0
Wednesday 21 Jul 2021 16:31

ایٹمی معاہدے میں واپسی کی مہلت آخری مرحلے میں!

ایٹمی معاہدے میں واپسی کی مہلت آخری مرحلے میں!
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ویانا مذاکرات کو اب ایران میں نئی حکومت کی تشکیل کا انتظار کرنا ہوگا۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایران میں اقتدار کی منتقلی کا عمل جاری ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں تاکید کی ہے کہ ویانا مذاکرات کو اب ایران میں نئی حکومت کی تشکیل کا انتظار کرنا ہوگا اور یہ ہر جمہوریت کا تقاضا ہے۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کو چاہیئے کہ اس نکتے کو درک کرنا ہوگا کہ قیدیوں کے تبادلے کا جو مرحلہ اب انجام پانے والا ہے، اسے ایٹمی معاہدے سے نہ جوڑیں۔ انھوں نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کو سیاسی اہداف کی بھینٹ چڑھانا تبادلے کے عمل اور سمجھوتے کی بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایٹمی معاہدے کے بارے میں ویانا مذاکرات میں ایرانی وفد کے سربراہ نے کہا کہ دس قیدی تمام فریقوں کی جانب سے ابھی کل ہی رہا کئے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ امریکہ اور برطانیہ سمجھوتے میں کئے جانے والے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے بھی امریکی حکام کے دعوے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ایران آج ہی قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے پر عمل کرنے کے لئے تیار ہے۔ انھوں نے اتوار کے روز اپنے ایک ٹوئٹ میں سب فریقوں کے دس قیدیوں کے تبادلے اور ان کی رہائی اور انسان دوستانہ عمل سے متعلق امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ہونے والی مفاہمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران آج ہی اس مفاہمت و سمجھوتے پر عمل کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ خارجہ کے ترجمان نے لکھا ہے کہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اس سادہ حقیقت سے بھی انکاری ہے کہ گرفتار شدہ افراد کے بارے میں ایک سمجھوتہ طے پایا ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے فرار کر رہا ہے کہ کس طرح سے اس کا عام اعلان کیا جائے۔ انھوں نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی بحالی کے بارے میں ویانا مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ویانا میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے بارے میں مذاکرات کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور تمام فریقوں کے دس افراد کی رہائی کے بارے میں بھی مذاکرات اور سمجھوتہ طے پایا ہے۔

امریکی وزات خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں جب اقتدار کی منتقلی کا عمل پورا ہو جائے گا تو امریکہ ویانا مذاکرات جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ مذاکرات جاری رکھنے کے لئے تیار تھا مگر ایران نے اقتدار کی منتقلی کے عمل کی بنا پر مزید وقت درکار ہونے کی خواہش ظاہر کر دی۔ یاد رہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ چودہ جولائی دو ہزار پندرہ کو ویانا میں ایران، یورپی یونین اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہوا تھا، جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی شامل تھے۔ مگر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ  2018ء کو اس بین الاقوامی معاہدے سے کہ جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق بھی کی تھی، یکطرفہ طور پر علیحدگی اور ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ ٹرمپ نے اسی کے ساتھ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا، جس کے اہداف حاصل کرنے میں انہیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔

چھے سال پہلے ایٹمی معاہدے نے سلامتی کونسل کے ساتویں منشور کے معاملے کو جنگ کا سہارا لیے بغیر حل کر دیا تھا، لیکن امریکی صدر نے اس عالمی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔ امریکہ کے اس وقت کے صدر باراک اوباما نے  یقینی طور پر سمجھ لیا تھا کہ خود ان کے خیال میں ان کی مفلوج کر دینے والی پابندیاں نہ تو ایران کو اور نہ ہی اس کی ایٹمی سرگرمیوں کو مفلوج کر پائیں گی۔ دوسری طرف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ تصور کر بیٹھے تھے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کے ذریعے یہ کام کیا جاسکتا ہے، جو ان کی سادہ لوحی تھی، کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ اب امریکہ کی جو بائیڈن حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ویانا مذاکرات کے ذریعے ایٹمی معاہدے میں واپسی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے اقتدار میں آنے سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی بارہا یہی کہا ہے کہ امریکہ ویانا مذاکرات کے تحت ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے لئے تیار ہے۔

ان کی انتظامیہ نے بھی بارہا اس بات کا میڈیا میں اعتراف کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے، مگر امریکہ کی موجودہ حکومت نے بھی اب تک بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لئے کوئی موثر عملی اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ پابندیوں سے ایرانی عوام کو  پریشانی ضرور ہوئی، لیکن گذشتہ چالیس بیالیس برس کے تجربات یہ واضح اعلان کر رہے ہيں کہ ایران کو جھکانا ممکن نہيں ہے، ایران نے شدید پابندیوں کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی اور دفاعی میدان میں ترقی کی ہے اور امریکہ نے اگر ان مذاکرات کو نتیجے تک نہيں پہنچایا تو ایران یورینیم کی ساٹھ فیصد افزودگی تو کر ہی رہا ہے، آپ یقین رکھیں اگر امریکہ نے لیت و لعل سے کام لیا تو اس کے بعد یورینم کی نوے فیصد افزدوگی بھی کوئی مشکل کام نہیں اور پھر شاید معاہدے میں واپسی کے لئے بھی دیر ہوچکی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 944488
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش