1
2
Tuesday 27 Jul 2021 06:10

کیا ہم ٹی وی ڈرامے دیکھنا بند کر دیں؟

کیا ہم ٹی وی ڈرامے دیکھنا بند کر دیں؟
تحریر: مہر عدنان حیدر

کل ایک جگہ لکھا تھا کہ "سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی ڈراموں میں لوگ آفس ہی کیوں جاتے ہیں، کیا ان کی دکانیں، ٹھیلے، پتھارے یا کھوکھے نہیں ہوتے۔" بظاہر یہ  طنزیہ فقرہ ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، مگر یہ سوچنے والے کی فہم و فراست سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اس کو کس نظر سے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ معاشرے میں بہت کم لوگ ہی سوچتے ہیں مگر وہ کس نظر اور کس زاویئے سے سوچتے ہیں، یہ الگ بات ہے۔ سب سے پہلے آپ یہ بات تسلیم کریں گے کہ ڈرامہ یا فلم کسی بھی معاشرے کی بود و باش کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈرامہ کسی معاشرے کی ہو بہو تصویر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا ڈرامے میں ادا  ہونے والے کردار معاشرے میں موجود کرداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

دوسری طرف معاشرے کا عام سے لے کر خاص انسان یعنی غریب سے امیر تک ہر کوئی آئیڈیل کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اس آئیڈیل کو اور مزید آسان بناؤ تو کہہ سکتا ہوں کہ ہر کوئی خواب دیکھتا ہے، کیونکہ خوابوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور ہر کوئی خواب دیکھ سکتا ہے اور ڈرامے میں دکھائی جانے والی زندگی اور بود و باش کسی معاشرے کی آئیڈیل تہذیب کو پیش کرتی ہے اور ان خوابوں کی نمائندگی کرتی ہے، جو ایک شخص دیکھ سکتا ہے، آپ لاکھ انکار کریں کہ ڈرامہ دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈرامہ دیکھنے سے لوگوں کی زندگی میں بہت فرق پڑتا ہے، کیونکہ ڈرامہ ایک آئیڈیل چیز دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ وہ چیز آئیڈیل ہوتی ہے یا پھر خام چیز کو آئیڈیل بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔

خیر ڈرامہ ایک نام نہاد آئیڈیل چیز دکھا رہا ہوتا ہے، جو ہر دوسرے انسان کو ترغیب دلاتی ہے کہ اسے اختیار کرے۔ آپ خواتین کے لباس کو ہی دیکھ لیں، آج معاشرے کی اکثر خواتین ویسے لباس پہننا پسند کرتی ہیں، جیسا ٹی وی ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہوتا ہے، یا جیسے  ایک ماڈل نے پہن رکھا ہوتا ہے۔ اس میں فرق نہیں کہ وہ عورت  گاؤں کی ہو یا شہر کی۔ جو خواتین ان کے جیسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں، ان میں اور کچھ بھی نہ ہو تو خواہش اور بے چینی لازمی پیدا ہوتی ہے، جو ڈرامے، ٹی وی اور ان جیسے دیگر ذرائع کی مرہون منت ہے۔

دوسری طرف مرد حضرات ہیں، جس طرح ایک ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہوتا ہے، یعنی وہ بھی یہی تمنا رکھتے ہیں، آئیڈیل گھر، آئیڈیل بیوی، گویا اگر ماڈل نہ ہو تو اس سے کم بھی نہ ہو اور اس جیسی بہت سی چیزوں کی خواہشات ایک ڈرامے سے نہ چاہتے ہوئے انسانی دماغ قبول کرتا ہے، جس سے ان کی خواہشات میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور زندگی کی بے سکونی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ ہر شخص کے بس میں سب کچھ نہیں ہوتا اور ایک معاشرے کا حسن بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ تمام خدوخال کا مرکب اور مجموعہ ہوتا ہے۔ اس میں امیر بھی رہتا ہے، غریب بھی اور فقیر بھی۔ لیکن موجودہ ڈرامے جہاں معاشرے کی اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں، وہاں معاشرے میں طبقاتی کشمکش میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ٹی  وی ڈرامے دیکھنا بند کر دیں۔؟ یقیناً یہ موجودہ ماحول میں موضوع سوال ہے، جو ہر ایک سنجیدہ دماغ کو سوچنا چاہیئے۔ یہ وہ سوال ہے، جو ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں سے سوچنا ہے اور غور کرنا ہے کہ کون سی چیز ہمارے معاشرے میں طبقاتی بگاڑ، کشمکش اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ نہیں کہ ڈرامہ ہی ہمیں یہ تمام چیزیں دان کر رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا کی شکل میں یہ چیز اب جدید شکل میں آچکی ہے، لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیئے، یہ فیصلہ لکھاری کو نہیں بلکہ قاری کو کرنا ہے۔ ما علینا الا البلاغ۔
خبر کا کوڈ : 945314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رضابلوچ
Pakistan
ما شاء اﷲ
خدا کرے زور قلم اور زیادہ
ہماری پیشکش