1
3
Sunday 12 Sep 2021 10:42

علامہ شہنشاہ نقوی کو مجلس سے روکے جانے کے واقعہ کا پیش منظر، پس منظر اور اس میں چھپی عبرتیں

علامہ شہنشاہ نقوی کو مجلس سے روکے جانے کے واقعہ کا پیش منظر، پس منظر اور اس میں چھپی عبرتیں
تحریر: سید یاور علی کاظمی

اسلام آباد کے مرکزی امام بارگاہ G-6/2 میں علامہ شہنشاہ حسین نقوی صاحب کا سالانہ خمسہ انجمن ذوالفقار حیدری کے زیر اہتمام ہوتا ہے، لیکن امسال خمسہ سے کچھ دن قبل علامہ شہنشاہ نقوی صاحب کے اسلام آباد داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔۔۔ کچھ مخلص لوگ رضاکارانہ طور پر آگے آتے ہیں اور بانیان مجلس اور علامہ صاحب کی طرف سے معاملات کے حوالے سے جس حد تک آمادگی و رضامندی ظاہر کی جاتی ہے، اس حد تک معاملات کو حل کرواتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجلس عزاء کی انتظامیہ بیک فٹ پر جاتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ کی سراسر ناجائز و بلاجواز پابندی کو قبول کرتے ہوئے 10 لاکھ کے زرضمانت کے عوض مشروط اجازت پر قانع ہو جاتی ہے۔۔۔۔

یکم صفر کو علامہ شہنشاہ نقوی صاحب مشروط اجازت کے تحت مجلس سے خطاب کرتے ہیں، جڑواں شہروں کے مومنین علامہ صاحب پر پابندی کا سن کر اظہارِ یکجہتی کے لیے روٹین سے ہٹ کر غیر معمولی حد تک جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔ امام بارگاہ اور اس سے باہر تک عوام کا جم غفیر ہوتا ہے۔ علامہ صاحب کا جذباتی نعروں کے ساتھ پرتباک استقبال بھی ہوتا ہے۔ مجلس کے آغاز میں ہی مجلس عزاء کے بانیان و انتظامیہ باقاعدہ ممبر سے سپیکر پر اسلام آباد انتظامیہ کا سپیشل شکریہ بھی ادا کرتی (نہیں معلوم یہ شکریہ کس بات کا تھا؟) اسی طرح دوسری مجلس بھی گزر جاتی ہے۔۔۔۔ اور عوام اب تک اسی سادگی و خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہے کہ پنجاب حکومت نے علامہ صاحب کے سامنے دونوں گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور تمام تر پابندیاں ہٹا لی ہیں.۔۔۔۔۔۔

پھر اگلی شام آتی ہے اور ترتیب کے مطابق علامہ صاحب نے تیسری مجلس سے خطاب کرنا ہوتا ہے، لیکن اسلام آباد انتظامیہ پہلی مجلس پر ادا کیا گئے فری کے شکریے، زرضمانت اور تمام تر یقین دہانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے علامہ شہنشاہ نقوی صاحب کو مجلس عزاء سے خطاب کرنے سے یہ کہہ کر روک دیتی ہے کہ اسلام آباد کی مسجد ضرار المعروف لال مسجد کی طرف سے پریشر ہے اور علامہ صاحب امام بارگاہ تشریف لے آنے کے باوجود خطاب نہیں فرماتے۔۔۔۔ (یہاں اسلام آباد انتظامیہ سے سوال یہ بنتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ لال مسجد کہ جو علی الاعلان موجودہ پاکستانی نظام اور اس کے آئین کو کفریہ کہتی ہے اور واضح طور پر اینٹی سٹیٹ ہے تو پھر کس اخلاقی و قانونی اصول کے تحت ان کے پریشر میں آکر وہ امام بارگاہ کے اندر ہونے والے ایک پرامن عزاداری کے پروگرام کو بند کرواتی ہے۔) 

 اب عوام جو اب تک یہی سمجھ رہی تھی کہ جناب حکومت تو گھٹنے ٹیک چکی تو اس کے لیے یہ صورت حال بڑی تشویشناک اور حیران کن ہوتی ہے اور وہ ممبر حسینی و مجلسِ عزاء پر پابندی کی اس جرأت و جسارت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے احتجاجاً ڈی چوک کی طرف مارچ شروع کر دیتی ہے اور ان کا مطالبہ فقط یہی ہوتا ہے کہ اس بلاجواز پابندی کو فی الفور ختم کیا جائے اور علامہ شہنشاہ حسین نقوی صاحب اپنی ہی کی گئی تبلیغ و پیغام حسینی پر عمل کرتے اس بلاجواز پابندی کو رد کرتے ہوئے ڈی چوک میں تشریف لائیں اور مومنین سے وہاں خطاب کریں۔۔۔۔

اس مطالبہ کو لیے ہوئے فلک شگاف نعروں کے ساتھ عوام کا جم غفیر ڈی چوک پہنچ جاتا ہے، لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود نا صرف یہ کہ علامہ شہنشاہ حسین نقوی صاحب وہاں تشریف نہیں لاتے بلکہ مجلسِ عزاء کے بانیان بھی وہاں موجود ہزاروں مومنین کے احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیں اور مومنین فجر تک اسی انتظار میں خواتین و بچوں کے ساتھ وہیں بیٹھے رہتے ہیں کہ شاید اب علامہ صاحب آجائیں گے۔۔۔۔ شاید اب آجائیں گے۔۔۔۔ اور کئی گھنٹوں کے بعد بالآخر اس لولی پوپ کے ساتھ مجبوراً احتجاج ختم کر دیا جاتا ہے کہ کل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ہونگے اور اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پھر دوبارہ احتجاج کی کال دی جائے گی۔۔۔۔

اب آتے ہیں اس میں موجود عبرتوں کی طرف۔۔۔۔۔
1۔ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی قدس سرہ نے ایک موقع پر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ " آئندہ علم عباس علمدار وہی لگائے، جو اس کے تقدس کی حفاظت بھی کرسکے۔" لہذا اس عظیم فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے بانیان مجالس و خطباء سے بھی گزارش ہے کہ آئندہ مجلس بھی وہی کروائے اور منبر حسینی پر خطاب بھی وہی کرے، جو بوقت مشکل استقامت کا مظاہرہ کرسکے اور میدان خالی نہ چھوڑے۔

2۔ عوام کو چاہیئے کہ پانی سر تک پہنچنے کے بعد ردعمل دکھانے کی بجائے برائی کو ابتداء میں ہی بروقت اقدام، استقامت اور میدان میں حاضر رہ کر روکا کریں، جیسا کہ بطورِ مثال جب اسی اسلام آباد کا DC گذشتہ سال تکفیریوں کے جلسہ میں اسٹیج پر تشریف فرما ہوا تھا، تب ردعمل دکھانا چاہیئے تھا، جب اسی اسلام آباد میں کچھ ماہ قبل معروف عالم دین علامہ سخاوت قمی صاحب پر بلاجواز FIR کاٹی گئی تھی، تب ردعمل دکھانا چاہیئے تھا، تاکہ اب اسلام آباد انتظامیہ کو اس جسارت کی جرات ہی نہ ہوتی۔

3۔ معاشرے کے خواص کو چاہیئے کہ Under the Table اور اداروں سے Out Of The way Favour لے کر ڈنگ ٹپاو پالیسی کی بجائے عوامی طاقت اور توکل علی اللہ کرتے ہوئے جرات کے ساتھ اپنے جائز قانونی حقوق کے لیے قانونی و عوامی جستجو کریں اور عوام کو ہر موقع پر اصل حقائق اور مشکلات سے مکمل آگاہ کرتے ہوئے انہیں مکمل اعتماد میں رکھیں، عوام سے سارا سال مسلسل مربوط رہیں، تاکہ عوام بھی بوقت ضرورت مشکلات کا درست ادراک کرتے ہوئے آپ پر اعتماد کرے اور ساتھ دے سکیں۔

4۔ مؤمنين، بانیان مجالس، علاقائی انجمنوں، بارگاہ و مساجد کی ٹرسٹیز اور بالخصوص خطباء کو یہ سمجھنا چاہیے کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہاء کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

یعنی ملت کے یہ تمام طبقات جب تک ایک منظم قومی اجتماعی سیٹ اپ کو مضبوط نہیں کریں گے، تب تک انہیں انہی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ لہذا ملت کے یہ تمام طبقات بصیرت و شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود غور و فکر کریں، حالات کو پرکھیں، ملت کے ماضی پر نظر دوڑائیں، اپنے اپنے حافظہ پر زور ڈالیں اور مکمل انصاف کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ آخر وہ کون سا قومی و اجتماعی سیٹ اپ ہے، جو ملت کے ہر مشکل وقت میں میدان میں حاضر اور ملت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، چاہے وہ پاراچنار کا محاصرہ ہو، سانحہ بابو سر و چلاس ہو، سانحہ علمدار روڈ ہو، سانحہ کوئٹہ ہو، سانحہ مچھ ہو یا سانحہ عاشورا راولپنڈی ہو۔۔۔۔۔۔۔

5۔ اور آخر میں ایک اہم ترین بات یہاں ضرور ذکر کرنا چاہوں گا کہ ملت کے حقوق کی جنگ ایک دو دن، ایک دو ہفتہ یا ایک دو مہینوں میں فقط جذباتی ردعمل کے ساتھ نہیں لڑی جاسکتی، بلکہ یہ ایک طولانی جدوجہد ہے، جس میں طرح طرح کی مصائب و مشکلات بھی آئیں گی۔ لہٰذا ایک مضبوط اور مؤثر حیثیت کے حصول کے لیے ہمیں سیاسی، سماجی، تعلیمی و معاشی ہر لحاظ سے مضبوط ہونا ہوگا۔۔۔۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ملت انتخابات اور مستقبل کے پالیسی و قانون میکرز کے انتخابات کے وقت تو پیپلز پارٹی، نون لیگ، قاف لیگ، تحریک انصاف وغیرہ کو ووٹ دے یا پھر بائیکاٹ کرکے لاتعلق ہوکر میدان دشمنوں کے لیے خالی چھوڑ دے اور اپنی ہی ملت کے علماء کو کمزور کرے اور پھر جب خدانخواستہ کوئی ناگہانی مشکل پیش آئے تو علماء کو پکارنا شروع کر دے، لہذا ملت تشیع کو اب سابقہ غلطیوں اور مشکلات و مصائب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلیاں لانا ہونگی، تاکہ ہم ایک مضبوط قوت بن سکیں، وگرنہ یاد رکھیں:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
خبر کا کوڈ : 953437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شاہد عباس ہادی
Pakistan
درست
عبرت لینے کا مقام ہے، آئے روز ایک عالم، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک صحافی، ایک تجزیہ نگار، ایک عزادار کو جب نشانہ بنانے لگ جائیں تو سمجھ جانا چاہیئے کہ قربانی کا وقت ہے۔
گذشتہ رات کی طرح ہوتا رہا تو قوم مایوس ہوگی، جس کا خمیازہ بہت بھیانک ہوگا۔ لیڈرشپ بھی کچھ ہوش کے ناخن لے، یہ صرف علامہ شہنشاہ نقوی صاحب کا معاملہ نہیں، ہزاروں علماء و عزاداران کا مسئلہ ہے۔ شیعہ ملت کو کافر قرار دیا جا رہا ہے۔ قادیانیوں کی طرح اقلیت قرار دینے کا ناپاک منصوبہ ہے۔ لیڈرشپ کی خاموشی اور ان کا طریقہ قوم کو مایوس نہ کرے۔ خدارا متحد ہوں، اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنائیں۔
ہماری پیشکش