1
Wednesday 28 Jul 2021 22:32

تیونس کے کشیدہ حالات اور ممکنہ مستقبل

تیونس کے کشیدہ حالات اور ممکنہ مستقبل
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
تیونس اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس ملک میں پہلے سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی اور جب یہ کشیدگی حکومت کے تمام شعبوں تک سرایت کر گئی اور اکثر حکومتی ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے تو تیونیس کے صدر قیس سعید نے راست اقدام کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے ملک کے آئین کی شق نمبر 80 کا سہارا لیتے ہوئے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو ختم کر دیا اور پارلیمنٹ کو بھی معطل کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کو حاصل قانونی استثناء بھی ختم کر دیا اور ملک کے اجرائی امور اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ تیونسی صدر کے یہ اچانک اور غیر متوقع اقدامات ان کے سیاسی مخالفین خاص طور پر پارلیمنٹ میں اکثریت کی حامل سیاسی جماعت "النھضہ" کیلئے شدید دھچکے کا باعث بنے۔
 
تیونس کے صدر قیس سعید کے سیاسی مخالفین نے ان پر آمریت کا الزام عائد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ مذکورہ بالا اقدامات کا مقصد اقتدار ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے۔ انہوں نے صدر کے ان تمام فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ دوسری طرف تیونس کے سیاسی امور سے آگاہ بعض ماہرین ایسے بھی ہیں جو صدر قیس سعید کے ان فیصلوں کو عوام کی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ ان فیصلوں کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ یاد رہے تیونس کے صدر کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں اور گذشتہ عرصے میں ان کی حمایت میں عوامی مظاہرے بھی منعقد ہوتے رہے ہیں جس سے ان کا عوامی مینڈیٹ ظاہر ہوتا ہے۔ تیونسی صدر قیس سعید کے حالیہ فیصلوں اور اقدامات کو درست انداز میں سمجھنے کیلئے ان حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے تناظر میں وہ یہ اقدامات انجام دینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
 
گذشتہ چھ ماہ سے تیونس میں سیاسی کشمکش جاری ہے۔ سب سے پہلے صدر قیس سعید کے خلاف حکمران طبقے اور میڈیا میں مخالف کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سابق وزیراعظم ہشام المشیشی نے صدر کے احکام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث اقتصادی بحران کی شدت میں بھی اضافہ ہو چکا تھا اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا شروع ہو گیا تھا۔ لہذا ان تمام حالات نے مل کر صدر قیس سعید کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت النھضہ پارٹی کی پارلیمنٹ میں اکثریت تھی اور النھضہ پارٹی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی اسپیکر کے عہدے پر فائز تھے۔ پارلیمنٹ بھی صدر کے خلاف سابق وزیراعظم کی بھرپور حمایت میں مصروف تھی۔
 
اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ تیونس میں پارلیمانی نظام اجرا ہونے کے آغاز سے ہی بعض ایسے مسائل موجود رہے ہیں جن کی وجہ سے عوام کی اکثریت اس نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرتی آئی ہے اور تیونسی صدر کے حالیہ فیصلے اور اقدامات درحقیقت اسی عوامی مطالبے کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدر قیس سعید بھی اس عوامی مطالبے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ اب اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ عوامی سطح پر ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد آئین میں ضروری تبدیلیاں انجام پائیں اور ملک کے موجودہ نظام حکومت کی اصلاح انجام پائے۔ تیونس کے صدر نے بہت ذہانت سے ملک میں موجود سیاسی بحران پر قابو پایا ہے۔ انہوں نے آغاز میں صرف اپنی مخالفت اور ناراضگی کے اظہار پر اکتفا کیا لیکن جب عوامی مخالفت عروج پر پہنچی تو راست اقدام انجام دیا۔
 
جب تیونس میں حکومتی نظام کی مخالفت کا آغاز ہوا تو تیونسی صدر نے دبے الفاظ میں مخالفین کا ساتھ دیا۔ یوں عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ قیس سعید ایک کمزور صدر ہیں جو کسی سیاسی جماعت سے بھی وابستہ نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ تیونس کے صدر قیس سعید اس قدر فیصلہ کن اور جرات مندانہ قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ تیونس میں عوام کی اکثریت ملک میں موجود سیاسی کشیدگی اور بحران کا ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی صدر سے نافرمانی کو قرار دیتے تھے۔ اسی طرح صدر قیس سعید کا یہ اقدام بھی انتہائی ذہانت پر مبنی ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو توڑا نہیں بلکہ اسے صرف "معطل" قرار دیا ہے اور اس کی سرگرمیوں کو روک دیا ہے۔
 
تیونس کے صدر قیس سعید کیلئے اس راست اقدام کا امکان فراہم کرنے میں مختلف اسباب کارفرما تھے۔ پہلا سبب مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے ان کی حمایت کا اعلان تھا۔ دوسرا سبب ملک کی بڑی پارٹی ورکرز یونین کی جانب سے غیر جانبداری کا اعلان تھا۔ اس یونین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ صدر کا اقدام ملکی آئین سے نہیں ٹکراتا۔ اسی طرح ایک اور سیاسی پارٹی الدستوری الحر نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ صدر قیس سعید کے اس فیصلے میں سہولت فراہم کرنے والا تیسرا اہم سبب عوامی حمایت تھی۔ جب النھضہ پارٹی کے سربراہ نے صدر کے اس فیصلے کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کیا تو بہت کم تعداد نے اس میں شرکت کی اور عوام کی اکثریت نے اس میں شرکت نہیں کی۔
خبر کا کوڈ : 945641
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش