0
Thursday 22 Jul 2021 11:25

افغان حکومت پاکستان سے ناراض کیوں ہے؟؟

افغان حکومت پاکستان سے ناراض کیوں ہے؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

اسلام آباد سے افغان سفیر کی بیٹی کے اغواء کا ڈرامہ سکیورٹی اداروں نے ناکام بنا دیا ہے۔ لڑکی کے پورے سفر کی مفصل رپورٹ سامنے آنے کے بعد لڑکی آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے، جبکہ افغان صدر نے اتنی چھوٹی سی بات پر اسلام آباد سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ قبل ازیں افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کی تھی کہ طالبان کیساتھ ان کے معاملات طے کروا دیں، جس پر عمران خان نے کہا تھا کہ اب طالبان پورے افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں، آئے روز ضلع پہ ضلع فتح کر رہے ہیں، تو ایسے میں جب کوئی فاتح ہوتا ہے یا قوت میں ہوتا ہے، وہ کب کسی کی بات سنتا ہے۔ عمران خان نے امریکہ کی طرح افغان صدر کو بھی ’’صاف جواب‘‘ دے دیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان کی جانب سے اس ردعمل کو اپنی بے عزتی تصور کرتے ہوئے بھارت کیساتھ ہاتھ ملا لیا، یوں بھارت کی جانب سے بھاری اسلحہ افغانستان پہنچایا گیا، تاکہ افغان حکومت طالبان کا راستہ روک سکے۔

اسلحہ کی بھاری کھیپ کو لے کر بھارتی سی 17 طیارے اتر پردیش، جے پور اور چندی گڑھ سے روانہ ہوئے، جنہوں نے کابل اور قندھار ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے بعد اسلحہ افغان حکومت کے حوالے کیا۔ بھارت کی جانب سے افغان حکومت کو دیئے گئے اسلحہ میں 40 ٹن سے زائد گولیاں، بھاری گولہ بارود بھی شامل تھا۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں بیٹھ کر بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بہت سی سازشیں کیں اور بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ایسے عناصر پیدا کیے، جنہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کا ہولناک سلسلہ شروع کیا۔ پاکستانی خفیہ اداروں نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے را کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا اور ایسے عناصر کو منظر عام پر بھی لائے، جو بھارت کے ایماء پر پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔

اس سلسلے میں بہت سے ثبوت بھی بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھے گئے، جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھایا جا سکے، لیکن یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ بھارت کیخلاف واضح ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود عالمی برادری کی طرف سے محض زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اشرف غنی کی حکومت اس وقت ہچکولے کھا رہی ہے۔ طالبان تیزی سے افغانستان پر قابض ہو رہے ہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ طالبان بہت جلد کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیں۔ اس حوالے سے ایران اور روس نے بھی اپنے اپنے طور پر کردار ادار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے تہران میں طالبان اور افغان حکومت کے وفود کو بلا کر پُرامن طریقے سے معاملات طے کرنے کی تجویز دی تھی، یہی کچھ روس نے بھی کیا۔ اب افغان حکومت اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتی ہے جبکہ پاکستان اس معاملے میں کلیئر پوزیشن پر کھڑا ہے۔

اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کا ڈرامہ ’’را‘‘ کا تیار کردہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید واضح کہہ چکے ہیں کہ ہمارے ادارے معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ ایک لڑکی گھر سے پیدل نکلی، کھڈا مارکیٹ پہنچ کر وہاں سے ٹیکسی ہائر کرتی ہے۔ وہاں سے وہ راولپنڈی جاتی ہے، راولپنڈی سے دامنِ کوہ آتی ہے اور دامنِ کوہ سے تیسری ٹیکسی لیتی ہے۔ اس پورے سفر میں جتنے ٹیکسی ڈرائیور استعمال ہوئے، وہ سارے کے سارے پولیس کیساتھ رابطے میں ہیں۔ سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے افغان سفیر کی بیٹی کے اس پورے سفر کو مانیٹر کیا گیا۔ لڑکی کی چوری اس حرکت سے پکڑی گئی کہ اس نے اپنے موبائل سے تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا۔ سکیورٹی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اور بہت جلد حقائق سامنے آجائیں گے۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد افغان حکومت خود کو بے یارو مدد گار سمجھ رہی ہے۔ ان حالات میں افغان حکومت کے عہدیداروں نے پاکستان پر الزام تراشی کا بھی ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے بھی ٹویٹر پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ نے افغان فوج اور افغان فضائیہ کو سرکاری طور پر تنبیہہ کی ہے کہ اگر طالبان کو سپین بولدک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کا جواب پاکستانی فضائیہ دے گی۔ پاکستان نے اس الزام کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اس سے قبل تاشقند میں اشرف غنی نے بھی الزام عائد کیا کہ پاکستان سے دس ہزار جنگجو سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اشرف غنی کے اس بے بنیاد الزام کو وہیں مسترد کر دیا۔ عمران خان نے افغان صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کہہ رہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کریں تو اس وقت اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی اور اب جب طالبان فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں تو ان کیساتھ بات چیت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

عمران خان کے بقول فاتح کب کسی کی بات سنتے ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد بھارت کی افغانستان میں اربوں روپے سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ بھارت کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اشرف غنی حکومت بچ جائے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔ پاکستان، چین، ایران اور روس کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ افغانستان اب اشرف غنی کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کا ہونا بھی خارج از امکان نہیں۔ لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں ہونیوالے دھماکے کی کڑیاں دہلی سے مل چکی ہیں، اسی طرح چینی انجینئرز کی بس میں دھماکہ بھی بھارت کی ہی سازش دکھائی دیتا ہے۔ آگے محرم الحرام کی آمد آمد ہے، ایسے موقع پر رش کے باعث دہشتگردی کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے، بھارت اس سافٹ ٹارگٹ سے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے پاکستانی اداروں کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔

جہاں تک پاکستان میں طالبان کے اثرات کا سوال ہے تو اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان طالبان کی فکر تو تبدیل ہوچکی ہے اور وہ اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر چلنے کا عزم بھی کرچکے ہیں، لیکن پاکستان میں طالبان کے حامی تکفیری ہیں، جو افغانستان میں طالبان کے مضبوط ہونے پر یہاں دوبارہ سر اُٹھا سکتے ہیں۔ ان تکفیریوں کے عزائم خطرناک اور ملکی امن کیلئے خطرہ ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ایسی کالعدم جماعتیں جن کے رہنماء نام بدل کر فعال ہیں، یا اپنی سرگرمیاں خفیہ انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کیخلاف تادیبی کارروائی عمل میں لانا ہوگی۔ یہ کام تو حکومتی اداروں کے کرنے کے ہیں، ہاں، جو کام علماء کے کرنے کا ہے وہ، امن و امان، بھائی چارے اور یکجہتی کی فضا قائم کرنا ہے۔

گذشتہ برس بھی محرم الحرام سے قبل تمام مکاتب فکر کے علماء سر جوڑ کر بیٹھے تھے اور یہ طے ہوا تھا کہ کسی کے مقدسات کی توہین پر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے بلکہ جو ذمہ دار ہو، اسی شرپسند کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور پھر ایسا ہی ہوا اور دشمن کے عزائم باہمی اتحاد کی بدولت خاک میں ملا دیئے گئے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے کرام دوبارہ مل بیٹھیں اور دشمن کی ان سازشوں کا تدارک کریں، بھائی چارے کی فضا پیدا کرکے پاکستان کی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ ہماری حکومت نے اگر ’’خودی‘‘ کے جذبے کے تحت جینے کا فیصلہ کیا ہے تو ہمیں اپنی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ غلامی کے دور سے نکلنے کیلئے قربانی دینا پڑتی ہے، لیکن اور تدبیر کرلی جائے تو اس قربانی سے بچا جا سکتا ہے۔ افغانستان کی ناراضی دراصل بھارت کی ناراضی ہے اور ہمیں اپنا مفاد عزیز ہونا چاہیئے، بھارت جب آر ایس ایس کے نظریئے سے باہر نکلے گا تو وہاں بھی امن ہو جائے گا۔ ہمیں فی الحال اپنے ملک میں امن قائم کرنا ہے اور وہ ہماری باہمی وحدت اور اخوت سے ہی ممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 944159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش