنگ سے دوچار ممالک میں شدید کنٹرول کے باعث عربوں کے پاس اسلحہ اور دوسرے وسائل کی شدید کمی ہو گئی۔ فلسطین کا رابطہ لبنان اور شام سے مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔ اس وجہ سے دونوں ملکوں سے ملنے والی فوجی امداد بھی رک گئی تھی۔ جنگ کی وجہ سے ایمرجنسی کے بہانے سے فلسطینیوں کو جلاوطن، قید یا اذیتوں کا شکار بنایا جانے لگا اور فلسطینیوں کی تمام سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جانے لگا۔
دوسری عالمی جنگ کے دو اہم نتیجے سامنے آئے، ایک تو برطانیہ کا زوال، اس کی طاقت میں کمی اور نوآبادیوں کی خودمختاری، جب کہ دوسرا نتیجہ امریکہ کا نئی طاقت کے طور پر اُبھرنا۔ سرزمین فلسطین پر صہیونی حکومت کا وجود جن دلائل کی بنیاد پر برطانیہ کے لئے اہم تھا، انہی دلائل کی بنیاد پر اس نئی طاقت کے لئے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت پر صہیونیوں اور یہودی سرمایہ داروں کو کافی اثرورسوخ حاصل تھا، ان عوامل کی وجہ سے امریکہ نے اسرائیل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
1942ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل ’’بالٹی مور‘‘میں امریکی یہودیوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ’’ڈیوڈ بن گوریان‘‘ کی جانب سے تجاویز پیش کی گئیں کہ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی کی محدودیت کو ختم کر دیا جائے، یہاں یہودی فوج تشکیل دی جائے اور تیسری تجویز یہ تھی کہ پورے فلسطین کو ایک یہودی ملک میں تبدیل کر دیا جائے۔ امریکی صہیونیوں کی تنظیم کی جانب سے منظور شدہ قرارداد کے بعد امریکی صدر ’’ٹرومین‘‘ نے برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر اٹلی کو ایک خط لکھا، جس میں یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی کی آزادی دینے اور انہیں فلسطین کی سرزمین پر مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران برطانوی وزیر خارجہ نے عوامی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بنا کر اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ برطانیہ نے تقریباً 30 برس کے ظالمانہ تسلط اور تمام امور صہیونیوں کے سپرد کرنے کے بعد 1947ء میں اعلان کر دیا کہ وہ 15 مئی 1948ء تک اپنی فوجیں فلسطین سے واپس بلا لے گا۔ اس لئے برطانیہ نے اقوام متحدہ سے اس مسئلہ کے حل کا مطالبہ کر دیا۔
اقوام متحدہ نے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کو فلسطین کو تقسیم کرنے کی لائن معین کرنے کے لئے بھیجا، جس نے تحقیقات اور مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد 2 رپورٹس پیش کیں، جن میں ایک رپورٹ کی حمایت میں کمیٹی کی اکثریت اور دوسری کی حمایت میں اقلیت (بھارت، ایران، یوگوسلاویہ اور آسٹریلیا) نے رائے دی۔ پہلی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے سات حصے کئے گئے تھے جن میں تین تین میں عربی اور یہودی حکومت کی تشکیل اور ایک حصہ (جس میں بیت المقدس شامل تھا) کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز دی گئی تھی۔ دوسری رپورٹ 1946ء میں برطانوی تجویز سے مشابہت رکھتی تھی جس کے مطابق دو قوموں پر مشتمل ایک فیڈرل ملک کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ جس کا مرکز بیت القدس ہو گا۔
بالآخر اکثریتی امکان کی تجویز لاطینی امریکہ کے ممالک پر امریکہ کے شدید دباؤ اور روس کے تعاون سے منظور کر لی۔ اگرچہ عرب ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبہ کی منظوری کے بعد صحیح طور پر اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک کمیٹی کو معین کیا تاکہ وہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی نگرانی کرے، لیکن اس کمیٹی، جنرل اسمبلی اور نہ ہی سلامتی کونسل، کسی نے بھی اس نگرانی کے لئے وسائل فراہم نہیں کئے اور صہیونیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد فلسطین کے تمام شہروں میں شدید اعتراضات شروع ہو گئے اور مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے اس منصوبے کی مخالفت کی۔
صہیونیوں نے اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین پر مبنی قرارداد اور برطانوی فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد ان زمینوں پر حملے کرنا شروع کر دیئے جو قرارداد کے مطابق عربوں کے حصے میں آنا تھیں، تاکہ برطانیہ کے نکلنے سے پہلے موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی آئندہ حکومت کی سرحدوں کو پھیلا سکیں۔ یہ ناانصافی دیکھ کر عربوں نے اپنی جان اور وطن کا دفاع کرنے کی کوشش کی، لیکن چونکہ صہیونی پہلے ہی تیار تھے اس لئے انہوں نے جلد ہی حالات پر قابو پا لیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے اعلان اور فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کی درمیانی مدت میں پوری کوشش کی گئی کہ یہودی فلسطین پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کر لیں۔
ایک طرف فلسطینی مسلمان برطانوی افواج کی کڑی نگرانی میں تھے اور دوسری طرف ’’ہاگانہ‘‘ اور ’’اشترن آرگون‘‘جیسے دہشت گرد دستوں نے کئی قتل عام کر کے مسلمانوں پر اس طرح رعب اور دہشت بٹھا دی تھی کہ وہ لوگ کوئی مناسب ردعمل نہ دکھا سکے۔
 14 مئی 1948ء کو فلسطین میں برطانیہ کے نمائندہ اور دوسرے ارکان حکومت ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ شہر حیفا سے کشتی کے ذریعے نکل گئے۔ ابھی یہ فوج فلسطین سے نکلی بھی نہ تھی کہ ’’بن گوریان‘‘ کی جانب سے صہیونی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ عربوں نے اس اعلان کے بعد فیصلہ کیا کہ عربوں کی منظم فوج کو یہودیوں کے خلاف استعمال کیا جائے، صہیونی حکومت کے اعلان کے ایک دن بعد عرب فوج فلسطین میں داخل ہو گئی، فوج نے فلسطین میں صہیونی مقاصد کی مذمت کی اور اپنے تئیں اس سرزمین کے امن کا حامی گردانا، جنگ کے تمام محاذوں پر عربوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں حاصل ہوئیں اور مصر کی ہوائی فوج نے اس میں موثر کردار ادا کیا، لیکن فوج کی کمی، عرب فوجی سربراہوں کی یہودیوں کی حامی حکومتوں کے ساتھ وابستگی، بہت سے عرب سربراہان مملکت کی بے غیرتی اور برطانیہ کی جانب سے عربوں پر اسلحہ کی پابندی جیسے اسباب کی بناء پر عربوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یہ جنگ 8 روز جاری رہی اور بالآخر امریکی اور برطانوی مداخلت سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔
سرزمین فلسطین پر صہیونی تسلط کے عوامل میں سے ایک اہم عامل اکثر عرب سربراہوں کی سرمایہ داری نظام سے وابستگی تھی، مثال کے طور پر عرب اسرائیل جنگ کے دوران، سوائے اردن کے فوج کی سربراہی ایک انگریز میجر کلوپ پاشا کے ہاتھ میں تھی، 1919ء میں عرب افواج کے سربراہ فیصل بن شریف حسین (امیر مکہ) نے برطانیہ کے اُکسانے پر ’’وائز مین‘‘ کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا۔ جس میں فیصل کے انگریز دوست لارنس نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کے مطابق فیصل کے لئے ایک عرب سلطنت اور وائزمین کے لئے ایک خودمختار یہودی ریاست کی تجویز پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سابق برطانوی وزیراعظم چرچل نے اعتراف کیا ہے کہ اگر سلطان عبدالعزیز (اس وقت کے سعودی عرب کے حکمران) نہ ہوتے تو یہودی فلسطین پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔
صہیونی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد امریکی صدر ٹرومین نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر کے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا اور اس کے بعد فوجی اور اقتصادی امداد کا سیل رواں امریکہ سے اسرائیل کی جانب بہنے لگا۔ اس ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے والا تیسرا ملک روس تھا، جب کہ اس سے قبل بھی اسٹالن نے صہیونیوں کی کافی مدد کی تھی۔ صہیونیوں نے اپنی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد، مسلمانوں کی تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیدادیں ضبط کر لیں اور مسلمان دیہاتوں اور مقدس مقامات کو ویران کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر جوق درجوق قریبی ممالک کی جانب ہجرت کرنے لگے۔
بہت سے محقیقین اس بات پر متفق ہیں کہ صہیونیوں کے طاقتور ہونے کی ایک وجہ مسلمانون کی اجتماعی ہجرت رہی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات صرف حملے کی افواہ ہوتی تھی۔ محقیقن کہتے ہیں کہ اگر فلسطینی یہودیوں کی اس دہشت گردی کا مقابلہ کرتے تو غاصب حکومت کو قدم جمانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ فلسطین پر قبضہ نہ صرف ایک اخلاقی جرم ہے بلکہ کوئی حریت پسند اور آزاد فکر انسان کسی ملت کو اس کے وطن سے نکالنے کے عمل کا اچھا اقدام نہیں سمجھتا۔ اسی بنا پر فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے صہیونیوں کے اقدامات اور دعوے کسی بھی بین الاقوامی قانون پر پورے نہیں اُترتے اور اس حکومت کے تمام اقدامات غیرقانونی و غیراخلاقی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 92829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش